باقی نامہ

اسلام وعلیکم امید ہے تمام احباب بخیریت ہوں گے ایک نظم کا ابتدائی حصہ اصلاح کی غرض سے لے کر حاضر ہوں۔
اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب و جناب الف عین صاحب سے گزارش ہے کہ نظر کرم فرمائیں۔
اور دیگر صاحبان علم و محفلین سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی کھلے دل سے اپنی آرا پیش کریں۔

باقی نامہ

کوئی دیوانہِ مے کشی ہو گیا
کوئی افسانہ قیس میں کھو گیا
کوئی لیلی کی زلفوں تلے سو گیا
کوئی تہذیب نو کا امیں ہو گیا
نام لے لے کے تیرا مچلتے رہے
تیرے دیوانے تجھ پہ ہی مرتے رہے

اے مکین ِ عربﷺ یعنی محبوبِ ربﷺ
تیرے عشاق تجھ پہ ہی مرتے ہیں سب
کیا خلیلؔ
علیہ السلام و نجیؔ علیہ السلام کیا مسیحؔعلیہ السلام و صفیؔعلیہ السلام
سب مکرم مگر کوئی تجھ سا ہے کب
ذکر کرتے رہے آ ہیں بھرتے رہے
تیرے دیوانے تجھ پہ ہی مرتے رہے

عہد ہو پر فتن سے کوئی پر فتن
جادہ پیما ہوئے بن کے شعلہ بدن
سوزِ صدیقؔ
رضی اللہ عنہ بھی ، شاہِؔ خیبر شکنرضی اللہ عنہ
کربلا میں حُسین
رضی اللہ عنہ ، اور وطن میں حسنؔ رضی اللہ عنہ
سر بھی نیزے پہ قرآن پڑھتے رہے
تیرے دیوانے تجھ پہ ہی مرتے رہے

ہو خبابؔ
رضی اللہ عنہ عرب یا بلالؔ رضی اللہ عنہ عجم
تیرے مستانوں جیسا کسی کا ہے دم؟
ظلم کی انتہا کر دی کفار نے
حوصلہ کچھ مگر کر سکے وہ نہ کم
ظلم سہتے رہے کلمہ پڑھتے رہے
تیرے دیوانے تجھ پہ ہی مرتے رہے

تیرے دیوانے سب ہی ہیں عالی مقام
ذکر ان کا رہا ہے رہے گا مدام
کیسے کیسے پیے ہیں شہادت کے جام
"شیرِ غران سِطوت پہ لاکھوں سلام"
تیر چلتے رہے دم نکلتے رہے
تیرے دیوانے تجھ پہ ہی مرتے رہے
 
آخری تدوین:
ماشاءاللہ، بہت عمدہ۔ شاعری کے حوالے سے تو اساتذہ ہی رائے دیں گے۔
دو توجہات
صحابی کا نام درست کر لیں خباب رض نام تھا
اور صحابہ کے نام پر رض والی علامت ڈال دیں
جزاک اللہ
 
ماشاءاللہ، بہت عمدہ۔ شاعری کے حوالے سے تو اساتذہ ہی رائے دیں گے۔
دو توجہات
صحابی کا نام درست کر لیں خباب رض نام تھا
اور صحابہ کے نام پر رض والی علامت ڈال دیں
جزاک اللہ
بہت بہت شکریہ پزیرا ی کے لیے۔۔
اور تدوین کردی ہے
جزاک اللہ
 
کوئی دیوانہِ مے کشی ہو گیا
کوئی افسانہ قیس میں کھو گیا
کوئی لیلی کی زلفوں تلے سو گیا
کوئی تہذیب نو کا امیں ہو گیا
نام لے لے کے تیرا مچلتے رہے
تیرے دیوانے تجھ پہ ہی مرتے رہے

ترکیب سازی وغیرہ کی بات بعد میں کریں گے، موجودہ ہیئتِ معنوی میں یہ نعتیہ کلام ہے۔ مندرجہ بالا چھ مصرعوں(یعنی پہلے بند) پر توجہ چاہتا ہوں:
پہلے چار مصرعوں میں مذکور طبقات: ایک شراب میں ڈوب گیا، ایک مجنوں کے افسانوں میں، ایک لیلیٰ کی زلفوں میں اور ایک کو تہذیبِ نو لے بیٹھی۔ آخری دو مصرعوں کے معانی ان طبقات سے لگا نہیں کھا رہے۔ کہ یہ چاروں نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مچلنے والے ہیں اور نہ ہی آپ پر دیوانہ وار مرنے والے۔

اگر اس بند میں "تو (صیغہ حاضر)" سے مراد کوئی اور ہے تو اِس کو بقیہ نظم سے الگ کرنا ہو گا کہ وہ تو ساری کی ساری نعت ہے۔
 
فوری تاثر بہت اچھا اور زور دار بنتا ہے۔ عنوان "باقی نامہ" کی معنویت کو نہیں پہنچ سکا ہوں، مناسب سمجھیں تو بتا دیں۔
استاد محترم باقی نامہ کی لفظی معنویت تو آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ میں نے تو اس کو اسلام کے باقی رہنے کے حوالے سے چنا ہے۔ ویسے یہ ختمی نہیں ہے نظم ابھی ابتداءی مراحل میں ہے۔ آپ کچھ تجویز کر دیں تو بہت خوب۔
 
آخری تدوین:
اے مکین ِ عربﷺ یعنی محبوبِ ربﷺ
تیرے عشاق تجھ پہ ہی مرتے ہیں سب
کیا خلیلؔ
علیہ السلام و نجیؔ علیہ السلام کیا مسیحؔعلیہ السلام و صفیؔعلیہ السلام
سب مکرم مگر کوئی تجھ سا ہے کب
ذکر کرتے رہے آ ہیں بھرتے رہے
تیرے دیوانے تجھ پہ ہی مرتے رہے

دوسرا اور چھٹا مصرع: معنوی اور لفظی تکرار، اس سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسرا مصرع پھر سے کہہ لیجئے۔
پانچواں مصرع: ظاہر معانی میں تو یہ آہیں بھرنے کا محل نہیں۔ پہلے انبیائے کرام نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی نوید سنائی۔
اس پورے بند میں چھٹا مصرع معنوی طور پر سرے سے کٹ جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
عہد ہو پر فتن سے کوئی پر فتن
جادہ پیما ہوئے بن کے شعلہ بدن
سوزِ صدیقؔ
رضی اللہ عنہ بھی ، شاہِؔ خیبر شکنرضی اللہ عنہ
کربلا میں حُسیںؔ
رضی اللہ عنہ ، اور وطن میں حسنؔ رضی اللہ عنہ
سر بھی نیزے پہ قرآن پڑھتے رہے
تیرے دیوانے تجھ پہ ہی مرتے رہے

دوسرا مصرع: شعلہ بدن یہاں معنویت میں بہت کم تر ہے، اور لگتا ہے کہ بس قافیہ بھرتی کیا ہے۔ نعت میں ایسے نہیں چلنا چاہئے!
تین شخصیات کے نام یا القاب ہیں؛ "سوزِ صدیق" شخصیت کا لقب یا نام نہیں ہے۔ یا تو سب کی صفات لائیے، یا سب کے نام یا القاب۔
 
استاد محترم باقی نامہ کی لفظی معنویت تو آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ میں نے تو اس کو اسلام کے باقی رہنے کے حوالے سے چنا ہے۔ ویسے یہ ختمی نہیں ہے نظم ابھی ابتداءی مراحل میں ہے۔ آپ کچھ تجویز کر دیں تو بہت خوب۔
عنوان کو ابھی ملتوی کر دیجئے۔ عین ممکن ہے دورانِ مشق آپ ہی کوئی ایسے الفاظ کہہ ڈالیں جو عنوان میں آپ کے مجوزہ مطالب کو خوبصورتی سے نبھا رہے ہوں۔
 
وہ جو میں تلاش کر رہا تھا، وہ تو نہیں ملا ایک اور تحریر مل گئی ہے۔ یہیں پیش کئے دیتا ہوں:

نعت میں خطابیہ لہجہ اور صیغہ واحد حاضر

اس موضوع پر پہلے سے اتنے طویل مباحث موجود ہیں جن پر کوئی مفید اضافہ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
اپنے محسوسات کے حوالے سے چند گزارشات کرنا مقصود ہے۔ اچھی لگیں تو دعا دیجئے گا، اچھی نہ لگیں تو بھی دعا دیجئے گا۔​

جناب حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نعت گویوں کے امام ہیں۔ ظاہر ہے انہوںؓ نے نعت میں جو کچھ نظم کیا، وہ عربی میں ہے۔ جناب حسانؓ کے نعتیہ کلام میں تخاطب کا صیغہ غالب ہے یعنی واحد حاضر مذکر۔ اِنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءٗ۔ اس کے لفظی ترجمہ میں نبی کریم کے لئے اردو کا متبادل لفظ ’’تُو‘‘ آتا ہے۔ فارسی میں بھی ایسا ہی ہے۔ انگریزی میں بھی ایک عرصہ پہلے تک thou, thy, thee, thine مستعمل تھا، شاعری میں آج بھی ہوتا ہو گا (کوئی اہل لغت بتائیں گے) ؛ حالیہ نثر میں یہ غالباً شاذ ہے اور صرف وہیں مستعمل ہے جہاں ناگزیر ہو۔ دعا، درخواست، خطاب کے موقع پر اِس ’’تُو‘‘ کا استعمال، اللہ کریم جل جلالہٗ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر محترم شخصیت کے لئے مروج رہا ہے اور وہیں سے اردو میں آیا ہے۔ اس میں ایک عنصر یہ بھی رہا ہے کہ اللہ کا کوئی ثانی نہیں، لہٰذا اُسے خالص واحد صیغہ’’ تو‘‘ ہی میں پکارا جائے گا؛ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مثیل نہیں، لہٰذا آپ کے لئے بھی (تخاطب کی صورت میں) واحد حاضر کا صیغہ استعمال ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ’’تم‘‘ کا صیغہ بھی دیکھنے میں آیا ہے، وجہ اس کی غالباً یہ ہے کہ ہم اردو میں واحد حاضر کے لئے ’’تم‘‘ بھی بولتے ہیں؛ انگریزی میں جیسے thou کی جگہ you نے لے لی، تاہم مراد مخاطب واحد ہی ہوتا ہے۔

اردو میں شائستگی کا عنصر ’’تُو‘‘ اور ’’تم‘‘ کو بدل کر ’’آپ‘‘ کی صورت دے دیتا ہے، اور فعل کا صیغہ بھی واحد سے جمع میں بدل جاتا ہے۔ ہم اپنے والدین اور بزرگوں کو اور دیگر محترم شخصیات کو تُو یا تم کہہ کر پکارنا معیوب خیال کرتے ہیں کہ ایسا کرنا شائستگی کے خلاف ہے۔ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے جملہ محترمین سے ہزاروں لاکھوں درجے زیادہ محترم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ کلمات کیوں نہ ادا کئے جائیں جو ممکنہ حد تک احترام کی اعلٰی ترین سطح کی نمائندگی کریں۔ اس لفظ ’’آپ‘‘ میں ایک اور خوبی بھی ہے، کہ یہ غائب کے لئے بھی بولا جاتا ہے، یعنی جہاں تخاطب کی بجائے ذکر مقصود ہو۔ کسی فرد مفرد کے حوالے کے بغیر (صیغہ واحد غائب کے لئے) یہ جملے دیکھئے: (۱) اس نے کہا، (۲) انہوں نے کہا، (۳) آپ نے کہا، (۴) آپ نے فرمایا، (۵) آپ کا ارشاد ہے؛ وغیرہ۔ بات کرنے والے کے لہجے میں مذکور کے لئے احترام کے درجات از خود واضح ہوتے جاتے ہیں۔

یہاں ہمارے ایک خطیب ہیں وہ دعا میں اللہ کریم کو بھی ’’آپ‘‘ کہتے ہیں۔ مثلاً: آپ غفور و رحیم ہیں، ہم کمزوروں کی کوتاہیوں سے صرفِ نظر فرمائیے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیے، تمام جہانوں کو آپ نے تخلیق فرمایا اور حکم بھی آپ کا چلتا ہے؛ و علٰی ہذا القیاس۔ اور سچی بات ہے کہ یہ لہجہ اچھا لگتا ہے۔ رہی بات یہ کہ اساتذہ نے خطابیہ لہجے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو، تم، تیرا، تمہارا، تجھے، تمہیں استعمال کیا ہے؛ یہ درست ہے؟ یا نادرست؟ میری درخواست ہے کہ گزشت آن چہ گزشت؛ آپ اس بحث میں نہ پڑئیے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو، تم، تمہارا کی بجائے ’’آپ‘‘ کو اپنائیے۔ اللہ توفیق دے۔

جیسا پہلے عرض کر چکا ہوں یہ گزارشات میرے محسوسات کی نمائندہ ہیں، اہل علم اور اہل لغت جو بھی فرمائیں سر آنکھوں پر۔

فقط ۔۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان​
 
آخری تدوین:
سر مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ لفظ "آپ" اُردو کے اُن پُرتاثیر الفاظ میں سے ایک ہے جو اُردو کے چہرے کا حُسن ہیں۔

لطف کی بات یہ ہے کہ اس "آپ" میں صیغہ حاضر و غائب، واحد و جمع، مذکر و مؤنث (آٹھ کے آٹھ) شامل ہیں۔
 
ترکیب سازی وغیرہ کی بات بعد میں کریں گے، موجودہ ہیئتِ معنوی میں یہ نعتیہ کلام ہے۔ مندرجہ بالا چھ مصرعوں(یعنی پہلے بند) پر توجہ چاہتا ہوں:
پہلے چار مصرعوں میں مذکور طبقات: ایک شراب میں ڈوب گیا، ایک مجنوں کے افسانوں میں، ایک لیلیٰ کی زلفوں میں اور ایک کو تہذیبِ نو لے بیٹھی۔ آخری دو مصرعوں کے معانی ان طبقات سے لگا نہیں کھا رہے۔ کہ یہ چاروں نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مچلنے والے ہیں اور نہ ہی آپ پر دیوانہ وار مرنے والے۔

اگر اس بند میں "تو (صیغہ حاضر)" سے مراد کوئی اور ہے تو اِس کو بقیہ نظم سے الگ کرنا ہو گا کہ وہ تو ساری کی ساری نعت ہے۔
دوسرا اور چھٹا مصرع: معنوی اور لفظی تکرار، اس سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسرا مصرع پھر سے کہہ لیجئے۔
پانچواں مصرع: ظاہر معانی میں تو یہ آہیں بھرنے کا محل نہیں۔ پہلے انبیائے کرام نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی نوید سنائی۔
اس پورے بند میں چھٹا مصرع معنوی طور پر سرے سے کٹ جاتا ہے۔
استاد محترم پہلے تو آپ کا بہت بہت شکریہ کے ہمیشہ کی طرح کمال شفقت فرماتے ہوئے اتنے تفصیلی جواب سے نوازا۔۔ جزاک اللہ و خیرا۔
نظم کو لکھنے کے پیچھے جو خیال تھا وہ کچھ یوں تھا کے اسلام کی نامور شخصیات کی سرکار صلی اللہ و علیہ وسلم سے والہانہ محبت کا ذکر مقصود تھا۔
تو
پہلے دو بند میں ایک تمہید باندھنے کی کوشش کی تھی پہلے چار مصرعے مختلف طبقات کا ذکر کر کے آخری دو مصرعوں میں عشاق کا ذکر لانے کی کوشش کی جو کہ شاید صحیح طور پر تقابل کے طور پر بیان نہیں ہو سکا۔
یا جہاں تک میں سمجھا کے شاید یہاں تقابل لانا ہی جائز نہیں؟
اور دوسرے بند میں بھی کچھ اسی قسم کی تمہیدی کوشش کی پہلے چار مصرعوں کے بعد گروہِ عشاق کا ذکر آخری دو مصرعوں میں مقصود تھا ۔ وہ بھی شاید صحیح بیان نہیں ہو پایا۔
تمہید کے طور پہ ان دو بند کی جگہ کچھ اور لے آؤں ایسے میں چھٹے مصرعے کا مسئلہ ہو گا جس کی تکرار پوری نظم میں مقصود ہے۔
باقی جو جو آپ نے نشاندہی کی اس کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
ایک دفعہ پھر سے بہت بہت شکریہ و نوازش
 
Top