بالآخر۔۔ پیپلز پارٹی بحالی جمہوریت کی تحریک میں شامل

نبیل

تکنیکی معاون
کافی لیت و لعل کے بعد بالآخر بے نظیر بھٹو نے آئین کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے اور بصورت دیگر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ مکمل خبر پڑھیں۔۔

اب یہ معلوم نہیں کہ بے نظیر اس معاملے کو کتنی سنجیدگی سے لے رہی ہے یا یہ محض نورا کشتی ہے۔ بی بی سی کے ایک تجزیہ نگار کے مطابق تو پیپلز پارٹی کی شمولیت سے بحالی جمہوریت کی تحریک کو نئی جان مل گئی ہے۔

کسی بھی پاکستانی مبصر کو شاید ہی اس بات سے انکار ہو کہ اگر بینظیر بھٹو یہ فیصلہ نہ کرتیں تو وکلاء برادری اور سول سوسائٹی کی جانب سے جاری بحالی جمہوریت کی تحریک کسی بھی لمحے دم توڑ سکتی تھی۔
لیکن پی پی پی کے لانگ مارچ کے فیصلے نے نہ صرف پاکستان میں جمہوری جدوجہد کو ایک نئی زندگی دی ہے بلکہ ایک فوجی صدر، ان کے سیاسی حمایتیوں، وکلاء، سول سوسائٹی، حزب اختلاف اور انتہا پسندوں میں بٹی ہوئی پاکستان کی سیاست کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

مزید پڑھیں: چودھریوں کی طرف لانگ مارچ

پاکستان کی عوام کے پاس اب عجیب سی چوائس ہے۔ ایک جانب اقتدار پر غاصبانہ قبضے کو طول دینے کی خواہش رکھنے والا جنرل مشرف اور اس کے اتحادی لوٹے اور دوسری جانب دنیا کی کرپٹ ترین عورت۔ پیپلز پارٹی میرے نزدیک ایک بڑے پیمانے پر ایم کیو ایم سے زیادہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے مقابلے میں کہیں زیادہ فاشسٹ مزاج رکھنے والی جماعت ہے۔ جہاں ایم کیو ایم کے حامی ایک دہشت گرد الطاف حسین کو اپنا رہبر و رہنما مانتے ہیں، وہاں بھٹو کے مزار پر بھی عرس منایا جاتا ہے اور حکومت اور پارٹی کی قیادت کو بھٹو خاندان کا حق سمجھا جاتا ہے۔ بے نظیر کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر ہاری کا بیٹا ہاری نہیں بنے گا تو ہمارے کھیتوں میں کون ہل چلائے گا۔

مذکورہ بالا کالم سے مزید اقتباس:

اصولی سیاست کے پیمانے پر ناپا جائے تو بینظیر بھٹو شاید دس میں دو نمبر بھی نہ حاصل کر پائیں لیکن موقع پرستی کی سیاست میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نو برس پاکستان سے باہر رہنے کے باوجود وہ پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا نہ کر سکتیں۔

ان سب باتوں کے باوجود میں آج اپنا ووٹ پیپلز پارٹی کو ڈالوں گا کیونکہ مجھے صرف اسی صورت میں سول سوسائٹی کی بقا نظر آ رہی ہے۔
 

رضوان

محفلین
اسی موضوع پرتازہ تازہ بلاگ کھینچ مارا ہے پڑھیے اور ہم پاکستانیوں کے حال پر آہیں بھریے ۔

“ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں “
" سُرخوں نے ماریں کھائیں
جیلیں جھیلیں قیدو بند کے عزابوں سے گزرے
حسن ناصر جیسوں نے اپنی جانیں واریں
اور
ملاؤں کی جکڑی پاکستان کی سوسائٹی میں
آزادی فکر کی شمع روشن کی
اپنی آزادی کی، عزت نفس اور ووٹ کی طاقت کا احساس دلایا
ملٹری اور مُلا کی دھری مار سہتی مشرقی اور مغربی پاکستان میں بَٹی اس قوم کو جاگیرداری سرمایہ داری کے افسوں سے نکلنے کی راہ سُجھائی
جب نیند کی ماتی قوم ذرا جاگی تو
مشرق کو شیخ ہانک کر لے گیا اور مغرب کو بھٹو
بھٹو تو وڈیرا تھا
سُرخوں نے شعور کی فصل پکائی اور وڈیرا کاٹ کر گھر لے گیا۔
اب کالے کوٹ والوں نے ماریں کھائیں دانت تُڑوائے
لاٹھیاں اور بوٹ کھائے
لیکن اس سے زیادہ کالے کوٹ والوں کو نہ کریڈٹ دیا جاسکتا ہے نہ ہی ان کو اور میڈیا کو اقتدار میں حصہ
اس لیے اب
بی بی آگئی میدان میں
ہو جمالو
اسی لیے کہتے ہیں
“ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں “
نئے دور کی فاختہ کالے کوٹ پہنتی ہیں اور کوے نے چادر اوڑھ رکھی ہے دوبئی سے آتا ہے انڈے کھا کر چلا جاتا ہے۔
اسے مار کر بھگا بھی نہیں سکتے کہ کوے کی کائیں کائیں سے وہ سانپ جو سوات میں مدین اور بحرین تک پہنچ گیا ہے اسے ڈرانا اور روکنا ہے۔

اوپر عقاب ہے نیچے سانپ ہے اور ہاتھ میں بندوق پکڑے شکاری
فاختہ اب اسی انتظار میں ہے کہ سانپ شکاری کو ڈس لے اور
اس کا نشانہ خطا ہو کر عقاب کو لگے یوں صدیوں سے چلتی کہانی اپنے روایتی انجام کو پہنچے۔"
 

خرم

محفلین
سیدھی سی بات ہے بھائی جب تک ہم عوام اپنا حق خود نہیں چھین لیتے، کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہمیں ہمارے حقوق پلیٹ میں ڈال کر دے؟
 

ساجد

محفلین
کافی لیت و لعل کے بعد بالآخر بے نظیر بھٹو نے آئین کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے اور بصورت دیگر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ مکمل خبر پڑھیں۔۔
قُفل ٹُوٹا خُدا خُدا کر کے
(مصرعہ میں ہلکی سی تبدیلی پر معذرت)
 

زینب

محفلین
لانگ مراچ کریں گی بھی تو 13 نومبر کو تب تک پتا نہیں بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچے۔۔۔۔۔وہ بھی صرف اپنے شو کے لیے ہو گا مارچ نا کہ ملک پے جو مصیبت آپڑی ہے اس کے ازالے کے لیے۔۔۔۔ایہ سب گید ڑ بھبکیاں ہیں وہ مزید مشرف کی طرف سے ڈھیل چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بینظیر کی ڈرامہ بازی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اصل احتجاج وکلا کی طرف سے جاری ہے اور آہستہ آہستہ طلبا اور میڈیا اس میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔

میڈیا کا احتجاج ہفتہ کو چار بجے ہوگا جس پر احتجاج کے مستقبل کا دارومدار ہے۔

احتجاج کا مرکز ایک بار پھر لاہور ہی ہے جہاں ہزاروں وکلا گرفتار ہو چکے ہیں اور احتجاج کی لہر گوجرانوالہ تک پھیل چکی ہے جہاں پولیس سے شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔

Lums اور Fast کے سٹوڈنٹس جو عام طور پر ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں یا جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا انہوں نے تاریخی احتجاج کیا اور پولیس کے ساتھ ہاتھ پائی تک بات جا پہنچی ۔ لاہور کے باقی کالج اور یونیورسٹیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں تو یہ مشرف کے تابوت میں فیصلہ کن کیل ثابت ہوں گی کیونکہ سٹوڈنٹس کے جوش کے سامنے کوئی آمر آج تک بند نہیں باندھ سکا۔

اپنی توجہ ہمیں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبا کو منظم احتجاج پر ابھارنے پر لگانی چاہیے کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو باشعور بھی ہے اور کسی پارٹی کے جھانسے میں بھی نہیں آتا اور جن کے جوش کے سامنے سیاسی کارکنان کی مصلحت پسندیاں اور ریاکاریاں دم توڑ دیتی ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
سیدھی سی بات ہے بھائی جب تک ہم عوام اپنا حق خود نہیں چھین لیتے، کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہمیں ہمارے حقوق پلیٹ میں ڈال کر دے؟
یہ بات میں نے دھاگہ نظریہ اور ریاست کے حصہ دوم میں بڑی وضاحت سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔
 
اپنی توجہ ہمیں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبا کو منظم احتجاج پر ابھارنے پر لگانی چاہیے کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو باشعور بھی ہے اور کسی پارٹی کے جھانسے میں بھی نہیں آتا اور جن کے جوش کے سامنے سیاسی کارکنان کی مصلحت پسندیاں اور ریاکاریاں دم توڑ دیتی ہیں۔
ویسے جتنی سیاسی پارٹیوں کی طلبہ تنظیمیں‌اور ان کے اپس میں‌سر پٹھول و قتل غارت گری دیکھی گئی ہے وہ کہیں‌اور مشاہدے میں‌نہیں اتی۔ اس صورت حال میں‌طلبہ سے بڑی توقع کچھ زیادتی لگ رہی ہے۔ یہ کوئی ہاو ہو نہیں ہے نہ کسی غریب دکان دار سے پکنک کے دوران کولڈ ڈرنک مفت پینے کا معاملہ ہے۔ یہ سیدھا سیدھا فوج سے ٹکراو ہے۔
 
طلبہ صرف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ اب تو بہت ہی کم طلبہ سیاسی پارٹیوں کو درخور اعتنا سمجھتے ہیں اس لیے کہ ان میں صحیح سیاسی شعور پیدا ہو چکا ہے۔

جہاں تک بات رہی ٹکراؤ کی تو طلبا میں یہ جوش اور ہمت ہوتی ہے کہ وہ ٹکرا جاتے ہیں بغیر سیاسی مصلحت اور خوف کے۔

اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کی بجائے طلبا سے توقعات وابستہ کرنا ہی صحیح طرز عمل ہے اس وقت کیونکہ طلبا نہ بکے ہوئے ہیں اور نہ ان کے ذاتی مفادات ہیں۔
 
درست ہے۔ طلبا یقینا رول پلے کرسکتے ہیں۔
مگر کلیدی نہیں۔ طلبا سے زیادہ توقع رکھنا خود ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
طلبا سول سوسائٹی کا حصہ ہیں اور ان کا ایک حصہ ضرور ہی ہوگا۔ مگر یہ کہ انقلابی حصہ ہو شاید درست نہ ہو۔
 
طلبا ہی نے انقلاب برپا کیا تھا اگر آپ کو یاد ہو تو یہ طلبا ہی تھے جن کی مدد دے بھٹو نے ایوب کو مسند اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا اور یہ طلبا ہی تھے جو پھر بھٹو کے ساتھ نہ تھے اور بھٹو کو پھانسی لگ گئی بھٹو کی اپنی پارٹی بھٹو کے لیے وہ احتجاج نہ کر سکی جو بھٹو کی قیادت میں طلبا نے ایوب کے خلاف کیا تھا۔

طلبا کو جگانا ہی اصل کام ہے اور یہ انقلاب کی راہ ہموار کر سکتے ہیں سچائی اور لگن سے کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو پڑھا لکھا بھی ہے اور باشعور بھی۔
 
درست ہے۔ طلبا یقینا رول پلے کرسکتے ہیں۔
مگر کلیدی نہیں۔ طلبا سے زیادہ توقع رکھنا خود ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
طلبا سول سوسائٹی کا حصہ ہیں اور ان کا ایک حصہ ضرور ہی ہوگا۔ مگر یہ کہ انقلابی حصہ ہو شاید درست نہ ہو۔
میں نے اپ کو "گڈ لک" کہا تھا مگر لگتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں‌ ہوئی۔
اب طلبا تحریک کا کیا ہوگا؟ میری اب بھی یہ رائے کہ اجتماعی تحریک میں‌طلبا بھی شامل ہوجائیں‌ورنہ ان کی ہانڈی اسی طرح چوراہے پر پھوٹے گی۔
 
میں نے اپ کو "گڈ لک" کہا تھا مگر لگتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں‌ ہوئی۔
اب طلبا تحریک کا کیا ہوگا؟ میری اب بھی یہ رائے کہ اجتماعی تحریک میں‌طلبا بھی شامل ہوجائیں‌ورنہ ان کی ہانڈی اسی طرح چوراہے پر پھوٹے گی۔

لیکن آپ بھی تو اس دیگ کا حصہ بننے کا کہہ رہے ہیں
جس کا چمچہ کون ہلا رہا ہے اسکا پتہ نہیں۔
کیا دیگ پوری پک بھی سکے گی پتہ نہیں۔

یہ نہ ہو اس دیگ میں چھلانگ لگائیں اور اس دیگ میں پتہ چلے یہ تو پانی ہی پانی ہے۔ چاول تو کوئی اور اچک گیا ;)
 
لیکن آپ بھی تو اس دیگ کا حصہ بننے کا کہہ رہے ہیں
جس کا چمچہ کون ہلا رہا ہے اسکا پتہ نہیں۔
کیا دیگ پوری پک بھی سکے گی پتہ نہیں۔

یہ نہ ہو اس دیگ میں چھلانگ لگائیں اور اس دیگ میں پتہ چلے یہ تو پانی ہی پانی ہے۔ چاول تو کوئی اور اچک گیا ;)
بہت اچھے ۔
مگر میں‌دیگ کی بات نہیں‌بلکہ شربت پینے کو کہہ رہا ہوں۔ ٹھنڈا میٹھا فرحت بخش۔
جس کی مٹھاس بےنظیر ہو :)
 
بہت اچھے ۔
مگر میں‌دیگ کی بات نہیں‌بلکہ شربت پینے کو کہہ رہا ہوں۔ ٹھنڈا میٹھا فرحت بخش۔
جس کی مٹھاس بےنظیر ہو :)

بھیا چلیں شربت سہی، لیکن ایسا نہ ہو جب گلاس منہ تک پہنچے، تو اس وقت مٹھاس کسی اور کے گلاس میں جا چکی ہو۔ اور آپ اور ہم رنگ ملا پانی دیکھتے رہ جائیں
 
Top