نبیل
تکنیکی معاون
بات تو ناقابل یقین لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ہو رہا ہے کہ انڈین فلمیں جرمن ٹیلی ویژن پر ڈبنگ کے ساتھ دکھائی جا رہی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان فلموں کی ڈی وی ڈی خاصی قیمت پر مارکیٹ میں بھی دستیاب ہے۔ ذاتی طور پر میرے لیے تو انڈین فلم خاصی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ ایک ہی گھسی پٹی کہانی پر بنی ہوئی فلم اور وہ بھی ڈھائی تین گھنٹے دیکھنا کسی آزمائش سے کم نہیں ہے۔ ٹی وی پر کمرشل بریک ملا کر یہ آزمائش چار گھنٹے تک طویل ہو جاتی ہے۔ میرا تو یہی خیال تھا کہ جرمنی میں یہ فلمیں بالکل فلاپ ثابت ہوں گی لیکن معاملہ اس سے بالکل الٹ نکلا ہے۔ یہاں رہنے والے ترکیوں اور مشرقی یورپ کے لوگوں کے علاوہ خود جرمنوں میں بہت سے ایسے ہیں جو یہ فلمیں خاصے شوق سے دیکھتے ہیں۔
آج جو فلم لگی ہوئی ہے وہ مجھے پسند بھی ہے۔ یہ فلم ہے کبھی خوشی کبھی غم۔ جرمن ٹی وی پر پہلی انڈین فلم بھی یہی تھی۔ آج یہ دوسری مرتبہ لگ رہی ہے۔ اس میں خاص بات تو کوئی نہیں ہے بس پھر بھی ایک مرتبہ اسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اس کا گانا ““ میرے پسندیدہ گانوں میں سے ہے۔ جب یہ فلم پہلی مرتبہ ٹی وی پر لگنے لگی تھی تو اس سے پہلے باقاعدہ جرمنی میں انڈیا کے سفیر نے ٹی وی پر جرمنی کے عوام کو فلم دیکھنے کی دعوت دی تھی۔ اس وقت تو پوری سہ ماہی میں ایک انڈین فلم دکھائی جاتی تھی، اب ہر ہفتے ایک انڈین فلم کا پروگرام ہوتا ہے۔ ان کی مشہوری بھی خاصے بھرپور انداز میں کی جاتی ہے۔ فلم ویر زارا لگنے سے پہلے اس کے ایڈ میں بتایا گیا کہ یہ رومیو جولیٹ کے بعد محبت کی سب سے بڑی داستان ہے۔
انڈیا صرف فلموں کے معاملے میں ہی یہاں کامیاب نہیں جا رہا بلکہ یہاں کی معیشت میں بھی سرایت کرتا جا رہا ہے۔ یہاں کے کپڑوں کی دکانیں اب انڈین سٹائل کے ڈریسز سے بھری ہوئی ہیں۔
میرا تاثر یہ ہے کہ انڈیا کو اپنا بہتر امیج اچھی طرح پروجیکٹ کرنا آتا ہے۔ وہ نہایت کامیابی سے اپنے ذات پات پر مبنی معاشرے اور غربت کو اپنے ناچ گانے والی ثقافت میں کیمو فلاج کر لیتا ہے اور مغربی دنیا کے اکثر لوگ اس سے متاثر بھی ہو جاتے ہیں۔