بال بکھرگئے

تفسیر

محفلین
بال بکھرگئے
سید تفسیراحمد

میں فرنٹ آفس میں داخل ہوا۔
“ سر، یہ اسٹوڈینٹ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ میں نےبتایا کہ کلاس ختم ہونےمیں دو گھنٹے ہیں اور فوری آپ کی دوسری کلاس ہے۔ مگر وہ دوگھنٹے سے بیٹھی ہے“۔ میری سیکرٹری نے کہا۔
“ ٹھیک ہے پانچ منٹ کے بعد اندر بھیج دو۔“ میں نے سیکرٹری کی بات کو نظر انداز کر کے کہا۔ کیونکہ میرے اسٹوڈینٹ ہمیشہ مشورہوں کے لیے بے وقت آتے جاتے ہیں ۔
آفس میں داخل ہوکر میں نے اپنےاسکیجول پرنگاہ ڈالی۔ اگلی کلاس آدھا گھنٹے بعد اسی فلور پر پڑھانا تھی۔ میں نےاندازہ لگایا، دس منٹ کلاس روم تک پہنچنے کے، دس منٹ نوٹس اور لیکچر کے کاغذات کواکٹھے کرنے کے۔ میرے پاس اس لڑکی کے لیےصرف دس منٹ بچتے تھے۔
دروزاہ کھلا اور وہ خاموشی سےآ کر ڈیسک کے قریب کھڑی ہوگی۔ وہ چھوٹے قد کی ایک قبول صورت لڑکی تھی ۔جس کے کمر تک کالےلمبے بال ایک ربر بینڈ کی مدد سے پونی ٹیل بنے ہوئے تھے۔
“ بولو“۔
اس نےایک پرچہ میرے سامنے رکھ دیا۔
“ یہ کیا؟۔ تمہارا اسائنمنٹ! تمہیں پتہ ہے کہ میں اسائنمنٹ نہیں دیکھتا۔ اسے اپنےمقررہ ٹیچر اسسیٹنٹ کودے دو “۔
“ نہیں۔ یہ اسائنمنٹ نہیں ہے۔ مجھےآپ سے میرے سوال کا جواب چاہیے۔ مجھے بتائےکہ میں کیا کروں؟“ اُسکی آواز میں اضطراب تھا مگر مضبوطی اور سختگی بھی۔
“ ٹھیک ہے ۔ باہر انتظار کرو“۔ میں نے کہا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔وہ خاموشی سے مڑی اور دروازہ کھول کر کمرے سے باہرنکل گئی۔
میں نےاپنے پڑھانے کے کاغذات جمع کر کے بریف کیس میں رکھےاور آنکھ بند کرکے آرام کرنےلگا۔ جب میں نے آنکھ کھولی توگھڑی کےمطابق اب میرے پاس دس منٹ رہ گئےتھے۔ میں ڈسیک پر رکھے ہوئے پرچے کو بھول چکا تھا۔
دروازہ کی طرف بڑھتے ہوے مجھےخیال آیا کہ وہ لڑکی باہر بیٹھی ہوگی۔ایک سیکنڈ کے لیےمیں نےسوچا کہ بازو کےدروازے سےنکل جاؤں وہ دیکھ نہ پائےگی۔ مگرشرم محسوس ہوئ ۔ میں نے پرچے کواُٹھایا اورصوفے پربیٹھ کر پڑھنا شروع کیا۔
“ میرا نام سدرہ ہے ۔ کچھ عرصہ پہلےمیری ملاقات شبنم سے ہوئ ۔ہم دونوں فوراً دوست بن گے۔ شبنم بہت بےباک ہے اور لڑکے اسے بہت پسند کرتےہیں۔ وہ لڑکوں کےساتھ اکیلی بھی جاتی ہے۔ میں شروع سے ہی اس کےدوستوں سےدور رہی۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنےساتھ پارٹیوں میں لےجانا چاہتی تھی۔ میں منع کردیتی تھی۔ ایک دن اس نےمجھےاپنے ایک دوست سےملایا۔ جاوید اسکا نام ہے ۔وہ کالج کے آخری سال میں ہے۔ جاوید سندر ہے۔ اور میں اُسے پسند کرنےلگی۔ تھوڑا عرصہ بعد شبنم کےکہنے پر ہم تینوں باہرملنے لگے۔ شبنم کےساتھ ہمیشہ ایک نیا دوست ہوتا تھا اور میں نےسننا تھا کہ ان لوگوں سے شبنم کا ملاپ دوستی سے کچھ زیادہ تھا جس کا مجھے بالکل یقین نہیں آیا۔ جاوید مجھ سے ہمیشہ اچھی طرح پیش آتا۔ مجھےایسا لگا کہ وہ بھی مجھے پسند کرتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعدجاوید اور میں نے ا کیلا ملنا شروع کردیا۔ ہم نےایک دوسرے کے بوسےلینے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ میں جاوید کی محبت میں گرفتار ہوگی۔
کچھ عرصہ گزرا اور ایک میچ ملانے والی ہمارےگھرآئیں۔ انہوں نےماں کو بتایا کہ ایک عزت دار اور مالدارگھرانا اپنے لڑکے کے لیے ایک قبول صورت ،گھریلو، کم پڑھی لکھی لڑکی کی تلاش میں ہے ۔ تمہاری لڑکی ایسی ہی ہے۔ لڑکا ماشا اللہ خوبصورت ہے اور جلد ہی تعلیم ختم کر کے باپ کے ساتھ بزنس میں شرکت کرے گا۔ ماں نےمجھ سے پوچھا۔ میں نےماں سے کہا میں ابھی شادی نہیں کروں گی۔ میں کالج کی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں۔
کچھ دنوں بعد لڑکے کی فیملی مجھے دیکھنے آٰئ اور مجھے پسند کیا۔ اس کے بعد ایک دن وہ لڑکے کولائے تاکہ میں بھی پردے سےاس کودیکھ سکوں۔ میں تو جاوید کی محبت میں گرفتار تھی اوراس سے مل بھی رہی تھی۔ میں نےلڑکے کودیکھنےسےانکار کردیا۔اور ماں سے کہا میں شادی نہیں کروں گی۔ ماں باپ کو لڑکا اورگھرانا پسند آیا اور شادی طے ہوگی۔ میں بہت روئ مگر کوئ چاراء نہ تھا۔ میرا گھر سے باہر نکلنا بند ہوگیا۔ میں جاوید سے مل بھی نہ سکی۔ شادی کا دن آیا اور میں دولہن بنی بیٹھی تھی۔ دروازہ کھلا اور میرا شوہر کمرے میں داخل ہوا ۔میں نےگھونگٹ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ یہ کون! یہ توجاوید ہے۔ میرا دل خوشی میں زور زور سےدھک دھک کرنے لگا۔ یا اللہ میں کتنی خوش قسمت ہوں۔ تیری مہربانی ہے۔ میں نےقدموں کے قریب آنے کی آواز سننی ۔ اب میرا دل زور و شور سےڈھڑک رہا تھا۔ مجھےیقین تھا کہ جاوید بھی اس ملاپ پرخوش ہوگا۔ جاوید نےمیرا گھونگٹ اُٹھایا۔ مجھے دیکھ کرجاوید کےچہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔ مجھے ایسا لگا جیسےاُسےسانپ نے کاٹ لیا ہو اور وہ غصہ میں چلایا۔“ آوارہ ، طوائف “۔ پھر وہ بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ میں سارا رات روئ ۔ میں نے کیا غلطی کی ؟۔ میں خراب لڑکی نہیں ہوں۔
دوسرے دن جاوید کےگھر والوں نے مجھےمیرے باپ کےگھر بھیج دیا اورطلاق مانگی۔ تمام کوششوں کے باوجود ہماری طلاق ہو رہی ہے۔ میرے اورجاوید کےخاندان کومیرے آوارہ ہونے پر یقین آگیا ہے۔ میرا اب کوئ نہیں ہے۔ میں کیا کروں؟ پروفیسر میں کیا کروں؟ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس اس کا جواب ہے۔ اگر آپ کے پاس اسکا جواب نہیں تو میں خود کشی کرلوں گی“۔
میں اُچھل کر کھڑا ہوگیا۔
وہ فرنٹ آفس میں نہیں تھی ۔
“ وہ لڑکی کہاں ہیں؟ میں سیکرٹری پرچلایا،
“ سر وہ ابھی باہر نکلی ہے۔ آپ اس کو لفٹ میں داخل ہونے سے پہلے پکڑ لیں گے“۔ سکریٹری نے بوکھلا کر کہا۔
“ میری کلاس کنسیل کردو“۔ میں دروازے کی طرف دوڑتے ہوئے کہا۔
لفٹ کےقریب کوئ نہیں تھا۔ سیدھے ہاتھ پردوسری منزل کا بیس فٹ چوڑا کھلا برآمدہ تھا۔میں اس طرف دوڑا۔ وہ برآمدہ کی تین فٹ دیوار پر کھڑی تھی۔
“ ٹھہرو ، میرے پاس حل ہے“ ۔ میں نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت استعمال کی اور دیوار کی طرف دوڑا۔ مگر وہ جاچکی تھی۔۔۔
دیوار کے پاس پہنچ کر میں نے نیچے دیکھا۔ وہ منہ کے بل زمیں پرتھی اس کی بانہیں دونوں طرف اُڑتے پرندے کی طرح پھیلی ہوئ تھیں۔ اس کے لمبے بال بکھرگے اور بالوں نےاُسکے اوپری جسم کو ڈھانپ لیا ۔
سامنے کے درخت پر ایک چیل نے چیغ ماری اور محو پرواز ہوئ ۔
“ دیکھومیں تمھارے بغیر بھی اُڑتی ہوں“۔ چیل پھر چلائ۔
میرا دل چیغا ۔ مگرمیری زبان نےساتھ نہ دیا۔
میرے دل رویا۔ مگر میری آنکھوں نےانکار کردیا۔
صرف ہاتھوں نےساتھ دیا وہ فضا میں بلند ہوئےاور میں اپنا سر پکڑ کرفرش پر بیٹھ گیا۔
 

مہک

محفلین
:oops:
میں نے غلط جگہ پوسٹ کردیا تھا ۔ نیا فورم کی ابھی عادی نہیں ہوئ۔
وہ آوارہ نہیں تھی۔ جاوید ایڈیٹ ہے ۔“ ٹھنڈے لب “ پڑھ کر بہت افسوس ہوا تھا۔ “بال بکھرگے‘ پڑکر بہت روئ۔
 

تفسیر

محفلین
یہ ہمارے معاشرے کی ایک بُری حقیقت ہے اور اس کو بے نقاب کرنا ضروری ہے ۔امید ہے کہ تم میرے دوسرے افسانے اور ناول بھی پڑھیں گی اور وقت بہ وقت مجھے اپنی رائے سے آگاہ ہیں کریں گی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب، میں‌نے تبصرہ اس لیے نہیں‌لکھا تھا کہ کہیں افسانہ اور یہ مکس اپ نہ ہو جائیں۔ پر اب تو جو ہونا تھا ہو گیا :D
 

تیشہ

محفلین
تفسیر نے کہا:
بوچھی نے کہا:
:roll: یہاں کس کے بال بکھر گئے ہیں ؟ کنگھی لا دوں ؟

:lol:


کیوں بڑے بھیا ؟ آپکے بال بکھرے ہوئے ہیں؟
جل شل لگا کر کنگھی کیا کریں تو نہیں بکھرتے ۔ یا سرے سے میدان صاف کروالیں پھر دیکھئے گا مجال ہے کوئی بکھرے ۔ :D :p
 

تفسیر

محفلین
آپ کا کیا خیال ہے ۔

عورتوں اور مردوں سے سوال:
1 ۔کیا سدرہ آوارہ تھی ؟
2 - آپ کے خیال میں آوارہ کیسے کہنا چاہیے اور کیسے نہیں؟
3- کیا سدرہ اور جاوید کے ماں باپ کو حق ہے کہ وہ اُسکا ساتھ چھوڑ دیں؟ کیوں؟
4 - کیا آپ اس صورت میں اپنی بیٹی یا بہن کا ساتھ چھوڑ دیں گے؟
7 - اگر آپ میری جگہ ہوتے تو سدرہ کو خود کشی کے علاوہ کیا حل پیش کرتے؟

مردوں سوال
1 - کیا وہ لڑکی آپ کی بیوی بن سکتی ہے جس نے کسی کو چاہا ہوِ؟
2 - کیا وہ لڑکی آپ کی بیوی بن سکتی ہے جیسے آپ پہلے کسی مرد نے اس کو چُھوا ہو؟

عورتوں سےسوال
1 ۔ کیا آپ ایک ایسے مرد کوسے شادی کرنا قبول کریں گی۔ جس نے کسی اور سے محبت کی ہو۔
2 - کیا آپ ایک ایسے مرد سے شادی کریں گی جو دوسری عورتوں کے ساتھ رہ چکا ہو۔

میں اس کہانی پر آپ کا تبصرہ چاہوں گا۔

شکریہ

تفسیر
 

تیشہ

محفلین
باقی کے سوالوں کا پتا نہیں مجھے۔ :p

کم سے کم ایسے مرد کے ساتھ بندہ مرکے بھی نہ رہے جو دوسری عورتوں میں جاتا ہو۔

:chalo:
 

قیصرانی

لائبریرین
عورتوں اور مردوں سے سوال:
1 ۔کیا سدرہ آوارہ تھی ؟ اگر جاوید جیسا بندہ آوارہ ہے تو پھر سدرہ کو بھی آوارہ کہا جائے ورنہ نہیں
2 - آپ کے خیال میں آوارہ کیسے کہنا چاہیے اور کیسے نہیں؟اگر خاندان کی تربیت آپ کو اچھے برے کا نہ بتا سکے تو آپ بے قصور ہیں۔ا گر تربیت اچھی ہو اور آپ برے بنیں تو پھر دوسری بات ہے
3- کیا سدرہ اور جاوید کے ماں باپ کو حق ہے کہ وہ اُسکا ساتھ چھوڑ دیں؟ کیوں؟ اوپر والا جواب
4 - کیا آپ اس صورت میں اپنی بیٹی یا بہن کا ساتھ چھوڑ دیں گے؟ نہیں
7 - اگر آپ میری جگہ ہوتے تو سدرہ کو خود کشی کے علاوہ کیا حل پیش کرتے؟جیسا سلوک جاوید نے اس کے ساتھ کیا ہے ویسا ہی وہ جاوید کے ساتھ کرتی۔ جذباتی صورتحال مختصر مدت کے لئے ہوتی ہے۔ اگر وہ کامیابی سےگزار دی جائے تو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے

مردوں سوال
1 - کیا وہ لڑکی آپ کی بیوی بن سکتی ہے جس نے کسی کو چاہا ہوِ؟ جی
2 - کیا وہ لڑکی آپ کی بیوی بن سکتی ہے جیسے آپ پہلے کسی مرد نے اس کو چُھوا ہو؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی سوفیصد یقین سے نہیں‌کہ سکے گا کہ اس کی بیوی کو کسی نے چھوا یا نہیں
 

تیشہ

محفلین
پر سوال کیوں کر پوچھے جارہے ہیں ؟ بڑے بھیا ؟

یہاں کونسا عدالت بیٹھی فیصلے سنائے گی۔
 

تیشہ

محفلین
قیصرانی نے کہا:
بوچھی نے کہا:
کم سے کم ایسے مرد کے ساتھ بندہ مرکے بھی نہ رہے جو دوسری عورتوں میں جاتا ہو۔ :chalo:
باجو یہ سوالات شادی سے پہلے کے حوالے سے تھے، نہ کہ بعد کے حوالے سے


پہلے کے ہو یا بعد کے ۔ ایسے مرد کبھی نہیں سدھر سکتے جن کو یہ بد عادت لگ جائے۔
بعد میں بھی یہی کرتے ہیں منہ کو لگی چھوٹی نہیں ۔ موقع ملنے کی دیر ہے پھر دیکھئے ۔

:chalo:
 

قیصرانی

لائبریرین
بوچھی نے کہا:
پہلے کے ہو یا بعد کے ۔ ایسے مرد کبھی نہیں سدھر سکتے جن کو یہ بد عادت لگ جائے۔
بعد میں بھی یہی کرتے ہیں منہ کو لگی چھوٹی نہیں ۔ موقع ملنے کی دیر ہے پھر دیکھئے ۔

:chalo:
باجو پھر یوں‌کہیں کہ ایسے افراد۔ کیونکہ مرد ہو یا عورت، پھر تو ایک ہی فارمولا ھونا چاہئیے نا
 

تیشہ

محفلین
عورت کو خراب کرنے والے بھی یہی مرد ہوتے ہیں چھوٹے بھیا ۔ مان جائیے ۔ 8)

عورت اگر غلطی سے کچھ غلط کر بیٹھے تو بھی وجہ مرد ہے۔ مگر عورت اگر بدلنے پر آئے تو بدل جاتیں ہیں راہ راست پر ، کہ ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے اپنا شوہر پیار کرنے والا اور اپنا گھر ،
بس اسکے سوا عورت کچھ نہیں چاہتی ۔
مگر مرد کسی بھی حال میں ، کسی بھی صورت میں نہیں بدلا کرتے کہ فطرت ۔
انکی فطرت انکو ایسے کام پر اکساتی ہے ۔ گھر میں بیوی بھی ہو تب بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ فطرت ۔ اور جو غیر شادی شدہ ہوتے ہیں شادی نہیں کرتے ۔ کیسے بدل سکتے ہیں بھلا؟ :?

سنا ہے کبھی آپ نے اک عورت کے پاس محبت کرنے والا شوہر ہو جو پوری ایمانداری سے اپنی بیوی کا ہے ۔ بچے ہوں گھر بار ہو مگر ایسی عورت ایسے کام کرے ؟ سنا دیکھا کبھی ؟ :?
مانا کہ ہوتی ہونگیں مگر انکو اس راستے پر لانا والا مرد ہی ہے۔
مرد اگر سدھر جائے تو سارا معشرہ سدھر جائے ۔
پی ۔ٹی پر اسی بارے میں پروگرام دیکھاتے ہیں ٹابو ‘ کے نام سے۔
اور دیکھاتے ہیں کیسے کسی مجبور عورت کی مجبوری سے اک مرد نے فائدہ اٹھایا اسکے بعد دوسرے تیسرے نے۔ حتی کہ عزت دار گھرانے کے ہوتے ہیں بال بچے دار ۔ مگر بات وہی ہے کہ فطرت،
کوئی ایسی عورت نہیں ہوگی جو اپنی مرضی اور خواہش پر اس راستے کو اپنائے۔ ہوتی ہیں کچھ جو مجبور کر دی جاتیں ہیں اس دلدل میں اتارنے کو ۔
مرد خود تو اس راستے پر چلتے ہی ہیں مگر بھول جاتے ہیں اس گناہ کا سزا جلد با دیر انکو ملنی ہی ہے۔

:chalo:
 
Top