سید شہزاد ناصر
محفلین
باندھے کمر سحر گہ آیا ہے میرے کیں پر
جو حادثہ فلک سے نازل ہوا زمیں پر
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
کنجِ قفس میں جوں توں کاٹیں گے ہم اسیراں
سیرِ چمن کے شایاں اپنے رہے نہیں پر
جوں آب گیری کردہ شمشیر کی جراحت
ہے ہر خراشِ ناخن رخسارہ و جبیں پر
آخر کو ہے خدا بھی تو اے میاں جہاں میں
بندے کے کام کچھ کیا موقوف ہیں تمھیں پر
غصے میں عالم اس کا کیا کیا نظر پڑا ہے
تلوار کھینچنا تھی اس کی جبیں کی چیں پر
تھے چشمِ خوں فشاں پر شاید کہ دست و دامن
ہیں میرؔ داغ خوں کے پیراہن آستیں پر