محمداحمد
لائبریرین
لیکن کیا کیجیے
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
دل چاہتا ہے اب کوئی ترے سوا بھی ہو
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک منے کو قابو نہ کر سکو
لیکن کیا کیجیے
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
دل چاہتا ہے اب کوئی ترے سوا بھی ہو
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہییہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطرابیہ کیا کہ ایک منے کو قابو نہ کر سکو
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی
کیا عجب خواہش اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اُچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پر ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
ویسے اچھے شعر ہیں نا یہ دو محمداحمد بھائی، فاتح بھائی اور نیرنگ خیال بھائی۔
کیا عجب خواہش اٹھتی ہیں ان کے دل میںتو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی
غلامی کر لوکسی یکجائی سے اب عہدِ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
اب کیا کیجے کہ جوابِ شکوہ کا شعر ہی یاد آیا۔
بہت ہی خوبصورت۔۔عمدہ و لاجواب!باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویز بنالیں ےم کو
پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں میں کوئی پھول چُنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجالیں تم کو
کیا عجب خواہش اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اُچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پر ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو
ہے تمھارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھالیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریخ مکانوں میں سجالیں تم کو
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو
(وصی شاہ)
زبردستان اشعار کی سب سے بہتر تشریح تو یہی ہو سکتی ہے
لاحول و لاقوة الا باللہ
آپ بھی شاعر ہو گئے!!!!!!!!!!!!کیا عجب خواہش اٹھتی ہیں ان کے دل میں
لاحول و لاقوة الا باللہ کہہ ڈالیں تم کو۔۔۔ ۔
میرے شعر پڑھنے کے بعد اساتذہ لاحول و لاقوة الا باللہ کہیں گے۔آپ بھی شاعر ہو گئے!!!!!!!!!!!!
وہ بھیا کریں گے۔
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کوجی میں آتا ہے کہ تعویز بنالیں تم کو
لفظِ خواہش واحد ہے، لہذا خواہش اٹھتی ہیں کے بجائے خواہش اٹھتی ہے ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔کیا عجب خواہش اٹھتی ہیں ہمارے دل میںکر کے منا سا ہواؤں میں اُچھالیں تم کو
شعر سننے میں بھلا لگتا ہے۔ لیکن صاحب یہ تو عشق کی سراسر توہین ہوگی۔اس قدر ٹوٹ کے تم پر ہمیں پیار آتا ہےاپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
واہ صاحب یہ ہوئی نہ بات! عشق تو قربانی اور ایثار کا متقاضی ہوتا ہے۔ ایک سچا عاشق ہی عشق کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔ پھر چاہے محبوب کو منانے کے لیے اُس کے قدموں میں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہوورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
یہاں پھر اِملا کی غلطی سرزد ہوگئی۔ گویا آپ کاتا اور لے دوڑی کے مصداق ہیں۔ ارے صاحب کمپوزنگ کے بعد نظر ثانی کر لینے میں حرج ہی کیا ہے۔یہاں تاریخ نہیں بلکہ تاریک مکانوں ہوگا۔جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نوراپنے تاریخ مکانوں میں سجالیں تم کو
آپ کی اس خواہش کا بھی جواب نہیں۔ مجموعی طور پر غزل اچھی ہے۔ خدا کرے زورَ قلم اور زیادہ۔اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تمہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو
بس جییہ ساڑھے سات سال بعد اس دھاگے کی قسمت کیسے جاگ گئی؟
ارے صاحب ہماری نظر سے تو آج ہی گزری۔ اِس نے ہمیں جو تاثر دِیا ہم نے اس کا اظہار کر دِیا۔ہمیں کیا پتا کہ یہ سات سال پرانی اپ لوڈنگ ہے۔ بہر حال ! اب تخلیق کی عمر دریافت کرنی پڑے گی۔فارقلیط بھائی یہ غزل شعیب بھائی نے ساڑھے سات سال پہلے شریک محفل کی تھی۔ شاعر نے نجانے کتنا عرصہ پہلے کہی ہو گی۔