نوید ناظم
محفلین
رُوپوشی....
میں واصف صاحب پر بات کرنے کی اہل تو نہیں لیکن کاشف اس بات پر مُصر ہیں کہ جو کچھ بھی ہے ‘اسے منکشف کیاجائے ۔ کچھ سال ادھر کی بات ہے ، جمیلہ ہاشمی ابھی حیات تھیں ، ان کا فنکشن تھا ”دشت سُوس“ کا ۔ میں نے بڑی خبر گیری کے ساتھ اور بڑی محنت کے ساتھ ایک مضمون لکھا اور وقت پر پہنچی اور وقت پر پڑھا۔ جب میں مضمون پڑھ کر نیچے اُتر رہی تھی تو کچھ لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا اور میری بڑی تعریف کی۔ کچھ فاصلے پر واصفؒ صاحب بیٹھے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری تعریف کرنے والے ہیں اس لیے میں اُن کے پاس گئی اور میں نے کہا ، واصفؒ صاحب ، آپ کو مضمون پسند آیا؟ تو انہوں نے کہا دو منٹ بیٹھ جایئے، میں تفصیل سے آپ کے مضمون کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔میں ان کے پاس بیٹھ گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ بانو ! کیا آپ منصورؒ حلّاج رحمتہ اللہ علیہ پر بات کرنے کی اہل ہیں ؟ میں چپ ہو گئی اور میں نے کہا کہ جی میں اہل تو نہیں لیکن میں نے ناول بڑے غورسے پڑھا ہے اور بڑی دیر تک میں نے اس پر ریسرچ کی ہے۔ کہتے ہیں ریسرچ سے اہلیت پیدا نہیں ہوتی۔ پھر وہ مجھے کہنے لگے بانو ! تم سے ایک خواہش بھی ہے‘ اور ایک درخواست بھی ہے، شاید تم عمل کر جاﺅ، کہ جو طاقت ہے ، دراصل انسان کی طاقت ہی اس کی خرابی ہوتی ہے اور اسی طاقت کی وجہ سے اس کو آزمایا بھی جاتا ہے۔ ہو سکے تو جو طاقت تم میں موجود ہے ، اسے مخفی کر جاﺅ ، اسے چھپا جاﺅ۔ میں نے کہا کہ جی مجھ میں تو کوئی طاقت نہیں ہے ، میں تو اتنی کمزور ہوں کہ ایک ٹرنک بھی نہیں اٹھا سکتی۔ کہنے لگے میں اس طاقت کا ذکر نہیں کر رہا، ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی خوبی اللہ نے دی ہے جو اس کی طاقت بن جاتی ہے ‘تو خوبصورت عورت کو اپنا حسن مخفی رکھنا چاہیے۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب آپ اس عہد میں کیا اُلٹی بات کر رہے ہیں۔ کہنے لگے ‘اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے پاس کتنا بڑا ہتھیار ہے اور کتنا بڑا نقصان کر سکتی ہے۔ امیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو چھپا جائے، اگر وہ دے نہیں سکتا تو کم از کم چھپا جائے تاکہ دوسروں کے لیے جن کے پاس دولت نہیں ہے یہ اتنا بڑا عذاب نہ بن جائے ، سخی انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سخاوت کو چھپا جائے، شہرت والے کو چاہیے کہ وہ اپنی شہرت کو ہضم کر لے اور چھپا جائے۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب عزت تو اوپر والا دیتا ہے اور اس کو چھپایا کیسے جا سکتا ہے؟
”امیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو چھپا جائے، اگر وہ دے نہیں سکتا تو کم از کم چھپا جائے تاکہ دوسروں کے لیے جن کے پاس دولت نہیں ہے یہ اتنا بڑا عذاب نہ بن جائے ، سخی انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سخاوت کو چھپا جائے، شہرت والے کو چاہیے کہ وہ اپنی شہرت کو ہضم کر لے اور چھپا جائے“
فرمانے لگے ، اس کو چھپانے کا بڑا معمولی سا طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان عُزلت نشیں ہو جائے۔ میں نے کہا کہ اس سے کسی کا کیا نقصان ہے۔ شہرت خدا نے دی ہے ، آدمی پھرتا ہے اور وہ خوشبو کی مانند آپ کو لپٹتی رہتی ہے۔ کہنے لگے ‘بانو !اس شہر میں ضرور ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے آپ سے زیادہ محنت کی ہو گی ، وہ آپ سے زیادہ توفیق رکھتے ہوں گے کہ ان کو شہرت ملے لیکن وہ ان کو نہیں ملی ، کوئی وجہ ایسی ہو گی جب وہ آپ کو دیکھتے ہوں گے تو ان کو کتنا رنج پہنچتا ہو گا۔ تو کیا آپ اتنا بھی نہیں کر سکتیں کہ کبھی کبھی نظروں سے اوجھل ہو جائیں اور نظر نہ آئیں۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب یہ ساری باتیں تو سمجھ آتی ہیں لیکن کوئی اور بھی درجہ ہے چھپ جانے کا، طاقت کا۔ کہنے لگے ایک اور بہت ظالم درجہ ہے اور وہ فقیری کا ہے۔ میں نے کہا ، واصفؒ صاحب فقیری کیسے چھپائی جا سکتی ہے، فقیر تو مشہور ہو جاتا ہے ، لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے‘ تو لوگ اسے جاننے لگتے ہیں، ایک انسان دوسرے سے ذکر کرتا ہے اور دوسرا تیسرے سے کرتا ہے، یہ تو شہر میں آگ لگ جاتی ہے ۔کہنے لگے جب تک خلق آپ کو فقیر سمجھے تب تک نقصان نہیں ہوتا ‘لیکن جب فقیر کو احساس ہونے لگے کہ اس کے پاس طاقت آ گئی ہے تو اسے رُو پوش ہو جانا چاہیے۔ جب میں آخری مرتبہ انہیں ہسپتال میں ملی تو انہوں نے مجھے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر ٹھہر جاﺅ تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ رُو پوش ہونے والے ہیں ‘کیونکہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اب وہ واصف علی واصفؒ فقیر نہیں رہے بلکہ اب وہ ایک طاقت بن گئے ہیں ،اور یقین کیجیے جب اللہ کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا کوئی فقیر رُوپوش ہونا چاہتا ہے تو پھر وہ ان کی بہت مدد کرتا ہے…. اس لیے وہ اس ارادے سے لندن گئے اور پھر آپ لوگوں سے نہیں ملے۔ کاشف اور عائشہ تو نہیں مانیں گے لیکن یہ اِرادہ اُن کا اپنا رُوپوش ہو جانے کا تھا ‘کیونکہ وہ اپنی طاقت چھپا دینا چاہتے تھے....
"بانو قدسیہ"
(سیمینار سے خطاب…. الحمرا ہال، لاہور…(جنوری 1991)
(سینڈ ایز ریسیوڈ)
میں واصف صاحب پر بات کرنے کی اہل تو نہیں لیکن کاشف اس بات پر مُصر ہیں کہ جو کچھ بھی ہے ‘اسے منکشف کیاجائے ۔ کچھ سال ادھر کی بات ہے ، جمیلہ ہاشمی ابھی حیات تھیں ، ان کا فنکشن تھا ”دشت سُوس“ کا ۔ میں نے بڑی خبر گیری کے ساتھ اور بڑی محنت کے ساتھ ایک مضمون لکھا اور وقت پر پہنچی اور وقت پر پڑھا۔ جب میں مضمون پڑھ کر نیچے اُتر رہی تھی تو کچھ لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا اور میری بڑی تعریف کی۔ کچھ فاصلے پر واصفؒ صاحب بیٹھے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری تعریف کرنے والے ہیں اس لیے میں اُن کے پاس گئی اور میں نے کہا ، واصفؒ صاحب ، آپ کو مضمون پسند آیا؟ تو انہوں نے کہا دو منٹ بیٹھ جایئے، میں تفصیل سے آپ کے مضمون کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔میں ان کے پاس بیٹھ گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ بانو ! کیا آپ منصورؒ حلّاج رحمتہ اللہ علیہ پر بات کرنے کی اہل ہیں ؟ میں چپ ہو گئی اور میں نے کہا کہ جی میں اہل تو نہیں لیکن میں نے ناول بڑے غورسے پڑھا ہے اور بڑی دیر تک میں نے اس پر ریسرچ کی ہے۔ کہتے ہیں ریسرچ سے اہلیت پیدا نہیں ہوتی۔ پھر وہ مجھے کہنے لگے بانو ! تم سے ایک خواہش بھی ہے‘ اور ایک درخواست بھی ہے، شاید تم عمل کر جاﺅ، کہ جو طاقت ہے ، دراصل انسان کی طاقت ہی اس کی خرابی ہوتی ہے اور اسی طاقت کی وجہ سے اس کو آزمایا بھی جاتا ہے۔ ہو سکے تو جو طاقت تم میں موجود ہے ، اسے مخفی کر جاﺅ ، اسے چھپا جاﺅ۔ میں نے کہا کہ جی مجھ میں تو کوئی طاقت نہیں ہے ، میں تو اتنی کمزور ہوں کہ ایک ٹرنک بھی نہیں اٹھا سکتی۔ کہنے لگے میں اس طاقت کا ذکر نہیں کر رہا، ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی خوبی اللہ نے دی ہے جو اس کی طاقت بن جاتی ہے ‘تو خوبصورت عورت کو اپنا حسن مخفی رکھنا چاہیے۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب آپ اس عہد میں کیا اُلٹی بات کر رہے ہیں۔ کہنے لگے ‘اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے پاس کتنا بڑا ہتھیار ہے اور کتنا بڑا نقصان کر سکتی ہے۔ امیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو چھپا جائے، اگر وہ دے نہیں سکتا تو کم از کم چھپا جائے تاکہ دوسروں کے لیے جن کے پاس دولت نہیں ہے یہ اتنا بڑا عذاب نہ بن جائے ، سخی انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سخاوت کو چھپا جائے، شہرت والے کو چاہیے کہ وہ اپنی شہرت کو ہضم کر لے اور چھپا جائے۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب عزت تو اوپر والا دیتا ہے اور اس کو چھپایا کیسے جا سکتا ہے؟
”امیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو چھپا جائے، اگر وہ دے نہیں سکتا تو کم از کم چھپا جائے تاکہ دوسروں کے لیے جن کے پاس دولت نہیں ہے یہ اتنا بڑا عذاب نہ بن جائے ، سخی انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سخاوت کو چھپا جائے، شہرت والے کو چاہیے کہ وہ اپنی شہرت کو ہضم کر لے اور چھپا جائے“
فرمانے لگے ، اس کو چھپانے کا بڑا معمولی سا طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان عُزلت نشیں ہو جائے۔ میں نے کہا کہ اس سے کسی کا کیا نقصان ہے۔ شہرت خدا نے دی ہے ، آدمی پھرتا ہے اور وہ خوشبو کی مانند آپ کو لپٹتی رہتی ہے۔ کہنے لگے ‘بانو !اس شہر میں ضرور ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے آپ سے زیادہ محنت کی ہو گی ، وہ آپ سے زیادہ توفیق رکھتے ہوں گے کہ ان کو شہرت ملے لیکن وہ ان کو نہیں ملی ، کوئی وجہ ایسی ہو گی جب وہ آپ کو دیکھتے ہوں گے تو ان کو کتنا رنج پہنچتا ہو گا۔ تو کیا آپ اتنا بھی نہیں کر سکتیں کہ کبھی کبھی نظروں سے اوجھل ہو جائیں اور نظر نہ آئیں۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب یہ ساری باتیں تو سمجھ آتی ہیں لیکن کوئی اور بھی درجہ ہے چھپ جانے کا، طاقت کا۔ کہنے لگے ایک اور بہت ظالم درجہ ہے اور وہ فقیری کا ہے۔ میں نے کہا ، واصفؒ صاحب فقیری کیسے چھپائی جا سکتی ہے، فقیر تو مشہور ہو جاتا ہے ، لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے‘ تو لوگ اسے جاننے لگتے ہیں، ایک انسان دوسرے سے ذکر کرتا ہے اور دوسرا تیسرے سے کرتا ہے، یہ تو شہر میں آگ لگ جاتی ہے ۔کہنے لگے جب تک خلق آپ کو فقیر سمجھے تب تک نقصان نہیں ہوتا ‘لیکن جب فقیر کو احساس ہونے لگے کہ اس کے پاس طاقت آ گئی ہے تو اسے رُو پوش ہو جانا چاہیے۔ جب میں آخری مرتبہ انہیں ہسپتال میں ملی تو انہوں نے مجھے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر ٹھہر جاﺅ تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ رُو پوش ہونے والے ہیں ‘کیونکہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اب وہ واصف علی واصفؒ فقیر نہیں رہے بلکہ اب وہ ایک طاقت بن گئے ہیں ،اور یقین کیجیے جب اللہ کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا کوئی فقیر رُوپوش ہونا چاہتا ہے تو پھر وہ ان کی بہت مدد کرتا ہے…. اس لیے وہ اس ارادے سے لندن گئے اور پھر آپ لوگوں سے نہیں ملے۔ کاشف اور عائشہ تو نہیں مانیں گے لیکن یہ اِرادہ اُن کا اپنا رُوپوش ہو جانے کا تھا ‘کیونکہ وہ اپنی طاقت چھپا دینا چاہتے تھے....
"بانو قدسیہ"
(سیمینار سے خطاب…. الحمرا ہال، لاہور…(جنوری 1991)
(سینڈ ایز ریسیوڈ)