میں سوشیالوجی کے طالب علم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائٹی کو تشکیل دیا ہوگا تو یہ ضرورت محوس کی ہوگی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ باہمی میل جول اور ضرورت نے معاشرے کو جنم دیا ہوگا۔ لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خدا ہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا۔ پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت، حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں سلب کرنے لگی۔ محبت کی خاطر قتل ہونے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خودکشی وجود میں آئی ۔۔۔۔۔۔ سوسائٹی اغواء سے شبخون سے متعارف ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
(بانو قدسیہ کی کتاب راجہ گدھ سے اقتباس)