تہذیب
محفلین
(عمرخیام پہاڑی کے سفرناموں سے ایک اقتباس)
جس طرح دبئی کی ترقی کی اصل وجہ تیل ہے اسی طرح باکوکی تعمیر و ترقی کے پیچھے بلکہ نیچے تیل کا ہاتھ ہے ۔ آذربائیجان میں تیل آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے نکلنا شروع ہوا ۔ کہتے ہیں کہ تیل زمین کی اتنی اوپری سطح پر تھا کہ لوگ کنواں یا گڑھا کھودتے اور ڈول بھر بھر کر تیل نکالتے تھے ۔ ہمیں اتنا موقعہ نہ مل سکا کہ خود جاکے کہیں گڑھا کھودتے اور دیکھتے کہ واقعی نکلتا ہے یا کہانیاں بنی ہیں ۔ باکو تیل کی دریافت سے پہلے آٹھ دس ہزار کی آبادی والا ایک چھوٹا سا شہر تھا ، لیکن جونہی تیل نکلنا شروع ہوا آس پاس اور دوردراز سے تیل کمپنیاں دوڑی چلی آئیں اور کنویں نکال کے تیل نکالنا اور بیچنا شروع کردیا ۔ ہماری ہندوستان کی جنگ آزادی 1857 سے لیکر پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے تک کے دور میں باکو کی ترقی کی شرع لندن ، پیرس اور نیویارک سے کئی گنا زیادہ تھی ۔
آذربائیجان الف لیلوی ملک ہے ۔ کہتے ہیں کہ عرب لوگ جب فتوحات پہ فتوحات کرتے کوہ ارارات یا کاکیشیا کے علاقے میں پہنچے تو وہاں کے قوی ہیکل مردوں اور سرخ بالوں والی عورتوں کو دیکھ کے پری اور دیو سمجھ بیٹھے اور انہی کی بنیاد پر کئی الف لیلوی داستانیں تخلیق کیں ۔ کوہ قاف ، عمروعیار، امیر حمزہ ، سامری جادوگر وغیرہ سے تو ہم بھی آشنا ہیں ۔ اس زمانے میں اس علاقے کے لوگ شاید پہاڑوں میں رہتے ہوں گے ۔ کیونکہ وہاں پر اس قسم کے آثار ضرور ملتے ہیں ۔ اس خطہ میں آذر بائیجان ، آرمینیا اور جورجیا ہیں ۔ صرف آذربائیجان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ باقی دونوں ملکوں میں عیسائیوں کی اکثریت ہے ۔ ابھی ایک ہفتے پہلے ہی فرانس کی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا ہے جس کے مطابق کوئی سو سال پہلے کی ایک جنگ میں جو بیس لاکھ جورجین عثمانی ترکوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، کو نسل کشی قراردیا گیا ہے ، اور ترکی کو معافی مانگنے کا کہا ہے ۔ ترکی کی حکومت نے احتجاج کے طور پر پیرس سےا پنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے ۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں مارے گئے تھے ، اور ان کی تعداد بیس لاکھ نہیں بلکہ صرف تین لاکھ تھی۔ اور اس جنگ میں ہزاروں ترکوں کی بھی موت ہوئی تھی۔
باکو کا نام بھی ہم نے نہ سنا ہوتا لیکن ہوا یوں کہ ہمارے کزن شاہ کا مسیر یعنی خالہ زاد بھائی اسلام آباد سے یورپ جاتے ہوئے وہاں کے حیدرعلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پھنس گیا ۔ پھنس کیا گیا بلکہ پکڑا گیا۔ اس کے پاس تمام دستاویزات بشمول پاسپورٹ اور پاسپورٹ پہ لگی تصویر کے اصلی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف کچھ امریکی ڈالر نقلی نکلے جو اس نے راولپنڈی میں پاکستانی روپوں کے بدلے ایک کرنسی ڈیلر سے خریدے تھے ۔ اب بھلا اس ذرا سی غلطی پر پکڑ دھکڑکی کیا ضرورت ہے ۔ برادر اسلامی ملک کا معصوم باشندہ سمجھ کے مک مکا کرلیتے ۔ لیکن آذر بائیجان جغرافیائی طور پر تو یورپ میں شامل نہیں ہے ۔لیکن اس کے طور طریقے یوروپین ہیں اس لیے ان کو بھی فرنگی بننے کا شوق ہے ۔شاہ کے کزن کو آذری زبان بالکل بھی نہ آتی تھی ۔ تھوڑی سی انگلش بول لیتا تھا ، ائیرپورٹ سیکورٹی والوں کی انگلش اس کی انگریزی سے بھی بری تھی ۔اس لیے مواصلاتی رابطے کی کمی کی وجہ سے غلط فہمیوں کا گردوغبار چھایا ہوا تھا ۔ یہ گردوغبار مٹانے ، کسی وکیل کا بندوبست کرنے اور کزن کو خرچہ پانی دینے کیلیئے شاہ کا انتخاب ہوا ۔ اور شاہ نے اپنے ساتھ جانے کیلیئے مجھے آمادہ کرلیا ۔ آمادہ کیاکرنا تھا ۔ ایک شام کو مجھے فون کیا کہ اگلے ہفتے کی کوئی ضروری مصروفیات تو نہیں ؟ میں نے نفی میں جواب دیا اور اگلے دن وہ مجھ سے میرا پاسپورٹ لینے آگیا کہ ٹکٹ لینے اور ویزہ کا پتہ کرنا ہے ۔ تین چار دن کیلیئے عازم باکو ہوگئے ۔۔
یہ ٹرپ سیروتفریح کا ٹرپ نہ تھا کہ ہم گھومتے پھرتے اور وہاں کے کلچر اور لوگوں کا مشاہدہ کرتے ، گلیوں بازاروں میں گھومتے پھرتے ، نکڑ پہ بنے قہوہ خانوں میں قہوہ یا کافی نما گاڑھا کڑوا سوپ پیتے ، بلکہ یہ بھاگ ودوڑ کا ٹرپ تھا ۔ آذری زبان فارسی اور ترکی کے بیچ بیچ کی زبان ہے ۔ کئی ایک مانوس ناموں سے واسطہ پڑا۔ حیدر علی ائیرپورٹ ۔ بی بی ہیبت مسجد، شیروان شاہ مسجد یا چوک ۔ تازہ پیر مسجد۔ نظامی سٹریٹ وغیرہ ۔۔ سب کچھ اپنا سا لگتا تھا ۔ سوائے اس کے کہ باکو دبئی کی طرح صاف ستھرا شہر ہے اور تیزی سے بلند وبالا اورجدید بلڈنگیں بن رہی ہیں ۔ شاپنگ مال بن رہے ہیں ۔ لیکن یہ دبئی کی طرح اسلامی ملک نہیں بلکہ سیکولر ہے ۔ یہ بھی دبئی کی طرح سمندر کے کنارے پر واقع ہے ۔ دبئی خلیج فارس کے کنارے ہے تو یہ بحیرہ کیسپئین کے کنارے پر ۔۔ یعنی دبئی ایران کے ایک طرف اور یہ دوسری طرف ۔۔۔ ایران کا اثر اس پہ بھی بے حد گہرا ہے ۔ صفوی حکمرانوں نے عرصہ تک ان پر حکومت کی ہے ۔ دنیا بھر میں آبادی میں تناسب کے حساب سے ایران کے بعد دوسرا بڑا شیعہ ملک آذر بائیجان ہی ہے ۔
شہر خوبصورت ہے ، تو شہری اس سے بھی زیادہ خوبصورت ۔۔۔۔ ۔ لیکن کاش ہم زمانۂ امن میں گئے ہوتے ، یہ افراتفری نہ ہوتی ۔ تو یہ دورہ بھی مزے سے انجوئے کرتے ۔۔ ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد ۔۔
اور ہاں ! ہم یہ تو بھول ہی گئے کہ کزن کا کیا بنا ۔۔؟
اس کو چار سال کی قید ہوگئی ۔۔
جس طرح دبئی کی ترقی کی اصل وجہ تیل ہے اسی طرح باکوکی تعمیر و ترقی کے پیچھے بلکہ نیچے تیل کا ہاتھ ہے ۔ آذربائیجان میں تیل آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے نکلنا شروع ہوا ۔ کہتے ہیں کہ تیل زمین کی اتنی اوپری سطح پر تھا کہ لوگ کنواں یا گڑھا کھودتے اور ڈول بھر بھر کر تیل نکالتے تھے ۔ ہمیں اتنا موقعہ نہ مل سکا کہ خود جاکے کہیں گڑھا کھودتے اور دیکھتے کہ واقعی نکلتا ہے یا کہانیاں بنی ہیں ۔ باکو تیل کی دریافت سے پہلے آٹھ دس ہزار کی آبادی والا ایک چھوٹا سا شہر تھا ، لیکن جونہی تیل نکلنا شروع ہوا آس پاس اور دوردراز سے تیل کمپنیاں دوڑی چلی آئیں اور کنویں نکال کے تیل نکالنا اور بیچنا شروع کردیا ۔ ہماری ہندوستان کی جنگ آزادی 1857 سے لیکر پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے تک کے دور میں باکو کی ترقی کی شرع لندن ، پیرس اور نیویارک سے کئی گنا زیادہ تھی ۔
آذربائیجان الف لیلوی ملک ہے ۔ کہتے ہیں کہ عرب لوگ جب فتوحات پہ فتوحات کرتے کوہ ارارات یا کاکیشیا کے علاقے میں پہنچے تو وہاں کے قوی ہیکل مردوں اور سرخ بالوں والی عورتوں کو دیکھ کے پری اور دیو سمجھ بیٹھے اور انہی کی بنیاد پر کئی الف لیلوی داستانیں تخلیق کیں ۔ کوہ قاف ، عمروعیار، امیر حمزہ ، سامری جادوگر وغیرہ سے تو ہم بھی آشنا ہیں ۔ اس زمانے میں اس علاقے کے لوگ شاید پہاڑوں میں رہتے ہوں گے ۔ کیونکہ وہاں پر اس قسم کے آثار ضرور ملتے ہیں ۔ اس خطہ میں آذر بائیجان ، آرمینیا اور جورجیا ہیں ۔ صرف آذربائیجان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ باقی دونوں ملکوں میں عیسائیوں کی اکثریت ہے ۔ ابھی ایک ہفتے پہلے ہی فرانس کی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا ہے جس کے مطابق کوئی سو سال پہلے کی ایک جنگ میں جو بیس لاکھ جورجین عثمانی ترکوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، کو نسل کشی قراردیا گیا ہے ، اور ترکی کو معافی مانگنے کا کہا ہے ۔ ترکی کی حکومت نے احتجاج کے طور پر پیرس سےا پنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے ۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں مارے گئے تھے ، اور ان کی تعداد بیس لاکھ نہیں بلکہ صرف تین لاکھ تھی۔ اور اس جنگ میں ہزاروں ترکوں کی بھی موت ہوئی تھی۔
باکو کا نام بھی ہم نے نہ سنا ہوتا لیکن ہوا یوں کہ ہمارے کزن شاہ کا مسیر یعنی خالہ زاد بھائی اسلام آباد سے یورپ جاتے ہوئے وہاں کے حیدرعلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پھنس گیا ۔ پھنس کیا گیا بلکہ پکڑا گیا۔ اس کے پاس تمام دستاویزات بشمول پاسپورٹ اور پاسپورٹ پہ لگی تصویر کے اصلی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف کچھ امریکی ڈالر نقلی نکلے جو اس نے راولپنڈی میں پاکستانی روپوں کے بدلے ایک کرنسی ڈیلر سے خریدے تھے ۔ اب بھلا اس ذرا سی غلطی پر پکڑ دھکڑکی کیا ضرورت ہے ۔ برادر اسلامی ملک کا معصوم باشندہ سمجھ کے مک مکا کرلیتے ۔ لیکن آذر بائیجان جغرافیائی طور پر تو یورپ میں شامل نہیں ہے ۔لیکن اس کے طور طریقے یوروپین ہیں اس لیے ان کو بھی فرنگی بننے کا شوق ہے ۔شاہ کے کزن کو آذری زبان بالکل بھی نہ آتی تھی ۔ تھوڑی سی انگلش بول لیتا تھا ، ائیرپورٹ سیکورٹی والوں کی انگلش اس کی انگریزی سے بھی بری تھی ۔اس لیے مواصلاتی رابطے کی کمی کی وجہ سے غلط فہمیوں کا گردوغبار چھایا ہوا تھا ۔ یہ گردوغبار مٹانے ، کسی وکیل کا بندوبست کرنے اور کزن کو خرچہ پانی دینے کیلیئے شاہ کا انتخاب ہوا ۔ اور شاہ نے اپنے ساتھ جانے کیلیئے مجھے آمادہ کرلیا ۔ آمادہ کیاکرنا تھا ۔ ایک شام کو مجھے فون کیا کہ اگلے ہفتے کی کوئی ضروری مصروفیات تو نہیں ؟ میں نے نفی میں جواب دیا اور اگلے دن وہ مجھ سے میرا پاسپورٹ لینے آگیا کہ ٹکٹ لینے اور ویزہ کا پتہ کرنا ہے ۔ تین چار دن کیلیئے عازم باکو ہوگئے ۔۔
یہ ٹرپ سیروتفریح کا ٹرپ نہ تھا کہ ہم گھومتے پھرتے اور وہاں کے کلچر اور لوگوں کا مشاہدہ کرتے ، گلیوں بازاروں میں گھومتے پھرتے ، نکڑ پہ بنے قہوہ خانوں میں قہوہ یا کافی نما گاڑھا کڑوا سوپ پیتے ، بلکہ یہ بھاگ ودوڑ کا ٹرپ تھا ۔ آذری زبان فارسی اور ترکی کے بیچ بیچ کی زبان ہے ۔ کئی ایک مانوس ناموں سے واسطہ پڑا۔ حیدر علی ائیرپورٹ ۔ بی بی ہیبت مسجد، شیروان شاہ مسجد یا چوک ۔ تازہ پیر مسجد۔ نظامی سٹریٹ وغیرہ ۔۔ سب کچھ اپنا سا لگتا تھا ۔ سوائے اس کے کہ باکو دبئی کی طرح صاف ستھرا شہر ہے اور تیزی سے بلند وبالا اورجدید بلڈنگیں بن رہی ہیں ۔ شاپنگ مال بن رہے ہیں ۔ لیکن یہ دبئی کی طرح اسلامی ملک نہیں بلکہ سیکولر ہے ۔ یہ بھی دبئی کی طرح سمندر کے کنارے پر واقع ہے ۔ دبئی خلیج فارس کے کنارے ہے تو یہ بحیرہ کیسپئین کے کنارے پر ۔۔ یعنی دبئی ایران کے ایک طرف اور یہ دوسری طرف ۔۔۔ ایران کا اثر اس پہ بھی بے حد گہرا ہے ۔ صفوی حکمرانوں نے عرصہ تک ان پر حکومت کی ہے ۔ دنیا بھر میں آبادی میں تناسب کے حساب سے ایران کے بعد دوسرا بڑا شیعہ ملک آذر بائیجان ہی ہے ۔
شہر خوبصورت ہے ، تو شہری اس سے بھی زیادہ خوبصورت ۔۔۔۔ ۔ لیکن کاش ہم زمانۂ امن میں گئے ہوتے ، یہ افراتفری نہ ہوتی ۔ تو یہ دورہ بھی مزے سے انجوئے کرتے ۔۔ ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد ۔۔
اور ہاں ! ہم یہ تو بھول ہی گئے کہ کزن کا کیا بنا ۔۔؟
اس کو چار سال کی قید ہوگئی ۔۔