مہ جبین
محفلین
باہر کا آدمی تو ہے پتھر کا آدمی
پتھر نہ ہو خدا کرے اندر کا آدمی
صحرا کے باسیوں سے کہو جاگتے رہیں
شب خون مارتا ہے سمندر کا آدمی
رہزن تو لوٹتے ہیں مسافر کو راہ میں
اِس گھر کو لوٹتا ہے اِسی گھر کا آدمی
کب تک رہے گا چہرہء قاتل نقاب میں
منظر میں آئے گا پسِ منظر کا آدمی
بل ڈالئے جبیں پہ نہ مہماں کو دیکھ کر
کھاتا ہے رزق اپنے مقدر کا آدمی
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام
پتھر نہ ہو خدا کرے اندر کا آدمی
صحرا کے باسیوں سے کہو جاگتے رہیں
شب خون مارتا ہے سمندر کا آدمی
رہزن تو لوٹتے ہیں مسافر کو راہ میں
اِس گھر کو لوٹتا ہے اِسی گھر کا آدمی
کب تک رہے گا چہرہء قاتل نقاب میں
منظر میں آئے گا پسِ منظر کا آدمی
بل ڈالئے جبیں پہ نہ مہماں کو دیکھ کر
کھاتا ہے رزق اپنے مقدر کا آدمی
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام