مہ جبین
محفلین
بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہے چراغ
آخر اسی حصار میں گم ہوگئے چراغ
جس گھر سے تو خفا ہو وہاں روشنی کہاں
کب سے بجھے پڑے ہیں شب و روز کے چراغ
یاروں کی انجمن میں یہ کیسی ہوا چلی
اک دوسرے کی لوَ پہ لپکنے لگے چراغ
شاید بہار نام ہے اک جشنِ رنگ کا
آنچل اڑے ، گلاب کھِلے، ہنس پڑے چراغ
جب آگیا خیال کسی مہ جمال کا
آنکھوں کی چلمنوں سے جھلکنے لگے چراغ
یہ کیا ہوا فضا کو، وہ نغمے نہ روشنی
کس نے بجھا دیئے تری آواز کے چراغ
سمجھے تھے جن کو پھول وہ شاخوں کے زخم تھے
شبنم کے اشک تھے جو دکھائی دیئے چراغ
خونِ دل و جگر سے چراغاں تو کر لیا
ہر چند چشمِ تر کو یہ مہنگے پڑے چراغ
منزل کے قمقموں کی صدا سن رہا ہوں میں
لیکن یہ ٹمٹماتے ہوئےراہ کے چراغ؟
ہر چند اپنی ذات میں اک انجمن ہوں میں
لیکن مثالِ قریہءویراں ہوں بے چراغ
بے سوزِ دل تجلّیءتکمیلِ فن کہاں
ذہنِ رسا ہزار جلاتا رہے چراغ
یارانِ کم سواد کو ہر راہ سے گلہ !
ہم تو حزیں جہاں بھی گئے جل اٹھے چراغ
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام
آخر اسی حصار میں گم ہوگئے چراغ
جس گھر سے تو خفا ہو وہاں روشنی کہاں
کب سے بجھے پڑے ہیں شب و روز کے چراغ
یاروں کی انجمن میں یہ کیسی ہوا چلی
اک دوسرے کی لوَ پہ لپکنے لگے چراغ
شاید بہار نام ہے اک جشنِ رنگ کا
آنچل اڑے ، گلاب کھِلے، ہنس پڑے چراغ
جب آگیا خیال کسی مہ جمال کا
آنکھوں کی چلمنوں سے جھلکنے لگے چراغ
یہ کیا ہوا فضا کو، وہ نغمے نہ روشنی
کس نے بجھا دیئے تری آواز کے چراغ
سمجھے تھے جن کو پھول وہ شاخوں کے زخم تھے
شبنم کے اشک تھے جو دکھائی دیئے چراغ
خونِ دل و جگر سے چراغاں تو کر لیا
ہر چند چشمِ تر کو یہ مہنگے پڑے چراغ
منزل کے قمقموں کی صدا سن رہا ہوں میں
لیکن یہ ٹمٹماتے ہوئےراہ کے چراغ؟
ہر چند اپنی ذات میں اک انجمن ہوں میں
لیکن مثالِ قریہءویراں ہوں بے چراغ
بے سوزِ دل تجلّیءتکمیلِ فن کہاں
ذہنِ رسا ہزار جلاتا رہے چراغ
یارانِ کم سواد کو ہر راہ سے گلہ !
ہم تو حزیں جہاں بھی گئے جل اٹھے چراغ
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام