کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک غزل بحرِ ہندی میں کافی عرصے سے اصلاح کے لئے میرے پاس لکھی ہوئی تھی۔ لیجیئے آج پیش کرتا ہوں۔
استاد محترم جناب الف عین سر اور تمام احباب سے صلاح مشورؤں کی درخواست ہے۔ غزل میں جگہ جگہ تسکین اوسط کا استعمال کیا ہے اس کےلئے عروض داں حضرات سے خصوصی توجہ کی امیّد رکھتا ہوں۔ نیازمند فرمائیں۔
بحر ہندی
راکھ کا ڈھیلا اک انگارہ ہو سکتا ہے
ایک شرارہ پل میں ستارہ ہو سکتا ہے
استاد محترم جناب الف عین سر اور تمام احباب سے صلاح مشورؤں کی درخواست ہے۔ غزل میں جگہ جگہ تسکین اوسط کا استعمال کیا ہے اس کےلئے عروض داں حضرات سے خصوصی توجہ کی امیّد رکھتا ہوں۔ نیازمند فرمائیں۔
بحر ہندی
راکھ کا ڈھیلا اک انگارہ ہو سکتا ہے
ایک شرارہ پل میں ستارہ ہو سکتا ہے
تجربہ ایسا اک گزرا ہے ان آنکھوں پر
بھول گئے تو بہت خسارہ ہو سکتا ہے
بھول گئے تو بہت خسارہ ہو سکتا ہے
اس منصوبے میں امکان کھلے رکھنے ہیں
طوفاں کا بھی یہی کنارہ ہو سکتا ہے
طوفاں کا بھی یہی کنارہ ہو سکتا ہے
آسمان پر سب سے روشن سب سے نمایاں
رہ بھٹکانے والا ستارہ ہو سکتا ہے
جھوٹ سے میرے یہ فتنہ شاید دب جائے
ایک گناہ بھی اک کفارہ ہو سکتا ہے
جتنی دیر میں کپڑے بدلے جا سکتے ہیں
فیصلہ اتنے میں ہی دوبارہ ہو سکتا ہے
رہ بھٹکانے والا ستارہ ہو سکتا ہے
جھوٹ سے میرے یہ فتنہ شاید دب جائے
ایک گناہ بھی اک کفارہ ہو سکتا ہے
جتنی دیر میں کپڑے بدلے جا سکتے ہیں
فیصلہ اتنے میں ہی دوبارہ ہو سکتا ہے
مل سکتی ہے ناصح سے تحریکِ شرارت
باتوں باتوں میں ہی اشارہ ہو سکتا ہے
باتوں باتوں میں ہی اشارہ ہو سکتا ہے
نم آنچل نے رمز ہمیں سمجھائی ہے
جھیل سے ہٹ کے بھی تو کنارہ ہو سکتا ہے
جھیل سے ہٹ کے بھی تو کنارہ ہو سکتا ہے
کچھ غم ایسے بھی ہوتے ہیں اس دنیا میں
مل جل کر ہی جن میں گزارا ہو سکتا ہے
سیّدکاشف
مل جل کر ہی جن میں گزارا ہو سکتا ہے
سیّدکاشف