بحر الفصاحت

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

میں آجکل بحر الفصاحت کا مطالعہ کر رہا ہوں اور اس دوران بعض چیزیں سمجھ نہیں آتی یا کویے اشکال پیدا ہو جاتا ہے چناچہ خیال آیا کہ یہاں ان اشکالات کو رکھوں امید ہے کہ تسلی بخش جواب مل جائے

کوئی جگہ اس نوعیت کہ مباحث کے لئے مختص نہیں ئے اس لئے اسے چن لیا
 

m.mushrraf

محفلین
علم المعانی

ابتداٰء مندرجہ ذیل اصطلاحات کی تشریح درکار ہے جو کہ بکثرت ترکیب کے تجزئے میں وارد ہوتی ہیں :

ترکیب کی ساخت
ترکیب کی ہیئت
ترکیب کی نشست
ترکیب کی سبکی
ترکیب کی گرانی

چونکہ بحر الفصاحت کے ضمن میں بات ہو رہی ہے تو مناست مولوم ہوتا ہے کہ اس میں جس مقام پہ یہ الفاظ وارد ہوئے اس کا اقتباس دے دوں :
"لیکن کلام کی بلاغت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے اس کی ساخت ہیئت نشست سبکی اور گرانی کے ساتھ اس کو خاص تناست اور توازن ہو"

اگر تفصیلا ان پہ روشنی پڑ جائے تو بہت خوب
اور اس نوعیت کی اصطلاحات کے لئے کوئی کتاب وغیرہ موجود ہو تو سونے پہ سھاگا
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تو خوش آمدید مشرف۔
اس کے بعد محض یہ وضاحت ضروری ہے کہ تراکیب سے مقصد محض الفاظ کا میل ہوتا ہے۔ ان کا حسن اس کی معنویت پر مبنی ہے، جیسے کہیں کہ ’لفظ کی خوشبو‘۔ یہ بھی ایک ترکیب ہے، اسی طرح اگر آپ ایک اور لفظ یا ترکیب بنائیں، جیسے ’لفظ کی آگ‘ تو اس ترکیب کا مطلب ہی نکلتا ہے (ویسے نکل سکتا ہے لیکن منفی مطلب)، اور نہ یہ سننے یا پڑھنے میں اچھی لگتی ہے۔ سبکی یا گرانی تو محض بات کا سٹائل ہے، ایسی کوئی اصطلاح تو نہیں ہے۔ لیکن کسی ترکیب کی اچھائی کے لئے آپ جو بھی لفظ استعمال کرنا چاہیں، چل سکتا ہے۔
ترکیبوں کے لئے شاعری کی اچھی مثالیں دیکھیں۔ عرفان صدیقی، منیر نیازی، افتخار عارف وغیرہ ترکیبوں کے لئے مشہور ہیں۔
 

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

1:
ابر اٹھا تھا کعبہ سے اور جھوم پڑا میخانہ پر
بادہ کشوں کا جھڑمٹ ہیگا شیشے اور پیمانے پر

اس شعر میں "شیشے" سے کیا مراد ہے؟

۲: کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لیجیو کہ چلا میں

کیا اس شعر لے دوسرے مصرعہ میں شاعر "محبوب" کی بے رخی سے بد دل ہو کے "میخانہ" چھوڑ جانے کہ بات کر رہا ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
نہیں مشرف۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں شاعر کے محبوب کی نگاہوں کی مے سے مد ہوش ہو کر یا بے ہوش ہو کر گر جانے کی بات کر رہا ہے۔
اس شعر میں تو کوئی ترکیب نہیںِ؟؟
 

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

جزاكم الله خيرا

میں معذرت خواہ ہوں کہ میں ایک مختلف نوعیت کا سوال پوچھ رہا تھا اور میں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ میں اس شعر کہ معنے پوچھنا چاہ رہا تھا۔

البتہ آپ کی اس بات سے لگا کہ مجھے "ترکیب" کا مفھوم ہی صحیح طرح واضح نہیں ہوا کہ "اس شعر میں تو کوئی ترکیب نہیںِ؟؟"

کیا آپ کی یہ مراد تھی کہ کوئہ خاص ترکیب نہیں یا کچھ اور؟

میں نے اردو زبان کو نظری انداز سے نہیں پڑھا جس طرح عربی پڑھی ہے اس لئے اس کے آغاز میں بنیادی باتوں سے واقفیت کی ضرورت پیش آئے گی۔ البتہ "قواعد اردو زبان" کے اکثر مقامات پڑھ رکھے ہیں

ویسے آپ اس حوالے سے بھی رہنمائی کر سکتے ہیں کہ اس مرحلے پہ کون سی کتاب زیادہ مناسب رہے گی؟
کیا "بحر الفاحت" اور "قواعد اردو زبان" مناسب ہے یا کچھ اور؟

پچھلے پیغام میں پہلے سوال کا جواب باقی ہے "شیشے سے مراد"؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
شیشے سے مراد بھی پیمانہ یا ساغر ہی ہے۔ فیض کی ایک نظم شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں سے چند مصرعے۔

سب ساغر، شیشے، لعل و گہر
اس بازی میں بد جاتے ہیں
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

یا جیسے علامہ اقبال نے کہا تھا

ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے؟
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے
 

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

جزاكم الله خيرا

امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور میں کلاسیکی اردو ادب کا ذوق پیدا کر پاونگا
 

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

خبر سے حاصل ہونے والے فائدوں میں سے ایک "لازم فائدہ خبر" ہے۔ یعنی متکلم کا مقصود مخاطب کو یہ بتانا کہ میں اس خبر سے (مضمون جملہ سے) با خبر ہوِں۔

"بحر الفصاحت" میں اس کی مثالوں میں سے ایک مثال صاحب کتاب کا اپنا مندرجہ ذیل شعر ہے :
اے چرخ تو گذریو نہ کینے سے آج کل
واقف ہیں ہم بھی تیرے قرینے سے آج کل

اس مثال میں ایک اشکال سا ہے۔ وہ یہ کہ شعر کے دوسرے جزء میں - جو کہ مقصود مثال ہے - مضمون جملہ "چرخ کے قرینوں سے شاعر کہ واقفیت" ہے۔ اگر یہ "لازم فائدہ خبر" کے قبیل سے ہے، تو مراد یہ ہونی چاہیے کہ : "چرخ جانتا ہے کہ شاعر اس کے قرینوں سے واقف ہے" اور شاعر یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ چرخ کی واقفیت سے واقف ہے۔

لیکن ظاھر ہے کہ شاعر کا مقصود یہ نہیں بلکہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ قرینوں سے واقف ہے۔ جیسا کہ مصنف نے خود اس کی تشریح کی ہے تو یہ "فائدہ خبر" ہوا یعنی قرینہ ہائے مخاطب سے واقفیت شاعر کا فائدہ۔


"لازم فائدہ خبر" کی مثال یہ بنے گی کہ کسی کا دوست امتحان میں کامیاب ہو گیا تو اس نے دوست سے کہا : "تم کامیاب ہو گئے!"۔ کیونکہ یہاں مخاطب مضمون جملہ سے - یعنی دوست کی کامیابی سے- واقف ہے اور متکلم کو اپنی باخبری سے مطلع کرنا چاہتا تے۔

اور اس کہ ایک مثال یہ بھی دی جاتی ہے کہ استاد نے شاگرد سے سوال پوچھا اور شاگرد نے جواب دیا تو شاگرد کا جواب "لازم فائدہ خبر" ہوا۔

یہ اشکال مصنف کی باقی ۳ مثالوں میں بھی ہے۔
 

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

۱: نہاں ابر ظلمت میں تھا مہر انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر

"نہاں" اس شعر میں خبر ہے مضاف نہیں۔ اور نثری شکل مہں یہ ہو گا : "میر انور ابر ظلمت میں نہاں تھا"

ٹھیک؟

۲: بعض اوقات ایک واقف کار کو انجان قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال "بحر الفصاحت" میں مندرجہ ذیل شعر ہے :

پیارے نہ برا مانو تو اک بات کہوں مہں
کس لطف کی امید پہ یہ جور سہوں میں

یہ مثال اس ضمن میں کیسے آتی ہے؟ کیونکہ آخری مصرعہ سوالیہ ہے مصنف نے اس کی تشریح کی ہے پر اس سے تسلی نہیں ہئی اگر اس کی مزید وضاحت ہو جائے!
 
Top