بحر بتائیے

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار تو درست ہو گئے ہیں، لیکن یہ۔
لکھتے رہے جو اوروں کی تقدیریں خود سے ہی
ایسے ہی منصفوں سے عداوت اسے بھی تھی
اس میں روانی مار کھا رہی ہے۔
خود سے جو لکھتے رہتے تھے اوروں کی قسمتیں
کر دیا جائے تو؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
باقی اشعار تو درست ہو گئے ہیں، لیکن یہ۔
لکھتے رہے جو اوروں کی تقدیریں خود سے ہی
ایسے ہی منصفوں سے عداوت اسے بھی تھی
اس میں روانی مار کھا رہی ہے۔
خود سے جو لکھتے رہتے تھے اوروں کی قسمتیں
کر دیا جائے تو؟


بہت بہتر استادِ محترم،
آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔
یہ دیکھیں اب پوری غزل اس طرح بنی ہے۔

خود سے جو لکھتے رہتے تھے اوروں کی قسمتیں​
ایسے ہی منصفوں سے عداوت اسے بھی تھی​
کیا کیا نہ خواب اس نے دکھائے تھے شام کو​
تازہ محبتوں کی ضرورت اسے بھی تھی​
بکھرے تھے بال اور محبت میں یہ ستم​
سارے جہاں سے اب تو بغاوت اسے بھی تھی​
اب ہو گئی تھی اس کی طبیعت بھی بے سکون​
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی​
کتنا عجیب ہے کہ اکیلا ہی رہ گیا​
سارے جہاں سے جبکہ رقابت اسے بھی تھی​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک فورم پہ ایک دوست نے مندرجہ ذیل مشورے دیے ہیں اس غزل کے بارے میں،
آپ کی کیا رائے ہے:
1) پہلے شعر میں تقدیروں کی جگہ تقدیر کرنے سے بھی وزن برابر آئے گا اور معنویت بھی قائم رہے گی۔
2) تیسرا شعر اگر ایسے کر لیا جائے۔
ٹوٹا جو اعتبار کا شیشہ نہ پوچھیے
سارے جہاں سے پھر تو بغاوت اسے بھی تھی
3) پانچویں شعر میں لفظ اکیلا وزن میں ہے یا نہیں؟ اگر اس شعر کو ایسے کر لیا جائے
کتنا عجیب شخص تھا تنہا ہی رہ گیا
حالانکہ محفلوں کی عادت اسے بھی تھی
اور میرے والا متضادتاثر دے رہا ہے یا نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات درست ہے، لیکن
لکھتے رہے جو اوروں کی تقدیریں خود سے ہی
میں آخر میں خود سے ہی‘ مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا، اس لئے بدلنے کا مشورہ دیا، اور قسمتیں سے مصرع بہتر ہو جاتا ہے۔ اسلئے میرا مشورہ بہتر لگ رہا ہے۔
تیسرا شعر واقعی بہتر ہو جاتا ہے اس مشورے سے۔ قبول کر لو۔
’اکیلا‘ بھی درست وزن میں تھا، االبتہ پورے مصرع میں صیغہ ایک ہی استعمال ہونا بہتر تھا، ایک جگہ ’ہے‘ اور دوسری جگہ ’تھا‘ غلط تو نہیں۔ لیکن جب متبادل مصرع میں یہ سقم بھی نہیں رہتا تو قبول کرنا بہترہے۔ یہ مصرع رواں بھی ہے
کتنا عجیب شخص تھا تنہا ہی رہ گیا
لیکن دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو جاتا ہے۔ ’محفلون‘ نون کے اعلان کے ساتھ وزن میں آتا ہے۔ تمہارا مصرع ہی بہتر ہے
سارے جہاں سے جبکہ رقابت اسے بھی تھی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پہلی بات درست ہے، لیکن
لکھتے رہے جو اوروں کی تقدیریں خود سے ہی
میں آخر میں خود سے ہی‘ مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا، اس لئے بدلنے کا مشورہ دیا، اور قسمتیں سے مصرع بہتر ہو جاتا ہے۔ اسلئے میرا مشورہ بہتر لگ رہا ہے۔
تیسرا شعر واقعی بہتر ہو جاتا ہے اس مشورے سے۔ قبول کر لو۔
’اکیلا‘ بھی درست وزن میں تھا، االبتہ پورے مصرع میں صیغہ ایک ہی استعمال ہونا بہتر تھا، ایک جگہ ’ہے‘ اور دوسری جگہ ’تھا‘ غلط تو نہیں۔ لیکن جب متبادل مصرع میں یہ سقم بھی نہیں رہتا تو قبول کرنا بہترہے۔ یہ مصرع رواں بھی ہے
کتنا عجیب شخص تھا تنہا ہی رہ گیا
لیکن دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو جاتا ہے۔ ’محفلون‘ نون کے اعلان کے ساتھ وزن میں آتا ہے۔ تمہارا مصرع ہی بہتر ہے
سارے جہاں سے جبکہ رقابت اسے بھی تھی

جی استادِ محترم، آپ نے سب سے بہتر مشورہ دیا ہے۔
ایک مطلع ہے اگر فٹ بیٹھ جائے تو۔

ضدی بلا کا تھا وہ، شکایت اسے بھی تھی
اپنے کیے پہ کچھ تو ندامت اسے بھی تھی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
درست ہے بلال یہ مطلع بھی۔


استاد محترم بہت بہت شکریہ۔
اب اس غزل کو اس طرح مکمل ہو گئی ہے۔

ضدی بلا کا تھا وہ، شکایت اسے بھی تھی
اپنے کیے پہ کچھ تو ندامت اسے بھی تھی​
خود سے جو لکھتے رہتے تھے اوروں کی قسمتیں
ایسے ہی منصفوں سے عداوت اسے بھی تھی
کیا کیا نہ خواب اس نے دکھائے تھے شام کو
تازہ محبتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
ٹوٹا جو اعتبار کا شیشہ نہ پوچھیے
سارے جہاں سے اب تو بغاوت اسے بھی تھی
اب ہو گئی تھی اس کی طبیعت بھی بے سکون
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
کتنا عجیب شخص تھا تنہا ہی رہ گیا
سارے جہاں سے جبکہ رقابت اسے بھی تھی
 
Top