شیرازخان
محفلین
غزل
صاف ستھرا اسقدر دیکھو وہ مکاں بھی تو نہیں تھا
اس کا اپنے دل پہ کچھ اتنا دھاں بھی تو نہیں تھا
اب زمیں پاؤں تلے سے ہی نکلتی جا رہی تھی
اب مرے سر پہ کھڑاوہ آسماں بھی تونہیں تھا
قافلہ لٹنے کا دکھ تو اک طرف تھا ہی مگر اب
وہ جو ہمراہ تھا مرے وہ کارواں بھی تو نہیں تھا
لے تو آیا ہوں میں یہ صدمہ اٹھا کرساتھ اپنے
پر جلا تھا جو ، مرا وہ آشیاں بھی تو نہیں تھا
ٹوٹ کے برسی ہیں کیوں شیرؔ از یہ آنکھیں یکایک
آج بارش کا کہیں نام و نِشاں بھی تو نہیں تھا
صاف ستھرا اسقدر دیکھو وہ مکاں بھی تو نہیں تھا
اس کا اپنے دل پہ کچھ اتنا دھاں بھی تو نہیں تھا
اب زمیں پاؤں تلے سے ہی نکلتی جا رہی تھی
اب مرے سر پہ کھڑاوہ آسماں بھی تونہیں تھا
قافلہ لٹنے کا دکھ تو اک طرف تھا ہی مگر اب
وہ جو ہمراہ تھا مرے وہ کارواں بھی تو نہیں تھا
لے تو آیا ہوں میں یہ صدمہ اٹھا کرساتھ اپنے
پر جلا تھا جو ، مرا وہ آشیاں بھی تو نہیں تھا
ٹوٹ کے برسی ہیں کیوں شیرؔ از یہ آنکھیں یکایک
آج بارش کا کہیں نام و نِشاں بھی تو نہیں تھا