حسان خان
لائبریرین
بخارا ایک ایسے قدیم شہر کا نام ہے جو بہت ساری حکومتوں کا دارالحکومت اور علم و ثقافت اور فارسی زبان کا مرکز رہا ہے۔ آخری صدیوں میں یہ شہر امارتِ بخارا کا دارالحکومت تھا جس کی موجودہ وسطی ایشیا کے ایک بڑے حصے پر حکمرانی تھی۔ ۱۹۲۰ء میں اس امارت کے خاتمے اور بالشیوکوں کے قبضے کے بعد بخارا کی اہمیت بھی کم ہو گئی اور اب یہ ازبکستان کا حصہ ہے۔ پچھلی صدی کی دوسری دہائی میں یہاں پہلی بار فارسی میں اخبار نکلنا شروع ہوا تھا جس کا نام 'بخارائے شریف' تھا۔
وسطی ایشیا کا پہلا فارسی روزنامہ، روزنامۂ بخارائے شریف، سو سال قبل ۱۱ مارچ ۱۹۱۲ء کے دن میرزا جلال یوسف زادہ کی مدیریت میں آغاز ہوا تھا اور ۱۵۳ شماروں کے نشر کے بعد ۲ جنوری ۱۹۱۳ء کو روسی سیاسی نمائندے کے تقاضے پر اور امیرِ بخارا امیر عالم خان کے توافق کی بنا پر اس اخبار کی اشاعت بند کر دی گئی۔
روزنامے کے مؤسس میرزا محی الدین منصور اور میرزا سراج حکیم تھے۔ آذربائجان و قفقاز کے روزنامہ نگار میرزا جلال یوسف زادہ اور ایرانی روشن فکر میرزا غفار بالترتیب اس روزنامے کے مدیر اور مسئول تھے جبکہ صدرالدین عینی، میرزا سراج حکیم اور عبدالرؤوف فطرت اس روزنامے کے مشہور نویسندوں میں سے تھے۔
روزنامۂ بخارائے شریف کا یومِ تاسیس تاجکستانی پارلیمان کے توسط سے یومِ مطبوعاتِ تاجکستان کے طور پر تصویب ہو چکا ہے اور ہر سال منایا جاتا ہے۔
اخبار کی تاسیس کا پس منظر
امارتِ بخارا کی قلمرو میں تجددخواہی و اصلاحات کی تحریک بیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں روس، ایران، قفقاز، افغانستان، برِ صغیر اور عثمانی سلطنت کی فکری و سیاسی تحریکوں سے متاثر تھی۔ ان مذکورہ علاقوں سے اختر، قانون، حبل المتین، سراج الاخبار، چہرہ نما، وقت، شورا، ترجمان، ملا نصرالدین، اور صراطِ مستقیم جیسے اخبارات، موانع کے باوجود، بخارا کے اصلاح طلبوں کے ہاتھوں تک پہنچتے تھے اور ان اخباروں نے 'جوان بخارائیان' نامی تنظیم کی تشکیل اور بیداری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان حالات میں بخارائی دانشوروں نے فیصلہ کیا کہ بخارا کے لوگوں کو دنیا، منطقے اور ملک سے آگاہ کرنے کے لیے اور امارتِ بخارا میں اصلاحات کے اجرا کے لیے لوگوں میں اپنے نظریات اور افکار پھیلانے چاہییں۔ اسی لیے انہوں نے روزنامے کی تاسیس کا قدم اٹھایا۔ بخارائے شریف، بخارائیوں کی جانب سے زبانِ فارسی میں روزنامہ نگاری کا پہلا تجربہ تھا۔
روزنامہ اپنے پندرہویں شمارے میں لکھتا ہے: "امارتِ بخارا تیس لاکھ نفور پر مشتمل ہے۔ ابھی تک ترکستان و ماوراءالنہر کے باشندے اپنی ملی و اسلامی زبان میں کوئی روزنامہ نہیں رکھتے تھے۔ اب چند معارف پرور اور ترقی خواہ لوگوں کی کوشش سے بخارا کی رسمی زبان میں، کہ جو فارسی ہے، 'بخارائے شریف' نامی اس روزنامے کا آغاز ہوا ہے اور ترکستان و ماوراءالنہر کے نفوسِ اسلامیہ کے لیے یہی ایک روزنامہ ہے اور بس۔"
خصوصیات
اس روزنامے میں سیاسی مسائل سے زیادہ اجتماعی مسائل پر بحث ہوتی تھی اور ہر شمارہ ادارتی مقالے (ایڈیٹوریئل) کا حامل تھا۔ لیکن خبریں بھی ایک عنصرِ ضروری کے طور پر روزنامے میں اہم جگہ رکھتی تھیں۔ قارئین کے زیادہ تر انتقادی روح رکھنے والے خط بھی روزنامے کے صفحوں پر نشر ہوا کرتے تھے۔ روزنامہ چار صفحوں پر مشتمل تھا اور ہفتے میں چھ بار نشر ہوتا تھا اور عشق آباد، سمرقند اور استانبول وغیرہ میں اس کے خبرنگاروں کا جال تھا۔ روزنامے نے اجتماعی مسائل کے خلاف اعتراض کے بیان کے لیے اور معاشرے میں ان مسائل پر بحث کا آغاز کرنے کے لیے سوال و جواب کی طرز سے استفادہ کیا ہے۔
فارسی کی اہمیت اور کردار اور اسی طرح دستورِ زبانِ فارسی کی تعلیم کے بارے میں لکھی تحریریں بھی روزنامے کے صفحات پر خصوصی مقام رکھتی ہیں۔ روزنامے کی زبان بخارائی لہجے میں تھی، اور یہ قدیم فارسی اور ایران و افغانستان میں استعمال ہونے والی فارسی کا آمیزہ تھی۔ بخارائی لہجہ فارسی کے لہجوں میں سے ہے اور یہ کابل اور بلخ کے لہجوں سے بیشتر قرابت رکھتا ہے۔ روزنامے کی زبان رواں، سادہ اور معیاری ہے۔ بطورِ کُل، روزنامے نے دستورِ زبان اور علائم گذاری کا لحاظ رکھا ہے۔
اخبار کے اساسی محور
روزنامہ بخارائے شریف کے ادارتی مقالوں نے عام طور پر مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی ہے:
علوم کی تعمیم، معارف کی ترویج، مکاتب و مدارس کا افتتاح اور اصلاح، زراعتی امور کی بہبود، آبیاری، باغبانی، مویشی پروری اور اقتصادی ترقی، حکومت و رعایا کے حقوق و فرائض پر توجہ، امارتِ بخارا کی انتظامی اصلاح، جہالت اور ناپسندیدہ عادات کے خلاف مبارزہ، امورِ صحت کی بہبود، زبان و ادبِ فارسی کی پرورش، دین و مذہب، اور وحدتِ جہانِ اسلام۔
روزنامے کے لیے مرکزی مسئلہ، تعلیم و پرورش کا مسئلہ تھا۔ بخارا کے روشن فکروں نے ۱۹۱۰ء کے آخر میں 'تربیۂ اطفال' کے نام سے ایک مخفی جمعیت کا آغاز کیا تھا جس کا اساسی ہدف جدید علوم کی ترویج تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ مکتب و مدرسہ میں اصولِ جدیدہ اپنائے جائیں یعنی علومِ دینی کے علاوہ تاریخ، جغرافیا، حساب اور علومِ طبیعی بھی تدریس کیے جائیں۔ بخارا کے روشن فکروں کی اصولِ جدیدہ کی ترویج کی کوششیں اس بات کا موجب ہوئیں کہ اس تحریک کو 'جدیدہ' اور اس کے حامیوں کو 'جدیدیان' نام دیا گیا۔
زمین، پانی، اور زراعت بخارائیوں کی زندگی میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ بخارائے شریف نے دیہات میں رباخواری پر شدید لہجے میں تنقید کی ہے اور اسے زراعت و مویشی داری کی پیشرفت میں مانع جانا ہے۔ روزنامے نے دہقانوں اور تہی دستوں کی کمک کے لیے ایک دہقانی بینک کی بھی تجویز دی تھی۔
روزنامہ امیرِ بخارا کی آمرانہ حاکمیت کی نابودی کے بجائے نظام کی اصلاح کے لیے کوشاں تھا۔ اس لیے روزنامے میں امارت کی انتظامیہ کو اجرائے اصلاحات کی ترغیب دینے اور معاشرے کو قانون پسندی کی جانب لے کر جانے کی مسلسل کوشش کی گئی ہے۔ روزنامے نے بخارا کے امورِ تجارتی کے روسیوں، یہودیوں اور ارمنیوں کے ہاتھوں میں ہونے پر نارضایتی اور ناخوشی ظاہر کی ہے اور بخارائیوں کو امورِ تجارتی اور بیرونی زبان سیکھنے کی تشویق و ترغیب کی ہے اور ایک صاحبِ کار جدید بخارائی نسل کی پرورش کو اس میدان میں اپنا فریضہ جانا ہے۔
روزنامہ بخارائے شریف نے دولت اور ملت جیسے الفاظ کو کسی بھی وقت یورپی مفہوم میں استعمال نہیں کیا۔ بخارا کے باشندے، اپنی قومیت سے صرفِ نظر، خود کو بخارائی، ملتِ بخارا یا امتِ مسلمان پکارتے تھے اور کلمۂ ملت زیادہ تر غیر مسلمانوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔
زبانِ فارسی کی پاسداری
روزنامے نے زبانِ فارسی کی رشد و پاسداری اور صفحاتِ روزنامہ کے ذریعے دستورِ زبان کی تدریس پر بہت توجہ مبذول رکھی ہے۔ روزنامے نے 'مجملی در خصوصِ زبان' کے عنوان سے بہت سارے شماروں میں اس موضوع پر وسیع بحث کی ہے اور اس بات کی یاد آوری کی ہے کہ ہر قوم کی ترقی اس چیز سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے بات چیت کرنے کو تحریر و کتابت کے تابع کریں، نہ یہ کہ وہ اپنی تحریروں کو عوام الناس کی بول چال کے تابع کر دیں۔ روزنامے نے امید کا اظہار کیا ہے کہ اُس کی زبان بقدرِ امکان، سادہ اور مستعمل معیاری فارسی ہو گی۔
اس طرح زبان کی خامیوں پر تنقید کرتے ہوئے روزنامہ اُس کی اصلاح کے در پے ہے اور 'قواعدِ فارسیہ' کے نام سے ایک ستون (کالم) کا آغاز کیا گیا ہے جس میں تعلیمی طرز میں مختصراً اور مثالوں کے ساتھ دستورِ زبانِ فارسی کی تشریح کی گئی ہے۔
روزنامے کو مسئلۂ زبان سے مربوط بہت سارے خط بھی موصول ہوتے تھے۔ مثلاً ایک انتقادی خط میں لکھا ہے: "۔۔۔۔اخبارِ بخارائے شریف کے مقالات میں استعمال کیا جانے والا اسلوب حالیہ ایران کا اسلوب و شیوہ ہے جو سر سے پیر تک دشوار فہم عربی الفاظ میں ڈوبا ہوا ہے اور جس کا بس ایک تہائی حصہ ہی فارسی ہوتا ہے۔"
سخنِ آخریں
اخبار کے نویسندے زبانِ قلم اور سلاحِ دانش سے اس بات کے در پے تھے کہ اپنی ملت اور اپنے ملک کو نادانی، جمود اور پس ماندگی کی قید سے رہائی دلائیں اور جوانانِ بخارا کے چہروں پر جہانِ نو کی جانب ایک تازہ دریچہ کھولیں اور انہیں دنیا کے تمدن سے آشنا کریں اور یہاں وہاں سے نسخہ برداری کرنے کے بجائے، اپنے معاشرے کے دردوں کے علاج کی راہ تلاش کریں۔
بخارائے شریف کے یہی ۱۵۳ شمارے اُس وقت کی اجتماعی، سیاسی و ثقافتی صورتِ حال کی قیمتی دستاویز ہیں۔ اخبار میں پیش کیے جانے والے افکار کا مرکزی خیال بنیادی طور پر اصلاحات اور قانون پسندی کے محور پر استوار تھا اور اس اخبار نے مردمِ بخارا بالخصوص جوانوں کی ملی، سیاسی و ثقافتی بیداری، روحِ خودشناسی و استقلال خواہی کی تقویت، اور ملی و اسلامی تشخص کے احیا میں بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں۔
بخارا کے روشن فکروں اور تجدد خواہوں کو امیرِ بخارا کی حاکمیت کے دوران دوبارہ اس بات کا امکان نہیں مل سکا کہ وہ روزنامۂ بخارائے شریف کا احیا کر سکیں۔ بخارا میں سوویت حاکمیت کی تاسیس کے بعد، سات دہائیوں میں، بخارا میں دسیوں روزنامے اور مجلے فارسی زبان میں منتشر ہوئے لیکن بخارا کے اہلِ قلم و ثقافت کی روزنامہ بخارائے شریف کی احیا کے لیے کی گئی تمام کوششیں سیاسی وجوہات کی بنا پر شکست سے دوچار ہو گئیں۔
بخارائے شریف کی اشاعت بند ہوئے ایک صدی گذر گئی ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ روزنامے میں اٹھائے جانے والے خیالات، نظریات اور مسائل آج بھی اُسی طرح اہمیت کے حامل ہیں۔
اخبار کی چند تصاویر
(متن اور تصاویر کا ماخذ)
قیصرانی تلمیذ زبیر مرزا محمد وارث سید عاطف علی لئیق احمد محمود احمد غزنوی الف نظامی کاشفی سیدہ شگفتہ فلک شیر
وسطی ایشیا کا پہلا فارسی روزنامہ، روزنامۂ بخارائے شریف، سو سال قبل ۱۱ مارچ ۱۹۱۲ء کے دن میرزا جلال یوسف زادہ کی مدیریت میں آغاز ہوا تھا اور ۱۵۳ شماروں کے نشر کے بعد ۲ جنوری ۱۹۱۳ء کو روسی سیاسی نمائندے کے تقاضے پر اور امیرِ بخارا امیر عالم خان کے توافق کی بنا پر اس اخبار کی اشاعت بند کر دی گئی۔
روزنامے کے مؤسس میرزا محی الدین منصور اور میرزا سراج حکیم تھے۔ آذربائجان و قفقاز کے روزنامہ نگار میرزا جلال یوسف زادہ اور ایرانی روشن فکر میرزا غفار بالترتیب اس روزنامے کے مدیر اور مسئول تھے جبکہ صدرالدین عینی، میرزا سراج حکیم اور عبدالرؤوف فطرت اس روزنامے کے مشہور نویسندوں میں سے تھے۔
روزنامۂ بخارائے شریف کا یومِ تاسیس تاجکستانی پارلیمان کے توسط سے یومِ مطبوعاتِ تاجکستان کے طور پر تصویب ہو چکا ہے اور ہر سال منایا جاتا ہے۔
اخبار کی تاسیس کا پس منظر
امارتِ بخارا کی قلمرو میں تجددخواہی و اصلاحات کی تحریک بیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں روس، ایران، قفقاز، افغانستان، برِ صغیر اور عثمانی سلطنت کی فکری و سیاسی تحریکوں سے متاثر تھی۔ ان مذکورہ علاقوں سے اختر، قانون، حبل المتین، سراج الاخبار، چہرہ نما، وقت، شورا، ترجمان، ملا نصرالدین، اور صراطِ مستقیم جیسے اخبارات، موانع کے باوجود، بخارا کے اصلاح طلبوں کے ہاتھوں تک پہنچتے تھے اور ان اخباروں نے 'جوان بخارائیان' نامی تنظیم کی تشکیل اور بیداری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان حالات میں بخارائی دانشوروں نے فیصلہ کیا کہ بخارا کے لوگوں کو دنیا، منطقے اور ملک سے آگاہ کرنے کے لیے اور امارتِ بخارا میں اصلاحات کے اجرا کے لیے لوگوں میں اپنے نظریات اور افکار پھیلانے چاہییں۔ اسی لیے انہوں نے روزنامے کی تاسیس کا قدم اٹھایا۔ بخارائے شریف، بخارائیوں کی جانب سے زبانِ فارسی میں روزنامہ نگاری کا پہلا تجربہ تھا۔
روزنامہ اپنے پندرہویں شمارے میں لکھتا ہے: "امارتِ بخارا تیس لاکھ نفور پر مشتمل ہے۔ ابھی تک ترکستان و ماوراءالنہر کے باشندے اپنی ملی و اسلامی زبان میں کوئی روزنامہ نہیں رکھتے تھے۔ اب چند معارف پرور اور ترقی خواہ لوگوں کی کوشش سے بخارا کی رسمی زبان میں، کہ جو فارسی ہے، 'بخارائے شریف' نامی اس روزنامے کا آغاز ہوا ہے اور ترکستان و ماوراءالنہر کے نفوسِ اسلامیہ کے لیے یہی ایک روزنامہ ہے اور بس۔"
خصوصیات
اس روزنامے میں سیاسی مسائل سے زیادہ اجتماعی مسائل پر بحث ہوتی تھی اور ہر شمارہ ادارتی مقالے (ایڈیٹوریئل) کا حامل تھا۔ لیکن خبریں بھی ایک عنصرِ ضروری کے طور پر روزنامے میں اہم جگہ رکھتی تھیں۔ قارئین کے زیادہ تر انتقادی روح رکھنے والے خط بھی روزنامے کے صفحوں پر نشر ہوا کرتے تھے۔ روزنامہ چار صفحوں پر مشتمل تھا اور ہفتے میں چھ بار نشر ہوتا تھا اور عشق آباد، سمرقند اور استانبول وغیرہ میں اس کے خبرنگاروں کا جال تھا۔ روزنامے نے اجتماعی مسائل کے خلاف اعتراض کے بیان کے لیے اور معاشرے میں ان مسائل پر بحث کا آغاز کرنے کے لیے سوال و جواب کی طرز سے استفادہ کیا ہے۔
فارسی کی اہمیت اور کردار اور اسی طرح دستورِ زبانِ فارسی کی تعلیم کے بارے میں لکھی تحریریں بھی روزنامے کے صفحات پر خصوصی مقام رکھتی ہیں۔ روزنامے کی زبان بخارائی لہجے میں تھی، اور یہ قدیم فارسی اور ایران و افغانستان میں استعمال ہونے والی فارسی کا آمیزہ تھی۔ بخارائی لہجہ فارسی کے لہجوں میں سے ہے اور یہ کابل اور بلخ کے لہجوں سے بیشتر قرابت رکھتا ہے۔ روزنامے کی زبان رواں، سادہ اور معیاری ہے۔ بطورِ کُل، روزنامے نے دستورِ زبان اور علائم گذاری کا لحاظ رکھا ہے۔
اخبار کے اساسی محور
روزنامہ بخارائے شریف کے ادارتی مقالوں نے عام طور پر مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی ہے:
علوم کی تعمیم، معارف کی ترویج، مکاتب و مدارس کا افتتاح اور اصلاح، زراعتی امور کی بہبود، آبیاری، باغبانی، مویشی پروری اور اقتصادی ترقی، حکومت و رعایا کے حقوق و فرائض پر توجہ، امارتِ بخارا کی انتظامی اصلاح، جہالت اور ناپسندیدہ عادات کے خلاف مبارزہ، امورِ صحت کی بہبود، زبان و ادبِ فارسی کی پرورش، دین و مذہب، اور وحدتِ جہانِ اسلام۔
روزنامے کے لیے مرکزی مسئلہ، تعلیم و پرورش کا مسئلہ تھا۔ بخارا کے روشن فکروں نے ۱۹۱۰ء کے آخر میں 'تربیۂ اطفال' کے نام سے ایک مخفی جمعیت کا آغاز کیا تھا جس کا اساسی ہدف جدید علوم کی ترویج تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ مکتب و مدرسہ میں اصولِ جدیدہ اپنائے جائیں یعنی علومِ دینی کے علاوہ تاریخ، جغرافیا، حساب اور علومِ طبیعی بھی تدریس کیے جائیں۔ بخارا کے روشن فکروں کی اصولِ جدیدہ کی ترویج کی کوششیں اس بات کا موجب ہوئیں کہ اس تحریک کو 'جدیدہ' اور اس کے حامیوں کو 'جدیدیان' نام دیا گیا۔
زمین، پانی، اور زراعت بخارائیوں کی زندگی میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ بخارائے شریف نے دیہات میں رباخواری پر شدید لہجے میں تنقید کی ہے اور اسے زراعت و مویشی داری کی پیشرفت میں مانع جانا ہے۔ روزنامے نے دہقانوں اور تہی دستوں کی کمک کے لیے ایک دہقانی بینک کی بھی تجویز دی تھی۔
روزنامہ امیرِ بخارا کی آمرانہ حاکمیت کی نابودی کے بجائے نظام کی اصلاح کے لیے کوشاں تھا۔ اس لیے روزنامے میں امارت کی انتظامیہ کو اجرائے اصلاحات کی ترغیب دینے اور معاشرے کو قانون پسندی کی جانب لے کر جانے کی مسلسل کوشش کی گئی ہے۔ روزنامے نے بخارا کے امورِ تجارتی کے روسیوں، یہودیوں اور ارمنیوں کے ہاتھوں میں ہونے پر نارضایتی اور ناخوشی ظاہر کی ہے اور بخارائیوں کو امورِ تجارتی اور بیرونی زبان سیکھنے کی تشویق و ترغیب کی ہے اور ایک صاحبِ کار جدید بخارائی نسل کی پرورش کو اس میدان میں اپنا فریضہ جانا ہے۔
روزنامہ بخارائے شریف نے دولت اور ملت جیسے الفاظ کو کسی بھی وقت یورپی مفہوم میں استعمال نہیں کیا۔ بخارا کے باشندے، اپنی قومیت سے صرفِ نظر، خود کو بخارائی، ملتِ بخارا یا امتِ مسلمان پکارتے تھے اور کلمۂ ملت زیادہ تر غیر مسلمانوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔
زبانِ فارسی کی پاسداری
روزنامے نے زبانِ فارسی کی رشد و پاسداری اور صفحاتِ روزنامہ کے ذریعے دستورِ زبان کی تدریس پر بہت توجہ مبذول رکھی ہے۔ روزنامے نے 'مجملی در خصوصِ زبان' کے عنوان سے بہت سارے شماروں میں اس موضوع پر وسیع بحث کی ہے اور اس بات کی یاد آوری کی ہے کہ ہر قوم کی ترقی اس چیز سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے بات چیت کرنے کو تحریر و کتابت کے تابع کریں، نہ یہ کہ وہ اپنی تحریروں کو عوام الناس کی بول چال کے تابع کر دیں۔ روزنامے نے امید کا اظہار کیا ہے کہ اُس کی زبان بقدرِ امکان، سادہ اور مستعمل معیاری فارسی ہو گی۔
اس طرح زبان کی خامیوں پر تنقید کرتے ہوئے روزنامہ اُس کی اصلاح کے در پے ہے اور 'قواعدِ فارسیہ' کے نام سے ایک ستون (کالم) کا آغاز کیا گیا ہے جس میں تعلیمی طرز میں مختصراً اور مثالوں کے ساتھ دستورِ زبانِ فارسی کی تشریح کی گئی ہے۔
روزنامے کو مسئلۂ زبان سے مربوط بہت سارے خط بھی موصول ہوتے تھے۔ مثلاً ایک انتقادی خط میں لکھا ہے: "۔۔۔۔اخبارِ بخارائے شریف کے مقالات میں استعمال کیا جانے والا اسلوب حالیہ ایران کا اسلوب و شیوہ ہے جو سر سے پیر تک دشوار فہم عربی الفاظ میں ڈوبا ہوا ہے اور جس کا بس ایک تہائی حصہ ہی فارسی ہوتا ہے۔"
سخنِ آخریں
اخبار کے نویسندے زبانِ قلم اور سلاحِ دانش سے اس بات کے در پے تھے کہ اپنی ملت اور اپنے ملک کو نادانی، جمود اور پس ماندگی کی قید سے رہائی دلائیں اور جوانانِ بخارا کے چہروں پر جہانِ نو کی جانب ایک تازہ دریچہ کھولیں اور انہیں دنیا کے تمدن سے آشنا کریں اور یہاں وہاں سے نسخہ برداری کرنے کے بجائے، اپنے معاشرے کے دردوں کے علاج کی راہ تلاش کریں۔
بخارائے شریف کے یہی ۱۵۳ شمارے اُس وقت کی اجتماعی، سیاسی و ثقافتی صورتِ حال کی قیمتی دستاویز ہیں۔ اخبار میں پیش کیے جانے والے افکار کا مرکزی خیال بنیادی طور پر اصلاحات اور قانون پسندی کے محور پر استوار تھا اور اس اخبار نے مردمِ بخارا بالخصوص جوانوں کی ملی، سیاسی و ثقافتی بیداری، روحِ خودشناسی و استقلال خواہی کی تقویت، اور ملی و اسلامی تشخص کے احیا میں بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں۔
بخارا کے روشن فکروں اور تجدد خواہوں کو امیرِ بخارا کی حاکمیت کے دوران دوبارہ اس بات کا امکان نہیں مل سکا کہ وہ روزنامۂ بخارائے شریف کا احیا کر سکیں۔ بخارا میں سوویت حاکمیت کی تاسیس کے بعد، سات دہائیوں میں، بخارا میں دسیوں روزنامے اور مجلے فارسی زبان میں منتشر ہوئے لیکن بخارا کے اہلِ قلم و ثقافت کی روزنامہ بخارائے شریف کی احیا کے لیے کی گئی تمام کوششیں سیاسی وجوہات کی بنا پر شکست سے دوچار ہو گئیں۔
بخارائے شریف کی اشاعت بند ہوئے ایک صدی گذر گئی ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ روزنامے میں اٹھائے جانے والے خیالات، نظریات اور مسائل آج بھی اُسی طرح اہمیت کے حامل ہیں۔
اخبار کی چند تصاویر
(متن اور تصاویر کا ماخذ)
قیصرانی تلمیذ زبیر مرزا محمد وارث سید عاطف علی لئیق احمد محمود احمد غزنوی الف نظامی کاشفی سیدہ شگفتہ فلک شیر
آخری تدوین: