عبداللہ حیدر
محفلین
سیاق و سباق سے ہٹا کر ایک بہترین بات کو بھی بری بات میں بدلا جا سکتا ہے۔ عورت، گھوڑے اور مکان کے "شیطانی" نہیں منحوس ہونے کے بارے میں آپ نے جو حدیث بیان کی ہے اس کے اصل الفاظ یہ ہیں:
[ARABIC]عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (إن كان في شيء: ففي المرأة، والفرس والمسكن).[/ARABIC]
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
"اگر( نحوست) کسی چیز میں ہوتی تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتی"
انگریزی میں اس کا ترجمہ یہ ہے:
Narrated Sahl bin Sad Saidi:
Allah's Apostle said "If there is any evil omen in anything, then it is in the woman, the horse and the house."
اس حدیث میں نحوست کے نہ ہونے کا بیان ہے جیسا کہ لفظ "اگر" سے ظاہر ہے۔ حدیث اپنے مطلب میں بالکل صاف ہے۔
پنجابی میں ایک مثال مشہور ہے کہ ساس اپنی بہو پر اعتراض کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئی تو تنگ آ کر کہنے لگی "تو آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے؟"۔ میرا مقصد کسی پر ذاتیحملہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ ایک بہترین قول یا عمل کی بری سے بری تاویل کی جا سکتی ہے اگر سوچنے کی بنیاد ہی غلط ہو۔ اس کی چند مثالیں میں احترام کے ساتھ فاروق صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ کتاب النکاح کی حدیث پر آپ کو اعتراض ہے کہ اس میں عورتوں کو فتنہ قرار دیا گیا ہے جو قرآن کےخلاف ہے۔
[ARABIC]عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما تركت بعدي فتنة أضر على الرجال من النساء)[/ARABIC]
"اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
"میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ (آزمائش) نہیں چھوڑی"
عربی زبان میں فتنہ آزمائش اور ابتلاء کو کہتے ہیں۔ اس حدیث میں بیان کی گئی حقیقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کی شکل میں جو آزمائش ہے وہ واقعی سب سے بڑی آزمائشوں میں سے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عورت کن کن شکلوں میں مردوں کے لیے ذریعہ آزمائش بنتی ہے اس لیے میں اس کی تفصیل میں نہیںجانا چاہتا۔ اس طرح کے مطلب لے کر اگر میں اور آپ "جج" بن کر فیصلے کرنے لگیں تو اس کی زد میں حدیث ہی نہیں آئے گی بلکہ کل کلاں کوئی متجدد اٹھ کر دعویٰ کر دے گا کہ قرآن میں وہ آیات موجود ہیں جن میں عورت کو فتنہ کہا گیا ہے اس لیے انہیں قرآن سے نکالا جائے۔ بعض احباب کو شاید حیرانی ہو کہ ہمارے محترم دوست کی نظر صحیح بخاری کی اس روایت پر تو پڑ گئی لیکن اپنے ہی اصول کے تحت اس حدیث کو" قرآن کی روشنی" میں نہیں پرکھ سکے۔ قرآن کریم میں اس موضوع پر "فتنے" سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ سورۃ التغابن آیت 14 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ[/ARABIC]
"اے اہل ایمان! بے شک، تمہاری بیویوں اور اولادوں میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس ان سے بچ کر رہو"
اس سے اگلی آیت میں فرمایا:
[ARABIC]إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ [/ARABIC] (سورۃ التغابن آیت 13 پارہ 28 )
"بے شک تمہاری اولاد اور تمہارے اموال فتنہ ہیں"
سورۃ یوسف آیت 28 میں اللہ تعالیٰنے عزیز مصر کا ایک قول نقل کیا ہے اور اس کی تردید نہیں فرمائی۔ فرمایا:
[ARABIC] إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ[/ARABIC] (سورۃ یوسف آیت 28 پارہ 12)
"یہ تم عورتوں کے چلتر ہیں۔ واقعی تم عوتوں کے چلتر بڑے (خطرناک) ہوتے ہیں" (ترجمہ عبدالرحمٰن کیلانی)
دوسرے مترجمین کا ترجمہ دیکھیے جو فاروق صاحب نے اپنی ویب سائٹ میں شامل کر رکھے ہیں:
"بیشک یہ تم عورتوں کا فریب ہے۔ یقیناً تم عورتوں کا فریب بڑا (خطرناک) ہوتا ہے" (قادری)
"شک یہ تم عورتوں کا ایک فریب ہے بے شک تمہارا فریب بڑا ہوتا ہے" (احمد علی)
"بیشک یہ تم عورتوں کا چرتر (فریب) ہے بیشک تمہارا چرتر (فریب) بڑا ہے" (احمد رضا)
"یقیناً یہ تم عورتوں کی چالبازیاں ہیں۔ بے شک تمہاری چالیں غضب کی ہوتی ہیں۔" (شبیر احمد)
عورت کو ٹیڑھا قرار دینے والی روایت کا اپنا ایک محل ہے اور وہ بات ایک خاص پس منظر میں کہی گئی ہے میں اس کی تفصیل میں جاؤں تو شاید بحث کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ اس لیے فقط اتنا عرض کروں گا کہ سوچ کو ٹیڑھا نہ ہونے دیجیے۔ اگر یہ ٹیڑھی ہو جائے تو اچھی بھلی چیزیں بھی درست نہیں لگتیں۔ قرآن کی مندرجہ بالا آیت ہی کو لے لیجیے۔ کوئی اسلام دشمن یہ کہنا شروع کر دے کہ قرآن میں عورتوں کو چالباز کہا گیا ہے اور بیویوں کو قرآن میں مردوں کی دشمن کہا گیا ہے توکیا اس میں والدہ بھی شامل ہو گی جو اصل میں ہمارے والد کی بیوی ہی ہے؟ آپ کا ردعمل کیا ہو گا۔آیت کا درست مفہوم اور سیاق و سباق پیش کرنا نہ کہ اسے قرآن سے نکالنے اور اسے مشکوک ٹھہرانے کی مہم چلانا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں اپنے خاص مفہوم اور خاص سیاق و سباق میں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔
کسی کو حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آئے یا اس میں کچھ اشکال ہو تو کسی ماہر فن سے دریافت کر لینے میں کیا حرج ہے۔(ماہر فن سے مراد محدثین ہیں نا میں اور آپ)۔ ایک سادہ سی مثال لے لیں۔ آپ کا کمپیوٹر خراب ہو جائے تو آپ کسی انجینئر سے رجوع کریں گے اور اس کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ "میں خود جج بن کر دیکھوں گا کہ تم کیا کرتے ہو"۔ لیکن افسوس کہ سب سے اہم معاملے یعنی دین کے بارے میں یہ سادہ سی بات ہمیں سمجھ نہیں آتی۔
اونٹ کے پیشاب والی آیت پر بھی ہمارے فاضل دوست کوئی ایسی آیت پیش نہیں کر سکتے جو اسے حرام ٹھہراتی ہو۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بہت سے چیزیں ہیں جو قرآن میں حرام قرار نہیں دی گئیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں حرام قرار دیا جس کا حکم صحیح احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ اور کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے استعمال کرنے کی اجازت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دی اور ان کا حکم بھی صحیح احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حکم ثابت ہو جائے تو اسے خود جج بن کر ریجیکٹ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[ARABIC]وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا[/ARABIC] (الاحزاب آیت نمبر 36 پارہ 22)
"کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اسے کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔"
اس روایت کو آپ قرآن پر پرکھیے۔ کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی جس میں مذکور ہو کہ بیماری کے وقت اونٹ کا پیشاب استعمال کرنا حرام ہے۔ فاروق صاحب سے گزارش ہے کہ اس حدیث کو سورۃ انعام کی آیت 145 کی روشنی میں پرکھ کر بتائیں کہ کیا واقعی یہ قرآن کے خلاف ہے؟
مختلف پبلشرز نے کتب احادیث کی نمبرنگ مختلف طریقے سے کی ہے۔ کسی نے ابواب کے شروع میں مذکور آیات کو الگ نمبر دیا ہے کسی نے ابواب کی ہیڈنگ کو بھی نمبرنگ میں شامل کر دیا ہے۔ کسی نے ہر سند کو الگ نمبر دیا ہے اور کسی نے ایک متن کو ایک ہی نمبر کے تحت جمع کیا ہے خواہ وہ زیادہ اسناد سے بیان کیا گیا ہو۔ اسی لیے مختلف پبلشرز کی شائع کردہ کتب احادیثمیں نمبرنگ کا فرق ہوسکتا ہے۔ آجکل حوالے کے لیے عالمی ترقیمی نظام مستعمل ہے۔ بہرحال یہ ایک ثانوی بحث ہے۔ میرا اصل نکتہ یہ ہے کہ جن بنیادون پر حدیث کے خلاف شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں کل کلاں وہی باتیں کہہ کر قرآن کے خلاف بھی کسی مہم کا آغاز ہو سکتا ہے۔
[ARABIC]عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (إن كان في شيء: ففي المرأة، والفرس والمسكن).[/ARABIC]
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
"اگر( نحوست) کسی چیز میں ہوتی تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتی"
انگریزی میں اس کا ترجمہ یہ ہے:
Narrated Sahl bin Sad Saidi:
Allah's Apostle said "If there is any evil omen in anything, then it is in the woman, the horse and the house."
اس حدیث میں نحوست کے نہ ہونے کا بیان ہے جیسا کہ لفظ "اگر" سے ظاہر ہے۔ حدیث اپنے مطلب میں بالکل صاف ہے۔
پنجابی میں ایک مثال مشہور ہے کہ ساس اپنی بہو پر اعتراض کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئی تو تنگ آ کر کہنے لگی "تو آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے؟"۔ میرا مقصد کسی پر ذاتیحملہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ ایک بہترین قول یا عمل کی بری سے بری تاویل کی جا سکتی ہے اگر سوچنے کی بنیاد ہی غلط ہو۔ اس کی چند مثالیں میں احترام کے ساتھ فاروق صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ کتاب النکاح کی حدیث پر آپ کو اعتراض ہے کہ اس میں عورتوں کو فتنہ قرار دیا گیا ہے جو قرآن کےخلاف ہے۔
اس حدیث کا عربی متن یہ ہے:۔ عورت کو شیطانی یا فتنہ قرار دینا
کتاب الجہاد، ، جلد 4، کتاب 52، روایت 111
کتاب النکاح ، جلد7 ، کتاب 62، روایت 30
[ARABIC]عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما تركت بعدي فتنة أضر على الرجال من النساء)[/ARABIC]
"اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
"میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ (آزمائش) نہیں چھوڑی"
عربی زبان میں فتنہ آزمائش اور ابتلاء کو کہتے ہیں۔ اس حدیث میں بیان کی گئی حقیقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کی شکل میں جو آزمائش ہے وہ واقعی سب سے بڑی آزمائشوں میں سے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عورت کن کن شکلوں میں مردوں کے لیے ذریعہ آزمائش بنتی ہے اس لیے میں اس کی تفصیل میں نہیںجانا چاہتا۔ اس طرح کے مطلب لے کر اگر میں اور آپ "جج" بن کر فیصلے کرنے لگیں تو اس کی زد میں حدیث ہی نہیں آئے گی بلکہ کل کلاں کوئی متجدد اٹھ کر دعویٰ کر دے گا کہ قرآن میں وہ آیات موجود ہیں جن میں عورت کو فتنہ کہا گیا ہے اس لیے انہیں قرآن سے نکالا جائے۔ بعض احباب کو شاید حیرانی ہو کہ ہمارے محترم دوست کی نظر صحیح بخاری کی اس روایت پر تو پڑ گئی لیکن اپنے ہی اصول کے تحت اس حدیث کو" قرآن کی روشنی" میں نہیں پرکھ سکے۔ قرآن کریم میں اس موضوع پر "فتنے" سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ سورۃ التغابن آیت 14 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ[/ARABIC]
"اے اہل ایمان! بے شک، تمہاری بیویوں اور اولادوں میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس ان سے بچ کر رہو"
اس سے اگلی آیت میں فرمایا:
[ARABIC]إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ [/ARABIC] (سورۃ التغابن آیت 13 پارہ 28 )
"بے شک تمہاری اولاد اور تمہارے اموال فتنہ ہیں"
سورۃ یوسف آیت 28 میں اللہ تعالیٰنے عزیز مصر کا ایک قول نقل کیا ہے اور اس کی تردید نہیں فرمائی۔ فرمایا:
[ARABIC] إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ[/ARABIC] (سورۃ یوسف آیت 28 پارہ 12)
"یہ تم عورتوں کے چلتر ہیں۔ واقعی تم عوتوں کے چلتر بڑے (خطرناک) ہوتے ہیں" (ترجمہ عبدالرحمٰن کیلانی)
دوسرے مترجمین کا ترجمہ دیکھیے جو فاروق صاحب نے اپنی ویب سائٹ میں شامل کر رکھے ہیں:
"بیشک یہ تم عورتوں کا فریب ہے۔ یقیناً تم عورتوں کا فریب بڑا (خطرناک) ہوتا ہے" (قادری)
"شک یہ تم عورتوں کا ایک فریب ہے بے شک تمہارا فریب بڑا ہوتا ہے" (احمد علی)
"بیشک یہ تم عورتوں کا چرتر (فریب) ہے بیشک تمہارا چرتر (فریب) بڑا ہے" (احمد رضا)
"یقیناً یہ تم عورتوں کی چالبازیاں ہیں۔ بے شک تمہاری چالیں غضب کی ہوتی ہیں۔" (شبیر احمد)
عورت کو ٹیڑھا قرار دینے والی روایت کا اپنا ایک محل ہے اور وہ بات ایک خاص پس منظر میں کہی گئی ہے میں اس کی تفصیل میں جاؤں تو شاید بحث کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ اس لیے فقط اتنا عرض کروں گا کہ سوچ کو ٹیڑھا نہ ہونے دیجیے۔ اگر یہ ٹیڑھی ہو جائے تو اچھی بھلی چیزیں بھی درست نہیں لگتیں۔ قرآن کی مندرجہ بالا آیت ہی کو لے لیجیے۔ کوئی اسلام دشمن یہ کہنا شروع کر دے کہ قرآن میں عورتوں کو چالباز کہا گیا ہے اور بیویوں کو قرآن میں مردوں کی دشمن کہا گیا ہے توکیا اس میں والدہ بھی شامل ہو گی جو اصل میں ہمارے والد کی بیوی ہی ہے؟ آپ کا ردعمل کیا ہو گا۔آیت کا درست مفہوم اور سیاق و سباق پیش کرنا نہ کہ اسے قرآن سے نکالنے اور اسے مشکوک ٹھہرانے کی مہم چلانا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں اپنے خاص مفہوم اور خاص سیاق و سباق میں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔
کسی کو حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آئے یا اس میں کچھ اشکال ہو تو کسی ماہر فن سے دریافت کر لینے میں کیا حرج ہے۔(ماہر فن سے مراد محدثین ہیں نا میں اور آپ)۔ ایک سادہ سی مثال لے لیں۔ آپ کا کمپیوٹر خراب ہو جائے تو آپ کسی انجینئر سے رجوع کریں گے اور اس کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ "میں خود جج بن کر دیکھوں گا کہ تم کیا کرتے ہو"۔ لیکن افسوس کہ سب سے اہم معاملے یعنی دین کے بارے میں یہ سادہ سی بات ہمیں سمجھ نہیں آتی۔
اونٹ کے پیشاب والی آیت پر بھی ہمارے فاضل دوست کوئی ایسی آیت پیش نہیں کر سکتے جو اسے حرام ٹھہراتی ہو۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بہت سے چیزیں ہیں جو قرآن میں حرام قرار نہیں دی گئیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں حرام قرار دیا جس کا حکم صحیح احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ اور کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے استعمال کرنے کی اجازت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دی اور ان کا حکم بھی صحیح احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حکم ثابت ہو جائے تو اسے خود جج بن کر ریجیکٹ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[ARABIC]وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا[/ARABIC] (الاحزاب آیت نمبر 36 پارہ 22)
"کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اسے کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔"
اس روایت کو آپ قرآن پر پرکھیے۔ کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی جس میں مذکور ہو کہ بیماری کے وقت اونٹ کا پیشاب استعمال کرنا حرام ہے۔ فاروق صاحب سے گزارش ہے کہ اس حدیث کو سورۃ انعام کی آیت 145 کی روشنی میں پرکھ کر بتائیں کہ کیا واقعی یہ قرآن کے خلاف ہے؟
مختلف پبلشرز نے کتب احادیث کی نمبرنگ مختلف طریقے سے کی ہے۔ کسی نے ابواب کے شروع میں مذکور آیات کو الگ نمبر دیا ہے کسی نے ابواب کی ہیڈنگ کو بھی نمبرنگ میں شامل کر دیا ہے۔ کسی نے ہر سند کو الگ نمبر دیا ہے اور کسی نے ایک متن کو ایک ہی نمبر کے تحت جمع کیا ہے خواہ وہ زیادہ اسناد سے بیان کیا گیا ہو۔ اسی لیے مختلف پبلشرز کی شائع کردہ کتب احادیثمیں نمبرنگ کا فرق ہوسکتا ہے۔ آجکل حوالے کے لیے عالمی ترقیمی نظام مستعمل ہے۔ بہرحال یہ ایک ثانوی بحث ہے۔ میرا اصل نکتہ یہ ہے کہ جن بنیادون پر حدیث کے خلاف شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں کل کلاں وہی باتیں کہہ کر قرآن کے خلاف بھی کسی مہم کا آغاز ہو سکتا ہے۔