Ali Sultan
محفلین
بخشو سب کا، بخشو کا کوئی نہیں
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
اس کیریکٹر کا سرپرست پورا محلہ ہوتا ہے۔ کسی کا سودا سلف لا دیا، کسی کے پاؤں دبا دیے، گاڑی دھو دی، فرش کی صفائی کر دی، کسی کے بچے کو کھلا پلا دیا، گود میں لے کرگھما دیا، محلے کے چکر کاٹنے والے کسی مشکوک آدمی کو پکڑ لیا، کبھی سبزی والے کے پاس کھڑا ہوگیا تو کبھی نائی کے پاس بیٹھ گیا۔ سگریٹ چائے پان لا دیا اور پھر حیرت سے منہ کھول کر کچھ لوگوں کی باتیں سننے لگا۔ کبھی سمجھ کر تو کبھی ناسمجھی میں سر ہلا دیا یا مسکرا دیا۔
اس کیریکٹر کا ماں باپ نے یقیناً کبھی کوئی نام رکھا ہوگا لیکن اہلِ محلہ کو اس کا اصل نام جاننے یا پکارنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کا خود بخود کوئی ’جنیرک‘ سا نام پڑ جاتا ہے اور پھر یہی شناخت بن کر چپک جاتا ہے۔ کہیں بخشو، کہیں بھولا، کہیں چھوکرا تو کہیں جیدا غرض کوئی بھی نام دے دیا جاتا ہے۔
کوئی کھانا کھلا دیتا ہے۔ کوئی عید تہوار شادی غمی پر ایک آدھ نیا یا پرانا جوڑا جوتا دے دیتا ہے۔ کسی موالی نے کبھی چرس پلا دی تو کسی نے جوئے کی نال تھما دی۔ کسی کام کسی بات سے انکار نہیں۔ سب کی آنکھوں کا تارا یہ بخشو ، بھولا ، چھوکرا، جیدا۔
جب یہ بخشو ، بھولا ، چھوکرا یا جیدا جوان ہو جاتا ہے تو پھر اسے گھروں کے اندر کا کام دینے کے بجائے بیرونی کام دیے جاتے ہیں اور پھر وہ محلے علاقے کے کسی متمول و بااثر سیاسی و سماجی شخصیت کی اوطاق ، بیٹھک ، حجرے یا چوپال کا حصہ بن جاتا ہے۔
صاحب نے کہا تو کام کر دیا ورنہ پیر ہلاتا رہا اور پھر اس کے بالوں میں سفیدی اترنے لگتی ہے اور نئی نسل اسے ایک نسبتاً عزت دار نام دے دیتی ہے بخشو چاچا، حاجی جیدا، بھولا سائیں وغیرہ۔
اور ایک دن وہ مرجاتا ہے یا کہیں غائب ہوجاتا ہے۔ کچھ دنوں تذکرہ رہتا ہے اور پھر محلہ اس جیسے کسی اور کو بخشو، بھولا، چھوکرا، جیدا، چاچا، حاجی اور سائیں کا تاج پہنا دیتا ہے۔
مجھے اپنا یہ ملک بھی بخشو لگنے لگا ہے جو سب کے کام آوے ہے، بھلے دوسرے اس کے کام آویں نا آویں۔
یار بخشو کوریا میں لڑائی ہو رہی ہے اپنے کچھ فوجی لے آ۔ اچھا صاب۔۔۔
بخشو ذرا روس کی جاسوسی کرنی ہے ایک ہوائی اڈہ تو دے۔۔۔کوئی سا بھی لے لو صاب۔۔۔۔
اوئے بخشو یہ چٹھی لے اور بھاگ کے چین والوں کو دے آ۔۔۔ابھی گیا صاب۔۔۔ابے صرف چٹھی دے آیا جواب تیرا باپ لائے گا۔۔۔ابھی پھر سے جاتا ہوں صاب۔۔۔
بخشو فلسطینیوں کی پھینٹی لگانی ہے، ذرا کچھ دوچار تگڑے لوگ تو اردن بھیج۔ ابھی بھیجتا ہوں صاب۔
ابے بخشو دبئی میں جلدی سے کچھ مزدور تو بھجوا۔ کچھ سڑکیں، عمارتیں، ایئرپورٹ اور محلات بنوانے ہیں۔۔۔ جی صاب ابھی پکڑ کے لایا۔۔۔اور یہ لے اپنا خرچہ پانی۔۔۔ مہربانی صاب۔۔۔۔
بخشو بھائی ذرا دو ڈویژن تو دمام روانہ کردے۔ سارا کرایہ تنخواہ میرے ذمے اور یہ پکڑ ایڈوانس۔۔۔اس کی کیا ضرورت تھی صاب، بخشو تو آپ کا ہمیشہ سے خادم ہے۔۔۔او رکھ لے نا، اور ضرورت ہو تو مانگ لینا۔۔ اب بھاگ کے دو ڈویژن لے آ، شاباش میرا بچہ ۔۔۔
میاں بخشو یہ پکڑ بندوق اور افغانستان کو مار کے آ ۔۔۔مگر صاب ۔۔۔۔ابے جا نا ۔۔۔یہ لے پیسے ۔ راستے میں ضرورت پڑے گی۔ اب منہ کیا دیکھ رہا ہے۔ ضمانت کی فکر نہ کر میں کروا دوں گا۔۔۔ٹھیک ہے صاب آپ کے لیے جاتا ہوں۔۔۔۔
بخشو ذرا دھیان سے سن۔ میں ڈرون اٹیک کرنے والا ہوں مگر سامنے نہیں آؤں گا تجھے آگے کردوں گا، تو اقبال کر لینا۔ کیا سمجھا؟ جی سمجھ گیا۔۔۔
لے یہ چابی اور وہ جو میرا منشی ہے نا بالا۔ اس کی موٹرسائیکل اپنے پاس رکھ لے۔ بالے کو نئی دلوا دوں گا۔۔مگر صاب مجھے تو موٹر سائیکل چلانی ہی نہیں آتی۔۔۔ او بھائی میں سکھانے کے لیے بالے کی ڈیوٹی لگا دوں گا۔۔۔ جا پیارے فٹافٹ۔۔اور بھولنا نہیں وہ اٹیک والی بات۔۔۔ بالکل صاب آپ بے فکر ہوجائیں۔۔۔
اہلاً و سہلاً بخشو حاجی! تم تو ہمیں بھول ہی گئے برادر ۔۔۔کیوں شرمندہ کرتے ہو صاب، آپ کو خود آنے کی کیا ضرورت تھی، حکم کرتے بخشو سر کے بل حاضر ہو جاتا۔۔۔ بس حاجی ایک تو بہت دن سے تم سے ملے بھی نہیں تھے، دوسرے تمہیں ذرا ایک تکلیف دینی تھی، کچھ لڑکے شام بھجوانے کے لیے ٹرین کرنے ہیں، سب نے کہا اپنے حاجی بخشو سے بہتر کون ٹریننگ دے گا۔۔۔۔بے فکر ہو جاؤ صاب۔۔۔ سمجھ لو ٹرین ہو گئے۔۔۔ اور ہاں وہ بحرین والے کہہ رہے تھے کہ آپ ہماری طرف سے بخشو حاجی کا شکریہ ادا کر دینا جس کے بندوں نے بحرین کے شرپسندوں کی طبیعت صاف کر کے رکھ دی۔۔۔ بس صاب بخشو کو آپ جیسوں کی دعا کے سوا اور کیا چاہیے۔۔۔
مگر صاب، میرا بھی ایک کام بہت دن سے پھنسا ہوا ہے۔ کسی طرح دہشت گردی سے بخشو غریب کی جان تو چھڑوا دو دعائیں دوں گا۔۔۔ارے چھڑوا دیں گے جان بھی۔ تجھے تو ہر وقت اپنی ہی پڑی رہتی ہے حاجی۔ پہلے یہ لڑکے تو ٹرین کر۔۔۔ ٹھیک ہے صاب جیسے آپ کہیں۔۔۔اور سن ذرا جلدی کر۔ تجھے تلور کے شکار پر ہانکا بھی لگانا ہے۔ اچھا صاب یہ بھی ہوجائے گا۔۔۔ بخشو کو اور کوئی حکم صاب؟
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
- 23 فروری 2014
اس کیریکٹر کا سرپرست پورا محلہ ہوتا ہے۔ کسی کا سودا سلف لا دیا، کسی کے پاؤں دبا دیے، گاڑی دھو دی، فرش کی صفائی کر دی، کسی کے بچے کو کھلا پلا دیا، گود میں لے کرگھما دیا، محلے کے چکر کاٹنے والے کسی مشکوک آدمی کو پکڑ لیا، کبھی سبزی والے کے پاس کھڑا ہوگیا تو کبھی نائی کے پاس بیٹھ گیا۔ سگریٹ چائے پان لا دیا اور پھر حیرت سے منہ کھول کر کچھ لوگوں کی باتیں سننے لگا۔ کبھی سمجھ کر تو کبھی ناسمجھی میں سر ہلا دیا یا مسکرا دیا۔
اس کیریکٹر کا ماں باپ نے یقیناً کبھی کوئی نام رکھا ہوگا لیکن اہلِ محلہ کو اس کا اصل نام جاننے یا پکارنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کا خود بخود کوئی ’جنیرک‘ سا نام پڑ جاتا ہے اور پھر یہی شناخت بن کر چپک جاتا ہے۔ کہیں بخشو، کہیں بھولا، کہیں چھوکرا تو کہیں جیدا غرض کوئی بھی نام دے دیا جاتا ہے۔
کوئی کھانا کھلا دیتا ہے۔ کوئی عید تہوار شادی غمی پر ایک آدھ نیا یا پرانا جوڑا جوتا دے دیتا ہے۔ کسی موالی نے کبھی چرس پلا دی تو کسی نے جوئے کی نال تھما دی۔ کسی کام کسی بات سے انکار نہیں۔ سب کی آنکھوں کا تارا یہ بخشو ، بھولا ، چھوکرا، جیدا۔
جب یہ بخشو ، بھولا ، چھوکرا یا جیدا جوان ہو جاتا ہے تو پھر اسے گھروں کے اندر کا کام دینے کے بجائے بیرونی کام دیے جاتے ہیں اور پھر وہ محلے علاقے کے کسی متمول و بااثر سیاسی و سماجی شخصیت کی اوطاق ، بیٹھک ، حجرے یا چوپال کا حصہ بن جاتا ہے۔
صاحب نے کہا تو کام کر دیا ورنہ پیر ہلاتا رہا اور پھر اس کے بالوں میں سفیدی اترنے لگتی ہے اور نئی نسل اسے ایک نسبتاً عزت دار نام دے دیتی ہے بخشو چاچا، حاجی جیدا، بھولا سائیں وغیرہ۔
اور ایک دن وہ مرجاتا ہے یا کہیں غائب ہوجاتا ہے۔ کچھ دنوں تذکرہ رہتا ہے اور پھر محلہ اس جیسے کسی اور کو بخشو، بھولا، چھوکرا، جیدا، چاچا، حاجی اور سائیں کا تاج پہنا دیتا ہے۔
مجھے اپنا یہ ملک بھی بخشو لگنے لگا ہے جو سب کے کام آوے ہے، بھلے دوسرے اس کے کام آویں نا آویں۔
یار بخشو کوریا میں لڑائی ہو رہی ہے اپنے کچھ فوجی لے آ۔ اچھا صاب۔۔۔
بخشو ذرا روس کی جاسوسی کرنی ہے ایک ہوائی اڈہ تو دے۔۔۔کوئی سا بھی لے لو صاب۔۔۔۔
اوئے بخشو یہ چٹھی لے اور بھاگ کے چین والوں کو دے آ۔۔۔ابھی گیا صاب۔۔۔ابے صرف چٹھی دے آیا جواب تیرا باپ لائے گا۔۔۔ابھی پھر سے جاتا ہوں صاب۔۔۔
بخشو فلسطینیوں کی پھینٹی لگانی ہے، ذرا کچھ دوچار تگڑے لوگ تو اردن بھیج۔ ابھی بھیجتا ہوں صاب۔
ابے بخشو دبئی میں جلدی سے کچھ مزدور تو بھجوا۔ کچھ سڑکیں، عمارتیں، ایئرپورٹ اور محلات بنوانے ہیں۔۔۔ جی صاب ابھی پکڑ کے لایا۔۔۔اور یہ لے اپنا خرچہ پانی۔۔۔ مہربانی صاب۔۔۔۔
بخشو بھائی ذرا دو ڈویژن تو دمام روانہ کردے۔ سارا کرایہ تنخواہ میرے ذمے اور یہ پکڑ ایڈوانس۔۔۔اس کی کیا ضرورت تھی صاب، بخشو تو آپ کا ہمیشہ سے خادم ہے۔۔۔او رکھ لے نا، اور ضرورت ہو تو مانگ لینا۔۔ اب بھاگ کے دو ڈویژن لے آ، شاباش میرا بچہ ۔۔۔
میاں بخشو یہ پکڑ بندوق اور افغانستان کو مار کے آ ۔۔۔مگر صاب ۔۔۔۔ابے جا نا ۔۔۔یہ لے پیسے ۔ راستے میں ضرورت پڑے گی۔ اب منہ کیا دیکھ رہا ہے۔ ضمانت کی فکر نہ کر میں کروا دوں گا۔۔۔ٹھیک ہے صاب آپ کے لیے جاتا ہوں۔۔۔۔
بخشو ذرا دھیان سے سن۔ میں ڈرون اٹیک کرنے والا ہوں مگر سامنے نہیں آؤں گا تجھے آگے کردوں گا، تو اقبال کر لینا۔ کیا سمجھا؟ جی سمجھ گیا۔۔۔
لے یہ چابی اور وہ جو میرا منشی ہے نا بالا۔ اس کی موٹرسائیکل اپنے پاس رکھ لے۔ بالے کو نئی دلوا دوں گا۔۔مگر صاب مجھے تو موٹر سائیکل چلانی ہی نہیں آتی۔۔۔ او بھائی میں سکھانے کے لیے بالے کی ڈیوٹی لگا دوں گا۔۔۔ جا پیارے فٹافٹ۔۔اور بھولنا نہیں وہ اٹیک والی بات۔۔۔ بالکل صاب آپ بے فکر ہوجائیں۔۔۔
اہلاً و سہلاً بخشو حاجی! تم تو ہمیں بھول ہی گئے برادر ۔۔۔کیوں شرمندہ کرتے ہو صاب، آپ کو خود آنے کی کیا ضرورت تھی، حکم کرتے بخشو سر کے بل حاضر ہو جاتا۔۔۔ بس حاجی ایک تو بہت دن سے تم سے ملے بھی نہیں تھے، دوسرے تمہیں ذرا ایک تکلیف دینی تھی، کچھ لڑکے شام بھجوانے کے لیے ٹرین کرنے ہیں، سب نے کہا اپنے حاجی بخشو سے بہتر کون ٹریننگ دے گا۔۔۔۔بے فکر ہو جاؤ صاب۔۔۔ سمجھ لو ٹرین ہو گئے۔۔۔ اور ہاں وہ بحرین والے کہہ رہے تھے کہ آپ ہماری طرف سے بخشو حاجی کا شکریہ ادا کر دینا جس کے بندوں نے بحرین کے شرپسندوں کی طبیعت صاف کر کے رکھ دی۔۔۔ بس صاب بخشو کو آپ جیسوں کی دعا کے سوا اور کیا چاہیے۔۔۔
مگر صاب، میرا بھی ایک کام بہت دن سے پھنسا ہوا ہے۔ کسی طرح دہشت گردی سے بخشو غریب کی جان تو چھڑوا دو دعائیں دوں گا۔۔۔ارے چھڑوا دیں گے جان بھی۔ تجھے تو ہر وقت اپنی ہی پڑی رہتی ہے حاجی۔ پہلے یہ لڑکے تو ٹرین کر۔۔۔ ٹھیک ہے صاب جیسے آپ کہیں۔۔۔اور سن ذرا جلدی کر۔ تجھے تلور کے شکار پر ہانکا بھی لگانا ہے۔ اچھا صاب یہ بھی ہوجائے گا۔۔۔ بخشو کو اور کوئی حکم صاب؟
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام