تیری محفل میں کوئی کھینچ کے لاتا ہے مُجھے
زار پڑھنے بیٹھتے ہیں تو چند لمحوں بعد اس کے الفاظ ہوا میں تحلیل ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور اُن کی جگہ کئی خوش کُن مناظر لے لیتے ہیں ، ہماری زندگی کی کتاب میں جن کی موجودگی ایک بیش قیمت سرمایہ ہے اور جن کی یاد سیروں خون بڑھا دیتی ہے۔ سچ کہیں تَو راحیل بھائی سے مل کر 'غمِ اکلوتگان' بھی جاتا رہا کہ وہ واقعتاََ اپنے حقیقی بھائی ہی محسوس ہوئے۔ سوچتےہیں کہ تمام عمر اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں تو بھی شُکر ادا نہ ہو پائے۔
گو کہ محفل اور اہلِ محفل سے تعلق کافی پرانا ہے مگر کبھی سوچا نہ تھا کہ کسی محفلین سے ملاقات بھی ہو پائے گی ، کیونکہ ہم انٹرنیٹ کی دنیا کے تعلقات کو ایک خاص حد تک رکھنے کے قائل رہے ہیں ۔ مگر کچھ لوگوں کی محبت اور خلوص ملاقات پر مجبور کر دیتا ہے ، کچھ اسی ضمن میں
محمد تابش صدیقی بھائی سے ملاقات رہی اور کیا خوب رہی۔ بھئی! ہم تَو جی بھر کے ان کی محبتوں سے لطف اندوز ہوئے۔
لکھنے لکھانے کی صلاحیت سے عاری ہونے کے باعث اس ملاقات کی روداد ہم تو نہ لکھ پائے البتہ تابش بھائی نے یہ روداد خوب لکھی جس میں
راحیل فاروق بھائی نے کمال محبت سے ملنے کی خواہش کا اظہا ر کیا اور ہم ٹھہرے محبت کے بھوکے۔۔۔۔۔۔ فوراََ حامی بھر لی۔
سفر ہماری عادت ہے اور ہمیں زیادہ عرصہ ایک جگہ قرار نہیں ملتا۔ امیدِ واثق تھی کہ جلد از جلد ملیں گے۔19 جنوری کو ایک ہنگامی دورے پر "عبدالحکیم " جانے کا اتفاق ہوا ، راحیل بھائی کا رابطہ نمبر چونکہ میرے پاس نہیں تھا لہذا ان کے کیفیت نامہ پر " عبدالحکیم آمد " لکھ دیا ۔ جو انھوں نے اپنے وقت پر بیدار ہونے کے بھی خاصی دیر بعد پڑھا۔ میرا رابطہ نمبر احباب سے لے کر رابطہ کیا لیکن تب تلک ہم واپسی کیلئے روانہ ہو چکے تھے۔اس ملاقات کے نہ ہونے کا افسوس بھی ہوا اور کچھ یہ بھی سوچا کہ اچھا ہے یہ ملاقات نہیں ہوپائی ، کیونکہ افراتفری سے اس ملاقات کا لطف غارت ہو جاتا۔ دل میں عہد کِیا کہ جلد از جلد ان سے ملنے خاص طور پر آؤں گا۔
خیر …! اس اتوار ملنے کا ارادہ بن پایا ، راحیل بھائی سے جمعرات کے دن رابطہ کر کے اتوار کی مصروفیات کا پوچھا اور انھوں نے کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تمام مصروفیات منسوخ کردیں ۔چنانچہ چار فروری کو رخت سفر باندھا اور پہلا پڑاؤ اوکاڑہ ایک دوست کے ہاں کیا۔ شام ، راحیل بھائی سے دریافت کیا کہ کب ان کی خدمت میں حاضر ہوں ؟ مگر ان کی جانب سے ناسازئ طبع کے باعث جواب موصول نہ ہوا۔ بہرحال اوکاڑہ سے اگلے دن دس بجے روانہ ہوئے اور حسب عادت گاڑی میں بیٹھتے ہی نیند کی آغوش میں گم ہوگئے ، اس دوران بھائی فون کرتے رہے لیکن ہم بے خبر کسی اور ہی جہاں کی سیر کر رہے تھے، میاں چنوں اتر کر فون دیکھا اور انھیں آگاہ کیا کہ ہم بس نزدیک ہی ہیں۔ عبدالحکیم پہنچ کر انھیں بتایا کہ ہم پہنچ چکے ہیں آپ وصول کرنے کیلئے تشریف لائیں ۔ ہم نے الائیڈ بینک کا پتا بتایا اور کچھ سائیڈ پر ہو کر بیٹھ رہے ۔ بھائی آئے ، دائیں بائیں دیکھا اور کال ملائی۔۔۔۔۔۔۔جی میں آیا کہ ذرا تنگ کیا جائے لیکن ان کی کشش کھینچ کر لے گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بغلگیر ہوئے۔۔۔۔۔حال احوال پوچھا اور گھر کی جانب چل دئیے ۔
ابتدائی سوالات میں یہ دریافت کیا گیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ ہمارا شہر عبدالحکیم کیسا لگا؟ کیونکہ میں دوستوں کو اپنے شہر کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کی بنیاد پر پرکھتا ہوں۔ ہم نے بھی سیاسی جواب داغ دیا کہ "ہر شخص کیلئے اپنا علاقہ کشمیر ہوتا ہے " اور انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ میرے لئے تو یہ مقبوضہ کشمیر ہے۔
(راحیل بھائی اسے" ہمارا" سیاسی جواب مت سمجھئے ہمیں واقعی عبدالحکیم بہت پسند ہے کیونکہ ہمارے بھائی کا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ننھیال کا شہر بھی ہے ۔)
خیر ۔۔۔۔۔با ت چیت اور تعارف کا دور شروع ہوا، واللہ! ہم اتنے شرمیلے ہرگز نہیں ، لیکن جب مخاطب اتنی علمی و قابل شخصیت ہونے کے باوجود اتنے خلوص سے آپ کی تعریفوں میں زمیں وآسماں کے قلابے ملائے اور چھوٹی سے چھوٹی بات پرانتہائی فراخدلی سے تعریف اور دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے تو بڑے سے بڑا بے شرم شخص بھی شرمانے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد ان سے چھوٹے بھائی( جنہیں ہم بڑا بھائی سمجھ بیٹھے ) عدیل بھائی چائے اور بسکٹ کے ہمراہ اندر داخل ہوئے۔ان سے ملواتے ہوئے راحیل بھائی نے دوبارہ ہماری تعریف میں ان ان چیزوں میں ہماری مہارت کا ذکر کِیا جن کی الف بے سے بھی ہم واقف نہیں ،" من آنم کہ من دانم" اور ہم پھر شرمائے بغیر رہ نہ پائے ۔
اس کے بعد مختلف موضوعات پر گفتگو چلتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔ بات سے بات نکلتی رہی۔۔۔۔۔۔ ہم ان کے علم سے فیض یاب ہوتے رہے ۔ ہم نے آغازِ گفتگو میں ہی واضح کر دیا تھا کہ خاصے بے ادب ہیں ، ادب سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ انھوں نے بھی ہمیں کم مائیگی کا احساس نہ ہونے دیا اور ایسے موضوعات چھیڑ لئے جن سے ہمیں دلچسپی ہو سکتی تھی ۔ بہت سے موضوعات پر بات چیت کے دوران احساس ہوا کہ ہم اکثر باتوں میں ہم خیال ہیں ، اگرچہ اس وقت اس احساس کا تذکرہ نہیں کیا۔ بات چیت کے دوران ہی" ماں جی" کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا آگیا ، جس میں لذت کے ساتھ ساتھ ماں جی کی محبت اور خلوص بھی شامل تھا جس نے کھانے کا لطف دوبالا کر دیا۔ راحیل بھائی نے پوچھا کہ آپ مرچیں کم کھاتے ہیں تو کچھ اور منگوا لیتے ہیں لیکن ہم نے کہا کہ جہاں بریانی ہو وہاں مرچوں پر بھی ہم سمجھوتہ کر جاتے ہیں ۔
اس کے بعد پھر باتوں کا دَور چلا۔۔۔۔مطالعہ ، مشاہدات ، تجربات اور یادوں کا تذکرہ چھڑ گیا ۔ مطالعہ سے ہم تہی دامن ٹھہرے ، چنانچہ ہماری جانب سے محض ماضی کی یادوں کا تذکرہ ہی سنایا گیا۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مرید کسی محفل و مجلس میں ہو اور پیرومرشد کا تذکرہ نہ چھڑے چنانچہ باتوں کے دوران پیرومرشد کے تذکرے سے بھی فیض یاب ہوئے۔ کُچھ حالاتِ حاضرہ کا تڑکہ بھی لگا ، کچھ تصوف کی روشنی سے بھی جلا پائی ، کچھ غیبتوں سے بھی لطف اندوز ہوئے ( تمام احباب سے گزارش ہے کہ اس گناہ پر ہمیں معاف کردیا جائے ) کچھ دل کے پھپھولے جلائے اور میرے خیال میں تمام گفتگو کے دوران رسمی باتوں کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دیا ، اتنی لمبی گفتگو کے باوجود بھی تشنگی سی رہی کہ وقت بہت مختصر تھا بہت سی باتیں ان کہی رہ گئیں ۔اپنی حماقت کے باعث بہت سی چیزوں سے محروم رہ گیا جن پر بعد میں افسوس بھی ہوا ، جن میں سرفہرست راحیل بھائی سے ان کی کوئی غزل سننا تھا ۔
اس دوران چائے کا دور بھی چلا ، باتوں کے دوران وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ پتا ہی نہیں چلا کب تاریکی چھا گئی ، علیحدہ ہونے کو جی تو نہیں چاہتا تھا بہرحال جی کڑا کر کے واپسی کی اجاز ت مانگی ، جو انھوں نے رد کر دی ، اور بڑی محبت و اپنائیت اور اصرار سے رات رُکنے پر مجبور کیا ( ویسے مجبورکیا کرنا ہمارا خود بھی الگ ہونے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔)
اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے محتاط رہنے کے سے انداز میں ایک تنبیہ کی کہ رات سوتے میں انھیں ٹانگیں چلانے کی عادت ہے اس سے مجھے تکلیف ہو سکتی ہے (ہم نے دل میں سوچا "لاکھ ہم لاتوں کے بھوت سہی " لیکن لاتوں سے خوفزدہ ہرگز نہیں )ہم نے بھی جوابی تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خراٹے بھی بہت سے لوگوں کی طبع نازک پر گراں گزرتے ہیں انھیں بھی برداشت کرنے کا معقول انتظام فرمالیجئے۔ جسے سن کر انھوں نے ہنسی میں اڑا دیا۔اس دوران کچھ اونگھ سی طاری ہو گئی۔راحیل بھائی کچھ کام نمٹانے چلے گئے اور ہم خواب خرگوش کے مزے لینے لگے۔ اسی دوران رات کا کھانا آگیا ، ابھی تو سہ پہر کھایا گیا کھانا ہضم نہ کرپائے تھے کہ یہ بھی کھانا پڑا۔
کھانے کے بعد کچھ باتیں ہوئیں اور پھر ہم نیند کی وادی میں کھو گئے ۔ طویل عرصے بعد بروقت سوئے اور گھوڑوں کا سارا اصطبل بیچ کر سوئے یہ بعد میں علم ہوا کہ ہم نیند میں کھوئے رہے اور وہ ہمارے خراٹوں کی آواز سے 'لطف اندوز' ہوتے رہے ۔
اگلے دن علی الصبح ہم نے روانگی کا قصد کیا ۔ راحیل بھائی کو شاید رات بھر ہماری ہمسائیگی نے سونے نہ دیا اور اب لمبی تان کر سو رہے تھے۔ انھیں بیدار کیا اور رخصت ہونے کی اجازت مانگی ۔ ہماری خواہش تھی کہ یہیں ان سے الوداع ہولیتے لیکن انھوں نے گاڑی تک ساتھ آنے پر اصرارکیا۔
دم رخصت انھوں نے اپنی کتاب "زار" کا اپنے دستخط اور محبت بھری تحریر کے ساتھ تحفہ عنایت کر کے ہماری دیرینہ خواہش کو پورا کیا ، بعد میں تحریر کو بغور دیکھنے پر علم ہوا کہ راحیل بھائی اپنے ہاتھ کی لکھی اس تحریر میں بھی اپنی سابقہ غلطی دہرا گئے اور حسب معمول تاریخ غلط تحریر کر دی۔
یُوں یہ ساعتیں ثانیوں کی مانند بیت گئیں ، اور ہم دل گرفتگی کے عالم میں ان سے وداع ہوئے ، جلد ایک اور ملاقات کی امید پر۔۔۔۔۔۔۔کہ:
کون کمبخت نہ چاہے گا نکلنا لیکن
اتنی مہلت ہی ترا دام کہاں دیتا ہے؟