افتخار عارف بدشگونی

شزہ مغل

محفلین
اس نظم کے الفاظ کو سمجھیں تو ایک واقعہ بیان ہو رہا ہے مگر پسِ پردہ کچھ اور معنی ملتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کتاب کو عورت فرض کر کے پڑھیں تو آخری دو مصرعے تلاتم خیز ہوں گے۔۔۔
 

عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو بلا رہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں اک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں
نئے نئے دائروں کی گردش میں اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں
صلہ جزا خوف ناامیدی
امید امکان بے یقینی
ہزار خانوں میں بٹ گیا ہوں
اب اس سے پہلے کہ رات اپنی کمند ڈالے یہ چاہتا ہوں کہ لوٹ جاؤں
عجب نہیں وہ کتاب اب بھی وہیں پڑی ہو
عجب نہیں آج بھی مری راہ دیکھتی ہو
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو
ہوا و حرص و ہوس کی سب گرد صاف کر دیں
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
 

تصور تقوی

محفلین
کتابوں کے ٹھکرائے ہوئے اور بد دعائے ہوئے معاشرے کا مقدر ہزاروں غلیظ خانوں میں بٹ جانا اور رستے سے بھٹک جانا ہی ہوا کرتا ہے۔مولا کریم جناب افتخار عارف کو صحت اور طویل عمری عطا فرمائیں۔
 
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو بلا رہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں اک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں
نئے نئے دائروں کی گردش میں اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں
صلہ، جزا، خوف، ناامیدی
امید، امکان، بے یقینی
ہزار خانوں میں بٹ گیا ہوں
اب اس سے پہلے کہ رات اپنی کمند ڈالے یہ چاہتا ہوں کہ لوٹ جاؤں
عجب نہیں وہ کتاب اب بھی وہیں پڑی ہو
عجب نہیں آج بھی مری راہ دیکھتی ہو
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو
ہوا و حرص و ہوس کی سب گرد صاف کر دیں
عجب نہیں میرے لفظ مجھ کو معاف کر دیں
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
بہت عمدہ انتخاب۔ شکریہ
 
Top