ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد
محفلین
محترم آپکے سوال کے اندر ہی جواب ہے۔ بات بیڑا اٹھانے کی نہیں بلکہ یہ ذمہ داری سونپنے کی ہے ۔ جیسے آپ نے خود ہی فرمایا کہ اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تو یہ ذمہ داری ساری امت پر آتی ہے نہ کہ چند لوگوں پر۔ اب ہم محنت تو کریں اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل پر اور الزام ٹھرائیں دوسروں پر ۔ کیا انصاف ہے۔ یہ دنیا ایک جگہ امتحان ہے اور ہر ایک نے اپنا اپنا پرچہ کی تیاری اور حل کرنا ہے اور جزا سزا اپنے اپنے اعمال کی ہم نےخود ہی بھگتنی ہے خواہ کوئی عالم ہو، مفتی ہو یا ڈاکٹرہو۔قصور وار "مولوی" ہرگز نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جس نے دین کا استعمال صرف اپنی روزی روٹی تک محدود رکھا ہے.... جس نے حیا صرف عورت ذات تک محدود کر دی ہے..... جس نے علم صرف "مولوی" تک محدود کر دیا ہے..... جس نے حق صرف مردوں تک محدود کر دیا ہے..... جس نے "مرد عورت سے افضل" کا مطلب صرف اپنے فائدے تک محدود کر دیا ہے لیکن....
اگر آپ غور کریں تو.....
1. جس کے پاس علم ہے وہ دوسروں تک صحیح معنی میں پہنچائے نا کہ اپنی روزی روٹی تک محدود رکھے، لوگوں کے مطلب کی بات کر کے اپنا مطلب نکالے.... اپنی سیاست کے لیے استعمال نہ کرے.... تو بنیادی طور پر ایک عالم ہی علم بانٹتا ہے اور وہ اس وقت تک صحیح ہے جب اسے اپنی ذات سے زیادہ اپنے معاشرے کی فکر ہو.....
2. تالی یقینا ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.... لوگوں میں بھی یہ بیداری ہو کون انہیں گمراہ کر رہا ہے اور کون انہیں راہ راست پہ لانا چاہ رہا ہے.... ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں لیکن بہت کم.... اس لیے قران پاک میں بار ہا اکثرھم کا صیغہ برے لوگوں کی طرف استعمال کیا گیا ہے "مگر بہت کم" ان لوگوں کے لیے جو راہ راست پر ہیں.... دوسری بات ایسے کم لوگ ہمیشہ ہر دور میں ان لوگوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں جو دین کو دکان کے طور پر استعمال کرتے ہیں.... اس لیے جلد یا بدیر ان کو اسلام کا نام "استعمال" کر کے "راہ سے ہٹا" دیا جاتا ہے.....
رہی بات شریعت کے نفاذ کی.... حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو....
1. کیا شریعت نبوت کے اعلان کے فورا بعد معاشرے پر آ گئی ؟؟؟
2. کیا عوام کو ٹھیک کرنے کے لیے سچے، مخلص اور ایماندار عالم کا ہونا ضروری نہیں؟؟؟
عوام پر تاثیر تب جاتی ہے جب عالم کے قول و فعل میں خود تضاد نہ ہو..... صحیح علم ایک صحیح عالم ہی اپنے معاشرے میں بانٹ سکتا ہے.....
پھر وہی بات دہراؤں گا جزا و سزا معاشرے کے پھلنے پھولنے کے لیے لازمی ہے اور کوئی بھی شخص اس سے مبرا نہیں ہے.... قومیں تو ہوتی ہی گمراہ آئی ہیں اس لیے ہر دور میں نبی آیا ہے.... چونکہ اب نبوت کا سلسلہ بند ہے معاشرے کی تربیت کس کے ذمہ ہے یا کس نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے..... ذرا غور کریں.....
ہمیں ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے نہ کہ دوسروں کے۔ قانون اور شریعت میں یہ excuse قابل قبول نہیں ہے کہ مجھے پتا نہیں تھا بلکہ ہم پر فرض ہے کہ سیکھیں اس سے پہلے کہ تیاری کا وقت گزر جائے اورصرف پچھتاوا رہ جائے۔
اللہ ہم سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے
آخر میں صرف اتنا ہی کہتا ہوإ
ہم بدلیں گے تو بدلے گا پاکستان