بدعنوانی کا خاتمہ کیسے ممکن؟

قصور وار "مولوی" ہرگز نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جس نے دین کا استعمال صرف اپنی روزی روٹی تک محدود رکھا ہے.... جس نے حیا صرف عورت ذات تک محدود کر دی ہے..... جس نے علم صرف "مولوی" تک محدود کر دیا ہے..... جس نے حق صرف مردوں تک محدود کر دیا ہے..... جس نے "مرد عورت سے افضل" کا مطلب صرف اپنے فائدے تک محدود کر دیا ہے لیکن....
اگر آپ غور کریں تو.....
1. جس کے پاس علم ہے وہ دوسروں تک صحیح معنی میں پہنچائے نا کہ اپنی روزی روٹی تک محدود رکھے، لوگوں کے مطلب کی بات کر کے اپنا مطلب نکالے.... اپنی سیاست کے لیے استعمال نہ کرے.... تو بنیادی طور پر ایک عالم ہی علم بانٹتا ہے اور وہ اس وقت تک صحیح ہے جب اسے اپنی ذات سے زیادہ اپنے معاشرے کی فکر ہو.....
2. تالی یقینا ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.... لوگوں میں بھی یہ بیداری ہو کون انہیں گمراہ کر رہا ہے اور کون انہیں راہ راست پہ لانا چاہ رہا ہے.... ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں لیکن بہت کم.... اس لیے قران پاک میں بار ہا اکثرھم کا صیغہ برے لوگوں کی طرف استعمال کیا گیا ہے "مگر بہت کم" ان لوگوں کے لیے جو راہ راست پر ہیں.... دوسری بات ایسے کم لوگ ہمیشہ ہر دور میں ان لوگوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں جو دین کو دکان کے طور پر استعمال کرتے ہیں.... اس لیے جلد یا بدیر ان کو اسلام کا نام "استعمال" کر کے "راہ سے ہٹا" دیا جاتا ہے.....

رہی بات شریعت کے نفاذ کی.... حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو....
1. کیا شریعت نبوت کے اعلان کے فورا بعد معاشرے پر آ گئی ؟؟؟
2. کیا عوام کو ٹھیک کرنے کے لیے سچے، مخلص اور ایماندار عالم کا ہونا ضروری نہیں؟؟؟
عوام پر تاثیر تب جاتی ہے جب عالم کے قول و فعل میں خود تضاد نہ ہو..... صحیح علم ایک صحیح عالم ہی اپنے معاشرے میں بانٹ سکتا ہے.....
پھر وہی بات دہراؤں گا جزا و سزا معاشرے کے پھلنے پھولنے کے لیے لازمی ہے اور کوئی بھی شخص اس سے مبرا نہیں ہے.... قومیں تو ہوتی ہی گمراہ آئی ہیں اس لیے ہر دور میں نبی آیا ہے.... چونکہ اب نبوت کا سلسلہ بند ہے معاشرے کی تربیت کس کے ذمہ ہے یا کس نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے..... ذرا غور کریں.....
محترم آپکے سوال کے اندر ہی جواب ہے۔ بات بیڑا اٹھانے کی نہیں بلکہ یہ ذمہ داری سونپنے کی ہے ۔ جیسے آپ نے خود ہی فرمایا کہ اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تو یہ ذمہ داری ساری امت پر آتی ہے نہ کہ چند لوگوں پر۔ اب ہم محنت تو کریں اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل پر اور الزام ٹھرائیں دوسروں پر ۔ کیا انصاف ہے۔ یہ دنیا ایک جگہ امتحان ہے اور ہر ایک نے اپنا اپنا پرچہ کی تیاری اور حل کرنا ہے اور جزا سزا اپنے اپنے اعمال کی ہم نےخود ہی بھگتنی ہے خواہ کوئی عالم ہو، مفتی ہو یا ڈاکٹرہو۔
ہمیں ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے نہ کہ دوسروں کے۔ قانون اور شریعت میں یہ excuse قابل قبول نہیں ہے کہ مجھے پتا نہیں تھا بلکہ ہم پر فرض ہے کہ سیکھیں اس سے پہلے کہ تیاری کا وقت گزر جائے اورصرف پچھتاوا رہ جائے۔
اللہ ہم سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے
آخر میں صرف اتنا ہی کہتا ہوإ
ہم بدلیں گے تو بدلے گا پاکستان
 
میں خود اسی چیز کا قائل ہوں کہ ہم ٹھیک ہوں گے تو معاشرہ بھی ٹھیک ہو گا۔ورنہ ایک کرپٹ معاشرے میں کسی ولی اللہ کو بھی حکومت دے دیں تو وہ بے بس نظر آئے گا ۔
۔۔۔
ورنہ ایک آسان سا حل ہے کہ ایسے حالات میں جو سب سے کم بُرا ور کرپٹ ہے وہ سب سے بہترین ہے ۔ اُسے چُن لیں ۔
 
میں خود اسی چیز کا قائل ہوں کہ ہم ٹھیک ہوں گے تو معاشرہ بھی ٹھیک ہو گا۔ورنہ ایک کرپٹ معاشرے میں کسی ولی اللہ کو بھی حکومت دے دیں تو وہ بے بس نظر آئے گا ۔
۔۔۔
ورنہ ایک آسان سا حل ہے کہ ایسے حالات میں جو سب سے کم بُرا ور کرپٹ ہے وہ سب سے بہترین ہے ۔ اُسے چُن لیں ۔
آپ نے صحیح فرمایا ہمارے حقوق برابر ہیں مگر زمہ داریوں میں فرق ہوسکتا ہے۔
یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ جب لوگوں میں شعور آجاتا ہے تو حالات آہستہ آہستہ خودبخود ہی بدلنے لگتے ہیں ۔
 
محترم آپکے سوال کے اندر ہی جواب ہے۔ بات بیڑا اٹھانے کی نہیں بلکہ یہ ذمہ داری سونپنے کی ہے ۔ جیسے آپ نے خود ہی فرمایا کہ اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تو یہ ذمہ داری ساری امت پر آتی ہے نہ کہ چند لوگوں پر۔ اب ہم محنت تو کریں اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل پر اور الزام ٹھرائیں دوسروں پر ۔
پیارے بھائی! علم دنیا میں کیسے پھیلتا ہے؟ شریعت کے احکامات ایک عام قاری کے پاس کیسے آتے ہیں؟ یقینا اس کا بیڑہ عالموں نے اٹھا کر اپنے ہاتھ میں رکھ دیا، آپ آج اختلاف کریں، کل آپ کا سر قلم... یہی رونا تو میں پیٹ رہا ہوں کہ بھائی دین کی دکان جب تک ختم نہیں ہو گی تب تک ایک سادہ لوح شخص سے کیسے آپ "شعور" کی امید لگا سکتے ہیں.... جب آپ نے ان کی سوچ پر ہی پابندی لگا دی اور پھر امید رکھ لی شعور کی، ترقی کی.... اس کے لیے بہت ضروری ہے یہ دکانیں بند کروانا..... شخصیت پرستی آپ کی معاشرے کی جڑ کو کھوکھلا کر رہی ہے اور یہی ایک دوکان ہے جو بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے..... آج اکیسویں صدی میں کتنے لوگوں میں شعور ہے.... ہر آئے روز اسلام کی دکان میں پیر کے ہاتھوں لوگ کتنا ذلیل و خوار ہو رہے ہیں مر رہے ہیں..... کیوں؟ بات پھر وہیں پہ آتی ہے ایک علم والے بندے کا فرض ہے اپنے آدم زاد بھائی تک صحیح بات پہنچانا.... کتنے لوگ یہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں؟ آج ستر سال کے بعد بھی ہم صفر پر ہیں کیوں؟ کیا آپ نے کبھی اپنے نصاب کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا ہے کہ اس میں کیا برائیاں ہیں.... ایک خاص نقطہ نظر تعلیمی نصاب کے ذریعے صرف اپنی دکانداری قائم رکھ کر ملک میں ترقی کی آس لگائے بیٹھا ہے.... ایک ڈاکٹر، ایک انجینیر کیا ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد خود بخود بن جاتا ہے؟ یقینا اس میں اپنی محنت شامل ہے لیکن اس میں بہت بڑا کردار ایک ڈاکٹر یا انجینیئر عالم کا ہوتا ہے.... وہ چاہتا ہے کہ جو علم اس کے پاس ہے وہ صحیح معنوں میں اس کے طلباء تک پہنچے لیکن دین کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں؟ وہاں ہر عالم کیوں چاہتا ہے کہ اس کی دکان بڑھے؟ وہاں وہ کیوں نہیں چاہتا کہ دین بڑھے؟ ظاہر سی بات ہے ایسا کرنے سے اس کی اتھارٹی چیلنج ہو جاتی ہے اسکی دکان بند ہونے کا خدشہ ہے.... اس صورت حال میں جو شخص اس کی غلط بات کو غلط کہتا ہے وہ اسلام کے نام پر یا تو اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے یا معاشرے میں ذلیل ہو جاتا ہے..... پاکستان بننے کے بعد سے ستر سال سے قائم مزہبی دکانداری کا خاتمہ کیونکر ممکن نہ ہو سکا؟ ملک ترقی کیوں نہ کر سکا؟ جب آپ نے دروازے کو باہر سے تالا لگا رکھا ہو اور اس سے باہر کسی کو نکالنا ہی نہ چاہ رہے ہوں تو ایسے میں ترقی یا شعور کی امید فضول ہے.... جو پچھلی صدی میں حاصل کیا ہے وہی آگے بھی چلتا رہے گا اگر یہ بت توڑے نہ گئے.....نفسانی خواہشیں کس شخص میں نہیں ہوتیں؟ ہمیشہ دین کی صحیح تعلیم ہی ان پر قابو پاتی ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ انہیں صحیح رہنمائی کی جائے.... لوگوں کے دماغوں کو کھلی دنیا میں غور و خوض کے لیے چھوڑا جائے..... ان کو غلام بنانے کی بجائے ان کو آزاد کیا جائے.... اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب تک مذہب کے نام پر دکانداری بند نہیں ہوتی.... ورنہ یہی سلسلہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے بعد سے چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا.... ہم ہی اپنوں کے سر کاٹ کر خود ہی ہیرو بنتے رہیں گے اور یہ مذہبی و سیاسی دکاندار اسی طرح اپنی دکان چمکاتے رہیں گے.....
 

فرقان احمد

محفلین
بدعنوانی پوری دنیا میں ہے اور فی زمانہ بدعنوانی کا چلن کچھ کم ہوا ہے اور مزید کم ہو جائے گا۔ دیکھ لیجیے، پوری دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اور پاکستان میں بھی اس کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بدعنوانی عام ہے تاہم اس میں کمی آ رہی ہے اور بتدریج آتی چلی جائے گی۔ معاملہ یہ ہےکہ بدعنوانی کو قلع قمع کرتے کرتے ہمیں اداروں کو متنازع بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر آپ سب کچھ عسکریوں کے حوالے کر دیں گے تو پھر کیا ایسا ہو جائے گا کہ جو اب نہیں ہو رہا ہے؟ بدعنوانی تو شاید ختم نہ ہو گی تاہم فوج بحیثیت ادارہ بدنام ضرور ہو جائے گی اور لامحالہ اس کے اپنے کئی کاروباری معاملات پر چبھتے ہوئے سوال اٹھائے جائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں؟ اسی طرح آپ کسی 'پارسا' چیف جسٹس سے درخواست کر کے ان سے فرمائش کریں کہ وہ حکومت سنبھال کر کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں تو یہ سب کچھ بھی نہایت مصنوعی ہو گا؛ اگر ایسا ہونا ممکنات کی ذیل میں بھی ہو تو۔ یوں بھی معاشرے میں برائی بہت زیادہ پھیل جائے تو پھر اس برائی کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا چاہیے اور آہستہ آہستہ اصلاح احوال کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ جادو کی چھڑی کسی کے پاس نہیں۔ اور خاص طور پر اس تناظر میں، کہ آپ کے ملکی حالات بین الاقوامی معاملات سے جڑے ہوئے ہوں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اوپر کا بندہ ٹھیک ہو تو نیچے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؛ یہ کلیہ کسی چھوٹے موٹے ادارے میں تو چل سکتا ہے تاہم ملک چلانے کے لیے یہ فارمولا زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا۔
 
میں خود اسی چیز کا قائل ہوں کہ ہم ٹھیک ہوں گے تو معاشرہ بھی ٹھیک ہو گا۔ور
پیارے بھائی! بجا فرمایا آپ نے کہ جب ہم ٹھیک ہوں گے تو معاشرہ ٹھیک ہو گا.... یہ بات سننے میں بڑی اچھی لگتی ہے.... مان لیا آپ بڑھے لکھے آدمی ہیں اور آپ جیسے اور بھی بہت پڑھے لکھے ہیں جن کے دماغ پر غلامی کا قفل نہیں لگا ہوا لیکن آپ سے کہیں بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو غلامی سے اپنی زندگی کی ابتدا کرتے ہیں اور وہیں دفن ہو جاتے ہیں.... شعور پھیلتا ہے تعلیم سے اور تعلیم منحصر ہے تعلیمی ڈھانچے پہ، پڑھنے والے پہ، پڑھانے والے پہ اور نصا ب پہ.... اب اس صورت حال میں آپ کیسے سب کو اپنے برابر کھڑا کر سکتے ہیں اور کیسے سارے کا سارے الزام پڑھنے والے پہ ڈال سکتے ہیں.... آپ جانتے ہیں کہ کتنے بچوں مدرسوں میں علم حاصل کرنے جاتے ہیں، بچوں کے ذہن میں کیا ہوتا ہے؟ یہی نہ کہ وہ پڑھنے جا رہا ہے عالم بننے جا رہے ہیں.... ان میں سے کتنے بچے شعور کی سطح کو پہنچتے ہیں؟ وہ بیچارے ساری زندگی اس مکتبہ فکر سے باہر ہی نہیں نکل پاتے، فکر معاش الگ اور احساس محرومی الگ.... اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا سارے کا سارا قصور بچے کا ہے؟ یقینا نہیں، وہ ادارے ہی اس قابل نہیں کہ انہیں دنیا میں جینے کا ڈھنگ سکھا سکیں کیونکہ وہ ادارے ہی ایک خاص مکتبہ فکر کی دکان کو لے کر چلتے ہیں.... دیہاتوں میں تعلیم کی کتنی سہولتیں ہیں، لوگوں کا ذریعہ معاش کیا اس قابل ہے کہ ان کو اچھی تعلیم دلوا سکے؟ ایسے نظام میں صرف چند شعور والے لوگ ہی پیدا ہوتے ہیں اور پھر آپ یہ آس لگا کر بیٹھیں رہیں کہ ہم خود ٹھیک ہوں گے تو نظام ٹھیک ہو گا محض ایک حسرت ہے..... جب تک لوگ ذہنی غلامی سے آزاد نہ ہونگے کچھ بھی نہیں ہو سکتا.....

ورنہ ایک کرپٹ معاشرے میں کسی ولی اللہ کو بھی حکومت دے دیں تو وہ بے بس نظر آئے گا ۔
بات یہ ہے کہ بھائی کہ کیا سارا معاشرہ 1947 سے ہی کرپٹ ہے؟ اگر ایک کرپٹ حکمران یہاں حکومت کر کے اپنے جیسے کئی کرپٹ پیدا کر سکتا ہے تو ایک اچھا حکمران کیوں نہیں ملک کی تقدیر بدل سکتا؟ پاسپورٹ آفس کی مثال آپ کے سامنے ہے.... کیا اس کا سربراہ کوئی ولی اللہ ہے؟ بات ہے اخلاص کی کہ آپ بہتری کے خواہشمند ہیں یا نہیں....
ورنہ ایک آسان سا حل ہے کہ ایسے حالات میں جو سب سے کم بُرا ور کرپٹ ہے وہ سب سے بہترین ہے ۔ اُسے چُن لیں ۔
ایسا تو فی الوقت ممکن نطر نہیں آتا.....
 
آخری تدوین:
اوپر کا بندہ ٹھیک ہو تو نیچے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؛ یہ کلیہ کسی چھوٹے موٹے ادارے میں تو چل سکتا ہے تاہم ملک چلانے کے لیے یہ فارمولا زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا۔
بھائی اوپر کا بندہ ٹھیک ہو گا تبھی وہ نظام میں تبدیلی کا خواہشمند ہو گا.... اور جب تک جزا و سزا کا نظام ٹھیک نہ ہو گا یہی ہوتا رہے گا.... آپ پاسپورٹ آفس کی مثال دیکھ لیں.... کیا وہاں سارا نچلہ طبقہ ٹھیک ہو گیا تھا کہ پورا ڈیپارٹمنٹ ہی بہترین ہو گیا ہے.... یقینا اس میں مجاز اتھارٹی کا بڑا کارنامہ ہے جت نے پور ادارہ ہی بدل کے رکھ دیا.... اسی طرح جب ہر ادارے کا لیڈر ٹھیک ہو گا تھوڑے ہی عرصے میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی....
 
پیارے بھائی! بجا فرمایا آپ نے کہ جب ہم ٹھیک ہوں گے تو معاشرہ ٹھیک ہو گا.... یہ بات سننے میں بڑی اچھی لگتی ہے.... مان لیا آپ بڑھے لکھے آدمی ہیں اور آپ جیسے اور بھی بہت پڑھے لکھے ہیں جن کے دماغ پر غلامی کا قفل نہیں لگا ہوا لیکن آپ سے کہیں بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو غلامی سے اپنی زندگی کی ابتدا کرتے ہیں اور وہیں دفن ہو جاتے ہیں.... شعور پھیلتا ہے تعلیم سے اور تعلیم منحصر ہے تعلیمی ڈھانچے پہ، پڑھنے والے پہ، پڑھانے والے پہ اور نصا ب پہ.... اب اس صورت حال میں آپ کیسے سب کو اپنے برابر کھڑا کر سکتے ہیں اور کیسے سارے کا سارے الزام پڑھنے والے پہ ڈال سکتے ہیں.... آپ جانتے ہیں کہ کتنے بچوں مدرسوں میں علم حاصل کرنے جاتے ہیں، بچوں کے ذہن میں کیا ہوتا ہے؟ یہی نہ کہ وہ پڑھنے جا رہا ہے عالم بننے جا رہے ہیں.... ان میں سے کتنے بچے شعور کی سطح کو پہنچتے ہیں؟ وہ بیچارے ساری زندگی اس مکتبہ فکر سے باہر ہی نہیں نکل پاتے، فکر معاش الگ اور احساس محرومی الگ.... اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا سارے کا سارا قصور بچے کا ہے؟ یقینا نہیں، وہ ادارے ہی اس قابل نہیں کہ انہیں دنیا میں جینے کا ڈھنگ سکھا سکیں کیونکہ وہ ادارے ہی ایک خاص مکتبہ فکر کی دکان کو لے کر چلتے ہیں.... دیہاتوں میں تعلیم کی کتنی سہولتیں ہیں، لوگوں کا ذریعہ معاش کیا اس قابل ہے کہ ان کو اچھی تعلیم دلوا سکے؟ ایسے نظام میں صرف چند شعور والے لوگ ہی پیدا ہوتے ہیں اور پھر آپ یہ آس لگا کر بیٹھیں رہیں کہ ہم خود ٹھیک ہوں گے تو نظام ٹھیک ہو گا محض ایک حسرت ہے..... جب تک لوگ ذہنی غلامی سے آزاد نہ ہونگے کچھ بھی نہیں ہو سکتا.....


بات یہ ہے کہ بھائی کہ کیا سارا معاشرہ 1947 سے ہی کرپٹ ہے؟ اگر ایک کرپٹ حکمران یہاں حکومت کر کے اپنے جیسے کئی کرپٹ پیدا کر سکتا ہے تو ایک اچھا حکمران کیوں نہیں ملک کی تقدیر بدل سکتا؟ پاسپورٹ آفس کی مثال آپ کے سامنے ہے.... کیا اس کا سربراہ کوئی ولی اللہ ہے؟ بات ہے اخلاص کی کہ آپ بہتری کے خواہشمند ہیں یا نہیں....
ایسا تو فی الوقت ممکن نطر نہیں آتا.....
پیارے بھائی! علم دنیا میں کیسے پھیلتا ہے؟ شریعت کے احکامات ایک عام قاری کے پاس کیسے آتے ہیں؟ یقینا اس کا بیڑہ عالموں نے اٹھا کر اپنے ہاتھ میں رکھ دیا، آپ آج اختلاف کریں، کل آپ کا سر قلم... یہی رونا تو میں پیٹ رہا ہوں کہ بھائی دین کی دکان جب تک ختم نہیں ہو گی تب تک ایک سادہ لوح شخص سے کیسے آپ "شعور" کی امید لگا سکتے ہیں.... جب آپ نے ان کی سوچ پر ہی پابندی لگا دی اور پھر امید رکھ لی شعور کی، ترقی کی.... اس کے لیے بہت ضروری ہے یہ دکانیں بند کروانا..... شخصیت پرستی آپ کی معاشرے کی جڑ کو کھوکھلا کر رہی ہے اور یہی ایک دوکان ہے جو بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے..... آج اکیسویں صدی میں کتنے لوگوں میں شعور ہے.... ہر آئے روز اسلام کی دکان میں پیر کے ہاتھوں لوگ کتنا ذلیل و خوار ہو رہے ہیں مر رہے ہیں..... کیوں؟ بات پھر وہیں پہ آتی ہے ایک علم والے بندے کا فرض ہے اپنے آدم زاد بھائی تک صحیح بات پہنچانا.... کتنے لوگ یہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں؟ آج ستر سال کے بعد بھی ہم صفر پر ہیں کیوں؟ کیا آپ نے کبھی اپنے نصاب کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا ہے کہ اس میں کیا برائیاں ہیں.... ایک خاص نقطہ نظر تعلیمی نصاب کے ذریعے صرف اپنی دکانداری قائم رکھ کر ملک میں ترقی کی آس لگائے بیٹھا ہے.... ایک ڈاکٹر، ایک انجینیر کیا ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد خود بخود بن جاتا ہے؟ یقینا اس میں اپنی محنت شامل ہے لیکن اس میں بہت بڑا کردار ایک ڈاکٹر یا انجینیئر عالم کا ہوتا ہے.... وہ چاہتا ہے کہ جو علم اس کے پاس ہے وہ صحیح معنوں میں اس کے طلباء تک پہنچے لیکن دین کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں؟ وہاں ہر عالم کیوں چاہتا ہے کہ اس کی دکان بڑھے؟ وہاں وہ کیوں نہیں چاہتا کہ دین بڑھے؟ ظاہر سی بات ہے ایسا کرنے سے اس کی اتھارٹی چیلنج ہو جاتی ہے اسکی دکان بند ہونے کا خدشہ ہے.... اس صورت حال میں جو شخص اس کی غلط بات کو غلط کہتا ہے وہ اسلام کے نام پر یا تو اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے یا معاشرے میں ذلیل ہو جاتا ہے..... پاکستان بننے کے بعد سے ستر سال سے قائم مزہبی دکانداری کا خاتمہ کیونکر ممکن نہ ہو سکا؟ ملک ترقی کیوں نہ کر سکا؟ جب آپ نے دروازے کو باہر سے تالا لگا رکھا ہو اور اس سے باہر کسی کو نکالنا ہی نہ چاہ رہے ہوں تو ایسے میں ترقی یا شعور کی امید فضول ہے.... جو پچھلی صدی میں حاصل کیا ہے وہی آگے بھی چلتا رہے گا اگر یہ بت توڑے نہ گئے.....نفسانی خواہشیں کس شخص میں نہیں ہوتیں؟ ہمیشہ دین کی صحیح تعلیم ہی ان پر قابو پاتی ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ انہیں صحیح رہنمائی کی جائے.... لوگوں کے دماغوں کو کھلی دنیا میں غور و خوض کے لیے چھوڑا جائے..... ان کو غلام بنانے کی بجائے ان کو آزاد کیا جائے.... اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب تک مذہب کے نام پر دکانداری بند نہیں ہوتی.... ورنہ یہی سلسلہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے بعد سے چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا.... ہم ہی اپنوں کے سر کاٹ کر خود ہی ہیرو بنتے رہیں گے اور یہ مذہبی و سیاسی دکاندار اسی طرح اپنی دکان چمکاتے رہیں گے.....
ہتھ ہولا رکھوإ باہمی اختلافات کی حد تک تو ٹھیک ہے۔ ہاں ملاں جی کی منطقی باتیں تو ایسی ہوتی ہی ہیں مگر یہ کہنا ؒورنہ یہی سلسلہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے بعد سے چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا ؒ تو سمجھ سے باہر ہے کیا آپ سارے دین کو ہی اپنے شعور کے مطابق لانا چاہتے ہیں؟ شعور اتنا بے لگام ہو جائے تو پیچھے چنگیزی ہی رہ جاتی ہے۔ یہ کائنات جس کی بنائی ہوئی ہے اس کےبتائےہوئے اصول عقل کے تابع نہیں بلکہ عقل ان کے تابع ہے اور اسی میں بہتری ہے۔
ویسے آپکی بھی ایک ہی دھن ہے چلا گھما کر مولویوں پر، اس کا تفصیلی جواب تو کوئی مولوی ہی دے سکتا ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ اس کو بدعنوانی سے کیسے جوڑ لیا ہے کیا آپ کو بدعنوانی کا سبب وہ ہی لگتے ہیں۔
۹۷ فیصد سے زیادہ بدعنوانی تو آپ اور میری طرح کے نا نہاد شعوری درسگاہوں کے پڑھے لکھے کر رہے ہیں۔ اور اوپر سے ہڑتالیں بھی کرتے ہیں ہماری تنخواہیں بڑھائیں کبھی کوئی دینی مدرسے کا قاری یا مولوی بھی سٹرائیک پر دیکھا ہے۔
ابھی یہاں آپ بدعنوانی کے موضوع پر ہی اپنی شعوری طاقتوں کو تختہ مشق بنائیں پھر کسی وقت تعلیمی نظام پہ بھی لڑی لے کر آئیں گے اور آپ کو پورا پورا موقعہ دیا جائے گا دل کی بھڑاس کو نکالنے کا
 
پیارے بھائی! بجا فرمایا آپ نے کہ جب ہم ٹھیک ہوں گے تو معاشرہ ٹھیک ہو گا.... یہ بات سننے میں بڑی اچھی لگتی ہے.... مان لیا آپ بڑھے لکھے آدمی ہیں اور آپ جیسے اور بھی بہت پڑھے لکھے ہیں جن کے دماغ پر غلامی کا قفل نہیں لگا ہوا لیکن آپ سے کہیں بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو غلامی سے اپنی زندگی کی ابتدا کرتے ہیں اور وہیں دفن ہو جاتے ہیں.... شعور پھیلتا ہے تعلیم سے اور تعلیم منحصر ہے تعلیمی ڈھانچے پہ، پڑھنے والے پہ، پڑھانے والے پہ اور نصا ب پہ.... اب اس صورت حال میں آپ کیسے سب کو اپنے برابر کھڑا کر سکتے ہیں اور کیسے سارے کا سارے الزام پڑھنے والے پہ ڈال سکتے ہیں.... آپ جانتے ہیں کہ کتنے بچوں مدرسوں میں علم حاصل کرنے جاتے ہیں، بچوں کے ذہن میں کیا ہوتا ہے؟ یہی نہ کہ وہ پڑھنے جا رہا ہے عالم بننے جا رہے ہیں.... ان میں سے کتنے بچے شعور کی سطح کو پہنچتے ہیں؟ وہ بیچارے ساری زندگی اس مکتبہ فکر سے باہر ہی نہیں نکل پاتے، فکر معاش الگ اور احساس محرومی الگ.... اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا سارے کا سارا قصور بچے کا ہے؟ یقینا نہیں، وہ ادارے ہی اس قابل نہیں کہ انہیں دنیا میں جینے کا ڈھنگ سکھا سکیں کیونکہ وہ ادارے ہی ایک خاص مکتبہ فکر کی دکان کو لے کر چلتے ہیں.... دیہاتوں میں تعلیم کی کتنی سہولتیں ہیں، لوگوں کا ذریعہ معاش کیا اس قابل ہے کہ ان کو اچھی تعلیم دلوا سکے؟ ایسے نظام میں صرف چند شعور والے لوگ ہی پیدا ہوتے ہیں اور پھر آپ یہ آس لگا کر بیٹھیں رہیں کہ ہم خود ٹھیک ہوں گے تو نظام ٹھیک ہو گا محض ایک حسرت ہے..... جب تک لوگ ذہنی غلامی سے آزاد نہ ہونگے کچھ بھی نہیں ہو سکتا.....


بات یہ ہے کہ بھائی کہ کیا سارا معاشرہ 1947 سے ہی کرپٹ ہے؟ اگر ایک کرپٹ حکمران یہاں حکومت کر کے اپنے جیسے کئی کرپٹ پیدا کر سکتا ہے تو ایک اچھا حکمران کیوں نہیں ملک کی تقدیر بدل سکتا؟ پاسپورٹ آفس کی مثال آپ کے سامنے ہے.... کیا اس کا سربراہ کوئی ولی اللہ ہے؟ بات ہے اخلاص کی کہ آپ بہتری کے خواہشمند ہیں یا نہیں....
ایسا تو فی الوقت ممکن نطر نہیں آتا.....
پیارے بھائی! علم دنیا میں کیسے پھیلتا ہے؟ شریعت کے احکامات ایک عام قاری کے پاس کیسے آتے ہیں؟ یقینا اس کا بیڑہ عالموں نے اٹھا کر اپنے ہاتھ میں رکھ دیا، آپ آج اختلاف کریں، کل آپ کا سر قلم... یہی رونا تو میں پیٹ رہا ہوں کہ بھائی دین کی دکان جب تک ختم نہیں ہو گی تب تک ایک سادہ لوح شخص سے کیسے آپ "شعور" کی امید لگا سکتے ہیں.... جب آپ نے ان کی سوچ پر ہی پابندی لگا دی اور پھر امید رکھ لی شعور کی، ترقی کی.... اس کے لیے بہت ضروری ہے یہ دکانیں بند کروانا..... شخصیت پرستی آپ کی معاشرے کی جڑ کو کھوکھلا کر رہی ہے اور یہی ایک دوکان ہے جو بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے..... آج اکیسویں صدی میں کتنے لوگوں میں شعور ہے.... ہر آئے روز اسلام کی دکان میں پیر کے ہاتھوں لوگ کتنا ذلیل و خوار ہو رہے ہیں مر رہے ہیں..... کیوں؟ بات پھر وہیں پہ آتی ہے ایک علم والے بندے کا فرض ہے اپنے آدم زاد بھائی تک صحیح بات پہنچانا.... کتنے لوگ یہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں؟ آج ستر سال کے بعد بھی ہم صفر پر ہیں کیوں؟ کیا آپ نے کبھی اپنے نصاب کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا ہے کہ اس میں کیا برائیاں ہیں.... ایک خاص نقطہ نظر تعلیمی نصاب کے ذریعے صرف اپنی دکانداری قائم رکھ کر ملک میں ترقی کی آس لگائے بیٹھا ہے.... ایک ڈاکٹر، ایک انجینیر کیا ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد خود بخود بن جاتا ہے؟ یقینا اس میں اپنی محنت شامل ہے لیکن اس میں بہت بڑا کردار ایک ڈاکٹر یا انجینیئر عالم کا ہوتا ہے.... وہ چاہتا ہے کہ جو علم اس کے پاس ہے وہ صحیح معنوں میں اس کے طلباء تک پہنچے لیکن دین کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں؟ وہاں ہر عالم کیوں چاہتا ہے کہ اس کی دکان بڑھے؟ وہاں وہ کیوں نہیں چاہتا کہ دین بڑھے؟ ظاہر سی بات ہے ایسا کرنے سے اس کی اتھارٹی چیلنج ہو جاتی ہے اسکی دکان بند ہونے کا خدشہ ہے.... اس صورت حال میں جو شخص اس کی غلط بات کو غلط کہتا ہے وہ اسلام کے نام پر یا تو اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے یا معاشرے میں ذلیل ہو جاتا ہے..... پاکستان بننے کے بعد سے ستر سال سے قائم مزہبی دکانداری کا خاتمہ کیونکر ممکن نہ ہو سکا؟ ملک ترقی کیوں نہ کر سکا؟ جب آپ نے دروازے کو باہر سے تالا لگا رکھا ہو اور اس سے باہر کسی کو نکالنا ہی نہ چاہ رہے ہوں تو ایسے میں ترقی یا شعور کی امید فضول ہے.... جو پچھلی صدی میں حاصل کیا ہے وہی آگے بھی چلتا رہے گا اگر یہ بت توڑے نہ گئے.....نفسانی خواہشیں کس شخص میں نہیں ہوتیں؟ ہمیشہ دین کی صحیح تعلیم ہی ان پر قابو پاتی ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ انہیں صحیح رہنمائی کی جائے.... لوگوں کے دماغوں کو کھلی دنیا میں غور و خوض کے لیے چھوڑا جائے..... ان کو غلام بنانے کی بجائے ان کو آزاد کیا جائے.... اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب تک مذہب کے نام پر دکانداری بند نہیں ہوتی.... ورنہ یہی سلسلہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے بعد سے چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا.... ہم ہی اپنوں کے سر کاٹ کر خود ہی ہیرو بنتے رہیں گے اور یہ مذہبی و سیاسی دکاندار اسی طرح اپنی دکان چمکاتے رہیں گے.....
ہتھ ہولا رکھوإ باہمی اختلافات کی حد تک تو ٹھیک ہے۔ ہاں ملاں جی کی منطقی باتیں تو ایسی ہوتی ہی ہیں مگر یہ کہنا ؒورنہ یہی سلسلہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے بعد سے چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا ؒ تو سمجھ سے باہر ہے کیا آپ سارے دین کو ہی اپنے شعور کے مطابق لانا چاہتے ہیں؟ شعور اتنا بے لگام ہو جائے تو پیچھے چنگیزی ہی رہ جاتی ہے۔ یہ کائنات جس کی بنائی ہوئی ہے اس کےبتائےہوئے اصول عقل کے تابع نہیں بلکہ عقل ان کے تابع ہے اور اسی میں بہتری ہے۔
ویسے آپکی بھی ایک ہی دھن ہے چلا گھما کر مولویوں پر، اس کا تفصیلی جواب تو کوئی مولوی ہی دے سکتا ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ اس کو بدعنوانی سے کیسے جوڑ لیا ہے کیا آپ کو بدعنوانی کا سبب وہ ہی لگتے ہیں۔
۹۷ فیصد سے زیادہ بدعنوانی تو آپ اور میری طرح کے نا نہاد شعوری درسگاہوں کے پڑھے لکھے کر رہے ہیں۔ اور اوپر سے ہڑتالیں بھی کرتے ہیں ہماری تنخواہیں بڑھائیں کبھی کوئی دینی مدرسے کا قاری یا مولوی بھی سٹرائیک پر دیکھا ہے۔
ابھی یہاں آپ بدعنوانی کے موضوع پر ہی اپنی شعوری طاقتوں کو تختہ مشق بنائیں پھر کسی وقت تعلیمی نظام پہ بھی لڑی لے کر آئیں گے اور آپ کو پورا پورا موقعہ دیا جائے گا دل کی بھڑاس کو نکالنے کا
 
ہم ستر سالوں سے اچھے کی تلاش میں ہیں ملک کو نظامی لیبارٹری بنایا ہوا ہے کہیں سے نظام اٹھایا اور رائج کردیا کتنے ہی نظاموں کو ہماری لیبارٹری نے فیل کر دیا ہے۔ ہر وقت الزامات کی راگنی گاتے رہتے ہیں۔ اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کرتے۔ جب تک ہم ٹھیک نہیں ہوں گے اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے مگر ہماری اچھے اور برے کو پرکھنے کی کسوٹی خراب ہوئی ہے ورنہ یہان دانشوروں کی کمی نہیں ہے۔ درجنوں چینل ہیں سب ہتھیلی پر سرسوں جما رہے ہوتے ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اداروں کے سربراہ اچھے لگانے کی آپ مے بات کی۔ ہر آنے والی حکومت ڈھونڈ کر اچھے سربراہ لگاتی ہے ، انتہائی نیک اور ایماندار ہوتے ہی مگر ان کی ایمانداری کا محور بھی تو حکومت کا سیٹ کیا ہوتا ہے جیسے میڈیا نے بھی ایک سیٹ کیا ہوا ہے جس میں کوئی بھی مثبت بات شئیر نہیں کی جاتی ، جس میں بحریہ ٹاؤن جیسے واقعات رپورٹنگ کے قابل ہی نہیں سمجھے جاتے۔ یہاں کس کس کی بات کریں؟
 
دلیل سے بات کریں تو شاید مجھ ناچیز سمیت سب کو فائدہ ہو! ہر چیز کو اپنے رنگ میں رنگ کر جزباتی تحریر سے معاملات خراب ہی ہوتے ہیں....
یہی سلسلہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے بعد سے چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا
تاریخ پہ تقدس کی عینک اتار کر نظر دوڑائیں....
کیا آپ سارے دین کو ہی اپنے شعور کے مطابق لانا چاہتے ہیں؟
میں محظ یہ چاہتا ہوں کہ دین کو صحیح معنوں میں پڑھایا جائے.... کیونکہ ساری اخلاقیات مادی علوم سے نہیں، سیاست سے نہیں بلکہ دین سے آتی ہیں.... اور وہ جب تک صحیح نہیں پھیلایا جائے گا تو بد عنوانی سمیت ساری بیماریاں موجود رہیں گی....
شعور اتنا بے لگام ہو جائے تو پیچھے چنگیزی ہی رہ جاتی ہے۔
یہ محظ آپ کا خیال ہے.... تاریخ دونوں طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے.... مزہبی لوگ بھی اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کا سر قلم کرتے آئے ہیں اور غیر مذہبی بھی....
۔ یہ کائنات جس کی بنائی ہوئی ہے اس کےبتائےہوئے اصول عقل کے تابع نہیں بلکہ عقل ان کے تابع ہے اور اسی میں بہتری ہے۔
بالکل اسی کے تابع ہونے چاہیئں.... یہی تو میں بار بار کہ رہا ہوں بھائی کہ گڑبڑ ہے.... دین کے نام پہ دکانیں بن گئی ہیں نہ کہ صحیح دین پھیلانے کی.... اسی کا تو رونا ہے سارا کہ جس نے معاشرے کی اصلاح کرنی تھی وہ طبقہ خود دکانداری کر رہا ہے تو بدعنوانی اور دیگر بیماریاں کیسے ختم ہوں؟؟؟ ہمیشہ اخلاقیات دین سے ہی آتی ہیں تو جب ذمہ داری پوری نہ کی جائے تو اس طرح کے مسائل یقینا پیدا ہونگے.....
میرا سوال یہ ہے کہ اس کو بدعنوانی سے کیسے جوڑ لیا ہے کیا آپ کو بدعنوانی کا سبب وہ ہی لگتے ہیں
اوپر دو دفعہ دہرا چکا ہوں کہ دین کی صحیح تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہی تو ایسے مسائل آتے ہیں کیونکہ دین وہ واحد ذریعہ ہے جو اخلاقیات لے کے آتا ہے.....
۹۷ فیصد سے زیادہ بدعنوانی تو آپ اور میری طرح کے نا نہاد شعوری درسگاہوں کے پڑھے لکھے کر رہے ہیں۔ اور اوپر سے ہڑتالیں بھی کرتے ہیں ہماری تنخواہیں بڑھائیں کبھی کوئی دینی مدرسے کا قاری یا مولوی بھی سٹرائیک پر دیکھا ہے۔
تو نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی دینی تربیت کس نے دی ہے؟ کیا کوئی باہر سے لوگ آئے تھے؟ بھیا جب تک دین کو صحیح نہ پڑھایا جائے گا تو آپ اخلاقیات کو بھول جائیں.... دینی تعلیم کا نصاب کس نے ترتیب دیا ہے؟؟؟ تعلیم ہی تو واحد ذریعہ ہے جس سے معاشرے کی تربیت ہوتی ہے، آپ اور کوئی طریقہ بتا دیں؟
بھی یہاں آپ بدعنوانی کے موضوع پر ہی اپنی شعوری طاقتوں کو تختہ مشق بنائیں پھر کسی وقت تعلیمی نظام پہ بھی لڑی لے کر آئیں گے اور آپ کو پورا پورا موقعہ دیا جائے گا دل کی بھڑاس کو نکالنے کا
 
دین کی صحیح تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہی تو ایسے مسائل آتے ہیں کیونکہ دین وہ واحد ذریعہ ہے جو اخلاقیات لے کے آتا ہے.....

متفق۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں اوسطاً بے دین لوگ اخلاقیات میں بہتر کیوں ہیں۔۔۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
بھائی اوپر کا بندہ ٹھیک ہو گا تبھی وہ نظام میں تبدیلی کا خواہشمند ہو گا.... اور جب تک جزا و سزا کا نظام ٹھیک نہ ہو گا یہی ہوتا رہے گا.... آپ پاسپورٹ آفس کی مثال دیکھ لیں.... کیا وہاں سارا نچلہ طبقہ ٹھیک ہو گیا تھا کہ پورا ڈیپارٹمنٹ ہی بہترین ہو گیا ہے.... یقینا اس میں مجاز اتھارٹی کا بڑا کارنامہ ہے جت نے پور ادارہ ہی بدل کے رکھ دیا.... اسی طرح جب ہر ادارے کا لیڈر ٹھیک ہو گا تھوڑے ہی عرصے میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی....
متفق ہوں، تاہم، یہ واحد شرط نہ ہے کہ سب معاملات سدھر جائیں گے اور حل دیرپا ہو گا۔ سلامت رہیں!!!
 
دلیل سے بات کریں تو شاید مجھ ناچیز سمیت سب کو فائدہ ہو! ہر چیز کو اپنے رنگ میں رنگ کر جزباتی تحریر سے معاملات خراب ہی ہوتے ہیں....

تاریخ پہ تقدس کی عینک اتار کر نظر دوڑائیں....

میں محظ یہ چاہتا ہوں کہ دین کو صحیح معنوں میں پڑھایا جائے.... کیونکہ ساری اخلاقیات مادی علوم سے نہیں، سیاست سے نہیں بلکہ دین سے آتی ہیں.... اور وہ جب تک صحیح نہیں پھیلایا جائے گا تو بد عنوانی سمیت ساری بیماریاں موجود رہیں گی....

یہ محظ آپ کا خیال ہے.... تاریخ دونوں طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے.... مزہبی لوگ بھی اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کا سر قلم کرتے آئے ہیں اور غیر مذہبی بھی....

بالکل اسی کے تابع ہونے چاہیئں.... یہی تو میں بار بار کہ رہا ہوں بھائی کہ گڑبڑ ہے.... دین کے نام پہ دکانیں بن گئی ہیں نہ کہ صحیح دین پھیلانے کی.... اسی کا تو رونا ہے سارا کہ جس نے معاشرے کی اصلاح کرنی تھی وہ طبقہ خود دکانداری کر رہا ہے تو بدعنوانی اور دیگر بیماریاں کیسے ختم ہوں؟؟؟ ہمیشہ اخلاقیات دین سے ہی آتی ہیں تو جب ذمہ داری پوری نہ کی جائے تو اس طرح کے مسائل یقینا پیدا ہونگے.....

اوپر دو دفعہ دہرا چکا ہوں کہ دین کی صحیح تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہی تو ایسے مسائل آتے ہیں کیونکہ دین وہ واحد ذریعہ ہے جو اخلاقیات لے کے آتا ہے.....

تو نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی دینی تربیت کس نے دی ہے؟ کیا کوئی باہر سے لوگ آئے تھے؟ بھیا جب تک دین کو صحیح نہ پڑھایا جائے گا تو آپ اخلاقیات کو بھول جائیں.... دینی تعلیم کا نصاب کس نے ترتیب دیا ہے؟؟؟ تعلیم ہی تو واحد ذریعہ ہے جس سے معاشرے کی تربیت ہوتی ہے، آپ اور کوئی طریقہ بتا دیں؟
اگر آپ کو میری کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معزرت۔
دین کے ماخذ ہی دین کے اندر سب سے بڑی دلیل ہیں اورآ پپوری اسلامی تاریخ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کسی بھی سند کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے۔ کسی نھی چیز کو محض تنقید کی نظر سر نہیںدیکھنا چاہیے بلکہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط آپ کو جو دین اور مبلغ اچھا لگتا ہے اس کو مان لیں مگر دوسرے کے دیں یا مبلغ کو برا نہ کہیں
اخلاق کی بات کرتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں تقدس کا چشمہ اتار کے دیکھوں۔ میں نے تو یہی سیکھا ہے کہ اگر تقدس اور ادب کو چھوڑ دیا جائے تو شیطان اور انسان میں فرق ختم ہو جاتا ہے۔ دوسرا میں دین کو عقل کی کسوٹی پر نہیں بلکہ محبت کی کسوٹی پر پرکھتا ہوں۔ اور ایمان نام ہی اسی چیز کا ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہےکہ ہماری عقل محدود ہے اور جو حکمت و دانائی کا درس دین نےدیا ہے میرے لئے وہ ضابطہ حیات ہے مجھے یہ نہیں دیکھنا کہ کوئی کیا کہتا ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ دین کیا کہتا ہے۔
آپ نے اچھے اخلاق کی بات کی اور یہ بھی کہا کہ دین ہی اچھا اخلاق بتاتا ہے تو پھر مولوی کو چھوڑو دین کی بات کرو کیا ضرورت ہے معاشرے کے اندر تذبذب پیدا کرنے کی
آپ نے تربیت کی بات کی تو تربیت ہمیشہ گھرسے ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے نہ کہ مدرسہ سے اور دوسرا میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ دین کا حاصل کرنا ہر ایک انسان پر فرض ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ تنقید کی بجائے خود دہن سیکھیں اور معاشرے کے اندر کوئی نمونہ پیش کریں اچھے اخلاق کا اچھے حسن معاشرت کا۔ علم نہ ہونا کوئی ایکسکیوز نہیں ہے۔
آپ نے سزا جزا کی بہت خوبصورت بات کی تو میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہر ایک اپنے عمل کا جواب دہ ہے نہ کہ دوسرے کے اعمال کا اور اصلاح معاشرہ کا یہی بنیادی اصول ہے محترم نتائیں اور دلیل کے معانی آپ کے قریب کیا ہیں
 
دلیل سے بات کریں تو شاید مجھ ناچیز سمیت سب کو فائدہ ہو! ہر چیز کو اپنے رنگ میں رنگ کر جزباتی تحریر سے معاملات خراب ہی ہوتے ہیں....

تاریخ پہ تقدس کی عینک اتار کر نظر دوڑائیں....

میں محظ یہ چاہتا ہوں کہ دین کو صحیح معنوں میں پڑھایا جائے.... کیونکہ ساری اخلاقیات مادی علوم سے نہیں، سیاست سے نہیں بلکہ دین سے آتی ہیں.... اور وہ جب تک صحیح نہیں پھیلایا جائے گا تو بد عنوانی سمیت ساری بیماریاں موجود رہیں گی....

یہ محظ آپ کا خیال ہے.... تاریخ دونوں طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے.... مزہبی لوگ بھی اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کا سر قلم کرتے آئے ہیں اور غیر مذہبی بھی....

بالکل اسی کے تابع ہونے چاہیئں.... یہی تو میں بار بار کہ رہا ہوں بھائی کہ گڑبڑ ہے.... دین کے نام پہ دکانیں بن گئی ہیں نہ کہ صحیح دین پھیلانے کی.... اسی کا تو رونا ہے سارا کہ جس نے معاشرے کی اصلاح کرنی تھی وہ طبقہ خود دکانداری کر رہا ہے تو بدعنوانی اور دیگر بیماریاں کیسے ختم ہوں؟؟؟ ہمیشہ اخلاقیات دین سے ہی آتی ہیں تو جب ذمہ داری پوری نہ کی جائے تو اس طرح کے مسائل یقینا پیدا ہونگے.....

اوپر دو دفعہ دہرا چکا ہوں کہ دین کی صحیح تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہی تو ایسے مسائل آتے ہیں کیونکہ دین وہ واحد ذریعہ ہے جو اخلاقیات لے کے آتا ہے.....

تو نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی دینی تربیت کس نے دی ہے؟ کیا کوئی باہر سے لوگ آئے تھے؟ بھیا جب تک دین کو صحیح نہ پڑھایا جائے گا تو آپ اخلاقیات کو بھول جائیں.... دینی تعلیم کا نصاب کس نے ترتیب دیا ہے؟؟؟ تعلیم ہی تو واحد ذریعہ ہے جس سے معاشرے کی تربیت ہوتی ہے، آپ اور کوئی طریقہ بتا دیں؟
اگر آپ کو میری کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معزرت۔
دین کے ماخذ ہی دین کے اندر سب سے بڑی دلیل ہیں اورآ پپوری اسلامی تاریخ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کسی بھی سند کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے۔ کسی نھی چیز کو محض تنقید کی نظر سر نہیںدیکھنا چاہیے بلکہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط آپ کو جو دین اور مبلغ اچھا لگتا ہے اس کو مان لیں مگر دوسرے کے دیں یا مبلغ کو برا نہ کہیں
اخلاق کی بات کرتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں تقدس کا چشمہ اتار کے دیکھوں۔ میں نے تو یہی سیکھا ہے کہ اگر تقدس اور ادب کو چھوڑ دیا جائے تو شیطان اور انسان میں فرق ختم ہو جاتا ہے۔ دوسرا میں دین کو عقل کی کسوٹی پر نہیں بلکہ محبت کی کسوٹی پر پرکھتا ہوں۔ اور ایمان نام ہی اسی چیز کا ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہےکہ ہماری عقل محدود ہے اور جو حکمت و دانائی کا درس دین نےدیا ہے میرے لئے وہ ضابطہ حیات ہے مجھے یہ نہیں دیکھنا کہ کوئی کیا کہتا ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ دین کیا کہتا ہے۔
آپ نے اچھے اخلاق کی بات کی اور یہ بھی کہا کہ دین ہی اچھا اخلاق بتاتا ہے تو پھر مولوی کو چھوڑو دین کی بات کرو کیا ضرورت ہے معاشرے کے اندر تذبذب پیدا کرنے کی
آپ نے تربیت کی بات کی تو تربیت ہمیشہ گھرسے ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے نہ کہ مدرسہ سے اور دوسرا میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ دین کا حاصل کرنا ہر ایک انسان پر فرض ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ تنقید کی بجائے خود دہن سیکھیں اور معاشرے کے اندر کوئی نمونہ پیش کریں اچھے اخلاق کا اچھے حسن معاشرت کا۔ علم نہ ہونا کوئی ایکسکیوز نہیں ہے۔
آپ نے سزا جزا کی بہت خوبصورت بات کی تو میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہر ایک اپنے عمل کا جواب دہ ہے نہ کہ دوسرے کے اعمال کا اور اصلاح معاشرہ کا یہی بنیادی اصول ہے محترم نتائیں اور دلیل کے معانی آپ کے قریب کیا ہیں
 
متفق ہوں، تاہم، یہ واحد شرط نہ ہے کہ سب معاملات سدھر جائیں گے اور حل دیرپا ہو گا۔ سلامت رہیں!!!
بات تو ٹھیک ہے مگر یہ ممکن کیسے ہے؟ کیا کوئی آسمان سے اترے گا
میرے بھائی ہمیں سے آئے گا ہمیں لائیں گے
۷۰ سال سے اسی انتظار میں تو بیٹھے ہیں اس انتظار میں، سمجھتے ہیں کہ تنقید کردی اور بس
نہیں بھائی سب سے پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا پھر دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنا ہوگی
کسی بھی معاشرے کے اندر سوسائٹی ہی لیڈر کا رول ڈیفائن کرتی ہے۔ اچھے لوگ ہر ادارے میں موجود ہیں مگر ہم چاہتے نہیں کہ وہ لوگ آگے آئیں ہمارے اچھائی اور برائی کے معیار بھی مختلف ہیں ہماری تعلیم بھی ہمیں نظریاتی اورمعاشرتی طبقات میں تقسیم کر رہی ہے۔
لہذٓ ایک بات جو انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ ہم دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانا چھوڑدیں اوراپنی اصلاح کریں اور دوسروں کو بھی اخلاق سے تعمیری انداز سے بات سمجھائیں
 

فرقان احمد

محفلین
بات تو ٹھیک ہے مگر یہ ممکن کیسے ہے؟ کیا کوئی آسمان سے اترے گا
میرے بھائی ہمیں سے آئے گا ہمیں لائیں گے
۷۰ سال سے اسی انتظار میں تو بیٹھے ہیں اس انتظار میں، سمجھتے ہیں کہ تنقید کردی اور بس
نہیں بھائی سب سے پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا پھر دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنا ہوگی
کسی بھی معاشرے کے اندر سوسائٹی ہی لیڈر کا رول ڈیفائن کرتی ہے۔ اچھے لوگ ہر ادارے میں موجود ہیں مگر ہم چاہتے نہیں کہ وہ لوگ آگے آئیں ہمارے اچھائی اور برائی کے معیار بھی مختلف ہیں ہماری تعلیم بھی ہمیں نظریاتی اورمعاشرتی طبقات میں تقسیم کر رہی ہے۔
لہذٓ ایک بات جو انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ ہم دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانا چھوڑدیں اوراپنی اصلاح کریں اور دوسروں کو بھی اخلاق سے تعمیری انداز سے بات سمجھائیں
قریب قریب وہی بات ہے، جو میں گزشتہ مراسلات میں کر چکا ہوں۔ اصلاح کا عمل اپنی ذات سے شروع کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد ہم خیال افراد کو ساتھ ملانا چاہیے۔ معاشرے میں اصلاحی تحریکیں چلانے کی ضرورت ہے۔ میں تو کافی حد تک مطمئن ہوں۔ بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ شعور بیداری کا عمل کم رفتار کے ساتھ ہی سہی، جاری و ساری ہے۔
 
اصل سوال یہ تھا کہ حکومتی سطح پر جب تمام ادارے اس بد عنوانی کے ناسور کو ختم کرنے میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر سکے بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ادارے ایک دودرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ توایسے حالات میں کیا سٹریٹجی اپنائی جانی چاہیے جو آپ سمجھتے ہیں کہ زیادہ موزوں ہے۔
آپ نے کہا کہ اداروں کے سربراہ اچھے آ جائیں تو یہ پریکٹس تو شروع سے جاری ہے بلکہ نئے ادارے اور قوانیں بھی بنائے گئے مگر ان اداروں اور سربراہوں کو بھی سیاسی انتقام کے لئے استعمال کی جاتا رہا
کیا ایسا کوئی ادارہ ہے جس کا سربراہ بھی نہ بدلنا پڑےاور اس کی پروفائل میں پرفارمنس کے نمونہ جات بھی ہوں؟
 

فرقان احمد

محفلین
حکومتی سطح پر جب تمام ادارے اس بد عنوانی کے ناسور کو ختم کرنے میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر سکے بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ادارے ایک دودرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ توایسے حالات میں کیا سٹریٹجی اپنائی جانی چاہیے جو آپ سمجھتے ہیں کہ زیادہ موزوں ہے۔
اس سوال کو دو طرح سے لیجیے صاحب!
کیا ہونا چاہیے؟
کیا ہے؟
جو کچھ ہے، وہ تو یہ ہے، کہ بہتری کا عمل آہستہ روی سے جاری ہے، بدعنوانی میں کسی حد تک کمی واقع ہو ئی ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ آہستہ آہستہ اداروں کی کارکردگی مزید بہتر ہوتی چلی جائے گی۔ دیکھیے، اداروں کو مضبوط ہوتے ہوئے وقت لگتا ہے؛ یہ فطری عمل ہے۔
اور 'کیا ہونا چاہیے' کی ذیل میں بہت کچھ آتا ہے۔ جب آپ بہت جلد نتیجہ مانگتے ہیں تو پھر ان پٹ بھی ویسی ہی ہونی چاہیے۔ آپ اگر فوج سے بدعنوانی ختم کرنے کا کام لیں گے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ۔۔۔!!! اب یہاں محترم جنرل کیانی کے بھیا جی کا ذکر اچھا لگے گا؛ کیا فوج نے ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا؟ محترم چودھری صاحب (افتخار جی) کے صاحب زادے کیا کیا گُل کھلاتے رہے؟ کوئی ایکشن لیا گیا ۔۔۔ اس کا ایک ہی جواب ہے، این آر او، اول، دوم یا سوم ۔۔۔ عین اس وقت جب ہمارے کسی جرنیل کو سچ مچ حب الوطنی کا دورہ پڑ جائے تو انہیں سعودیہ روانہ کر دیا جاتا ہے، باقی کے معاملات شیخ صاحبان بذاتِ خود دیکھ لیتے ہیں کیوں کہ یہ تصور کرنا بھی بڑا عجیب ہے کہ ان اداروں میں بھی فرشتے بیٹھے ہیں ۔۔۔

تو پھر ۔۔۔
جنابِ من!

اپنی اصلاح، شعور بیداری تحریکوں، اصلاحی تحریکوں، وغیرہ وغیرہ کے بعد ملک میں فضا بنے گی بڑی تبدیلی کے لیے ۔۔۔ جو کہ بن بھی رہی ہے ۔۔۔ !!! آپ بھی اپنے حصے کا کام کرتے جا رہے ہیں، یہ مراسلہ بھی شعور بیداری میں شامل ہے۔ تو پھر؟ بہتری کی امید رکھنا بے کار نہیں :)
 
Top