سید شہزاد ناصر
محفلین
(اسد فاطمی)
گوجرانوالہ ملک کا ساتواں بڑا شہر ہے اور ہر بڑے شہر کی طرح بدلتا رہا، اور بدل رہا ہے۔ تمدن کے ‘دوری جدول’ پر بدلتے ادوار میں یہ بھی ویرانے سے آبادی اور آبادی سے پر رونق شہر بننے کے مرحلوں میں اپنی شہری حدود وضع کرتا اور پھر اس وضیعت میں رد و بدل کرتا رہا ہے۔ اِن حدوں سے باہر دنیا میں ایک صحتمند شناخت ابھار کر خود ہی اس شناخت سے عملی طور پر مکر چکا شہر گوجرانوالہ کتابوں اور پرانے اخباروں میں پہلوانوں کا شہر کے لقب سے باتوں، گپوں اور کہاوتوں کا حصہ ہے۔صنعت و حرفت، ثقافت و سیاست، فنون لطیفہ اور ہر تمدنی حوالے میں اپنے آغوش میں کئی ایک زورآور ناموں کا حامل ہونے کے باوجود،جب بھی اِس شہر کا نام کوئی اچھے حافظے والا سنتا ہے تو کھلے اکھاڑوں میں ڈھول کی ڈھماڈھم پر ایک دوسرے کو اکھاڑتے پچھاڑتے کسرتی شانے بازؤوں والے گبھرو، شعور کی سکرین پر ایک لازم و ملزوم حوالے کی طرح کودنے ناچنے لگتے ہیں۔ اسے ایک شخصی رائے بھی کہا جا سکتا ہے کہ گوجرانوالہ اب ایک بوڑھا پہلوان ہے جس نے بالی عمر میں حرب و جنگ، قلعہ بندیوں اور شمشیر و سناں کی ہمرکابی میں دنیا کے رنگوں کو تجربہ کیا۔ ایک چاردیواری اور ایک گنجان کنبہ پانے کے بعد اپنی معیشت کو سدھارا۔ پختگی اور آسودگی آئی تو اکھاڑے کشتی کا مشغلہ اپنایا۔ پورے جوبن میں دِن بھر کشتی کرتا، دودھ ماکھن سے جان بناتا اور ڈنڈ پیل کر چھاتی تھپتپاتا۔ شام پڑے شعر و سخن اور رقص و موسیقی کے آغوش میں مزاج کو تر رکھتا۔ اولیاء کے دواروں پر جھاڑو پھیرکر روح کو روشن رکھتا اور رام رحیم کے اختلافی جھنجھٹ سے بارہ پتھر دور رہتا۔ رام رحیم کی “تمیز” بیدار ہوئی تو اپنے آدھے کنبے سے روٹھ کر اپنا گھرانہ کچھ سکیڑ لیا۔جہادِ کشمیر اور جہادِ افغانستان کی بادِ سموم چلی تو لنگوٹ کو اُلٹا پہن کے محاذوں کا رُخ بھی کیا اور اَن گنت زخم لے کر واپس لوٹا۔توند بڑھی تو لنگوٹ اتار کر بَل دار مونچھ ترشوا دی، ڈاڑھی رکھ کے اجلا شلوار قمیص پہن لیا۔یہ بوڑھا پہلوان اب دوسرے کاروبارِ حیات میں مگن ہے، لیکن جمعے کے وقفے میں خطبہ سن کر نت کسی نئے سازشی نظریے پر بھڑک اٹھتا ہے۔اب وہ اپنےجوبن کے ازیادرفتہ دنگلوں کے قصے چھِڑتے ہی سر جھٹک کر موضوع بدل لیتا ہے۔ اس کنبے کی نئی پود پچھلی پود کے اُن بوسیدہ لنگوٹوں سے، جو ماضی کے “تعفن” سے بھری ہے، جان چھڑوا کر کسی نئی شناخت کی تلاش میں ہے۔ شناختی نشانوں کی بنیادیں اگر اپنی زمین کھود کر رکھنے کی بجائے کسی ان دیکھے آسمان سے اُتاری جائیں تو ایسی کھوج میں لامحالہ طور پر ہیجان اور اضطراب ہاتھ آتا ہے۔ تاہم یہ اضطراب صرف گوجرانوالہ کا ذیلی مباحث نہیں ہے، نئی پود کا قومی المیہ ہے۔ ہمیں یہاںصرف اس مضطرب اور تبدیلی کی تلاش میں بے مہابہ بدلتے ہوئے سبکدوش پہلوان کا ذکر کرنا ہے۔
گوجرانوالہ کے نیچے دبی تہوں میں اگرچہ ہزاروں سال پرانی بُدھ تہذیب کے خرابے مدفون ہیں لیکن اس شہر کی اپنی تاریخ چند ایک صدیوں پر محیط ہے۔کوئی پانچ صدیاں پہلے تک یہاں جرنیلی سڑک کے آس پاس قریب و دور پھیلے ہوئے مختلف قبیلوں کے گاؤں، چھوٹی بڑی قلعہ بند یا کھلی آبادیاں کھلیان اور چراگاہیں نظر آتی ہیں۔ اِسے قطعی طور پر قدیم تہذیبوں کے تمدنی ورثے کا حامل شہر ثابت کرنے کی کسی بھی کامیاب کاوش کو شاید ابھی کچھ وقت درکار ہے۔ اب سے تقریباً پانچ سو سال قبل ساہنسی قبیلے کے ایک سردار خان جان نے باقاعدہ طور پر یہاں خان پور ساہنسی کے نام سے جو قصبہ آباد کیا تھا،بعد ازاں گوجر جاٹوں کے ہاتھوں ایک خونریز لڑائی میں چھِن جانے کے بعد گوجراں والاکہلایا۔ سکھوں کے قبضے تک یہی گوجر قبیلہ اِس کے سردار کی حیثیت سے تاجِ مغلیہ کو خراج ادا کرتا رہا۔یہاں کے علاقہ کھیالی کی سکھ آبادی کے چڑت سنگھ سے زمین پر کچھ تنازعے رہے، جس پراُس بیتاب جوان نے اپنے ننھیال، موضع راجہ سانسی (امرتسر) جا کر سورماؤں کا ایک جتھا بنانا شروع کیا۔ چڑت سنگھ، جو سردار مہاں سنگھ کا باپ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دادا تھا، امرتسر سے نکلا اور سیالکوٹ اور گجرات کو تاراج کرتا ہوا کھیالی میں اپنے رشتہ داروں سے معرکہ آرا ہوا اور کھیالی پر قبضہ کر لیا۔اُس کی عمر نواحات کے چھوٹے بڑے قبائلی سرداروں پر اپنی طاقت باور کرانے کی کامیاب کوشش میں صرف ہوئی اور اس کے نوجوان بیٹے مہاں سنگھ نے سیدنگری اور دوسرے علاقے فتح کر کےاپنی طاقت کا لوہا منوایا۔مہاں سنگھ پنجاب کی اس سکھ سلطنت کی داغ بیل ڈالنے والا سردار تھاجس سلطنت کو یہیں گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے اس کے بیٹے رنجیت سنگھ نے بعد میں کابل سے ملتان تک پھیلا دیا تھا۔رنجیت دس سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، اِس نے حرب و ضرب کے ساتھ ساتھ اس شہر میں باغات، حویلیاں، آبدارخانے، عشرت کدے اور کنویں بنوائے اور اس تمدن کو اور نکھارا جس کی بنیادیں اس کے باپ اور اس سے پہلے کے سرداروں نے رکھی تھیں۔ گوجرانوالہ رنجیت سنگھ کا پایہَ تخت رہا تا وقتیکہوہ تختِ لاہور پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا۔سنگھا شاہی دور انگریز کے پنجاب پر قابض ہونے کے بعد اپنے تمدنی خواص شہر کی ثقافت کو دے کر رخصت ہو گیا۔ تن سازی، خوش خوراکی، خوش گپیاں، دَنگل، تھڑے، شمشیر زنی، موسیقی، نیزہ بازی، بھنگڑا، کہاوتیں، گُرو سِمرن، یادِ الٰہی… انگریزوں کی آمد ایک عرصے تک محض ایک سیاسی اور انتظامی تبدیلی ہی رہی۔
ریل آئی تو پنجاب کا مرکز، لاہور اور بھی قریب آ گیا۔ ابھرتی ہوئی جدید صنعت اور سائنسی تعلیمات کی برکات نے آنکھوں کو خیرہ کیا تو سیاست، صحافت، اطلاقی سائنس، فلسفہ، صنعت اور سماجیات کا چٹخارا بھی تیتر بٹیر بھونتے ڈھابوں، تھڑوں اور بازاروںمیں رچتا بستا گیا۔شہر کی راتوں کو کتاب و خواب اور شباب و کباب برابر رومان پرور بناتے رہے اور پرندِ صبح کی ککڑوں کوں پر اسی گھر سے ایک بھائی لنگوٹ کَسے اکھاڑے کو روانہ ہوتادوسرا پتلون پہنے اسٹیشن سے “باؤ ٹرین” پکڑ کر لاہور میں فیکٹری یا یونیورسٹی کی راہ لیتا۔ بازاروں میں مضافاتی دستکار روزمرہ برتنے کی چیزیں بیچتے اور عام صارف بھاؤ چکا کر گھر لے آتے۔ ادھر قانونگو شیخ اور کھتری مہاجن بہی کھاتوں پر قلم گھمانے میں مشغول نظر آتے۔ نکڑ پر گردوارے، مندر، خانقاہیں اپنے اپنے روحانی باجگزاروں سے اپنے حصے کا چڑھاوا وصول کر کے دعا کا سنکھ پھونکتے۔ادھر دفتروں، چائے خانوں اور تھڑوں پر طرہ دار پگڑیوں، نہرو ٹوپیوں، خاکساری وردیوں اورلیگی قراقلیوں والے اپنے اپنے انداز میں تبدیلی کی تجویزوں پر بحث کرتے بھی نظر آتے۔کسی اکٹھ میں یہاں کے سوامی رام تیرتھ سوراج کی ویدانت سے وضاحت کرتے پائے جاتے، ادھر باؤ ٹرین سے اترنے والے بابو سیالکوٹ اور لاہور سے لائے اقبال کی نظموں کے مسودے اونچے سے پڑھ کر کسی نشاطِ ثانیہ کا متبادل پیش کرتے۔ پٹڑی کے سر پر نیتاجی سبھاش چندربوس کی انڈین لبریشن آرمی کے دفتروالے چوبارے سے کوئی انقلاب زندہ باد کا نعرہ کستا اور یوں تبدیلی کی للک میں عوامی سطح پر سرگوشیاں ہوتی رہیں۔ شعر و سخن کی بیٹھکوں سے امرتا پریتم، ن.م راشد اور عبدالحمید عدمؔ جیسے لوگ ابھرے۔دوسری جانب سرور و کیف کے متلاشیوں کے لیے استادانِ موسیقی تانوں پلٹوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے جوہر دکھاتے اور دائرے میں بیٹھے کَن رَس دل میں ماترے گنتے ہوئے سَم آتے ہی ہم آواز ہو کر ہاتھ اُٹھائے “ہا” کہہ کر داد دے دے نہال ہو جاتے، اوپرچھجے پر لگی لال بتی جلتی بجھتی اپنا رزق سمیٹنے میں مگن رہتی… یہ پرانا گوجرانوالہ ہے۔
سن ۴۷ء میں تبدیلی آ گئی۔ کاروبار پر ہندو چھائے ہوئے تھے۔ زرعی پیداوار سکھوں کے ہاں تگڑی تھی۔فنونِ لطیفہ کے میدان اور کشتی کے اکھاڑوں میں، اور منڈی کے صارفین مسلمان تھے۔ معاشی آزادی ملنے کے بعد بزازی دھندا شیخوں کے پاس آ گیا، ظروف، دھات کی مصنوعات اور کچھ دوسری گھریلو صنعتیں مغلوں نے سنبھال لیں۔ ہندو سکھ آبادی کی ہجرت سے جو خلاء پیدا ہوا تھا، ہندوستانی پنجاب سے آئے مہاجرین نے کچھ حد تک پُر کیا۔پھر جنگِ کشمیر کے بعد کشمیری مہاجرین کی بڑی تعداد کی میزبانی کرنے والے شہر گوجرانوالہ میں کشمیری مہاجر بستی، آبادی میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوئی۔ ان مہاجرین نے سرکاری طور پر کسی الاٹمنٹ کے انتظار سے عاجز آ کر انہی خیموں کو مکانات کی شکل دے لی اور یہیں رہنے لگے۔ نصف صدی سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی یہ درجہ دوم کے شہری اور کئی ایک بنیادی شہری و جمہوری حقوق سے محروم ہیں۔ شہر میں چھوٹا کاروبار زیادہ تر انہی کشمیریوں نے سنبھال رکھا ہے۔
بعد از تقسیم سرکاری تبادلوں کے چکر مصطفےٰ زیدی جیسے لوگوں کو گوجرانوالہ کی رونقیں بڑھانے کا بہانہ فراہم کرتے رہے، اسیر عابد نے غالب کا پنجابی ترجمہ ایسے کیا کہ غالب کی دلی، گوجرانوالہ سے ہاتھ بھر فاصلے پر دِکھنے لگی۔ دلدار پرویز بھٹی نے اپنی “پنجند” سے پانچ دریاؤں میں اپنی زبان کا وہ شہد گھولا کہ پنجاب کے لوگ اس میں گھلے اس زہر کو بھول گئے جس کا رونا روتی ہوئی گوجرانوالہ کی امرتاپریتم یہاں سے گئی تھی۔ اپنے اپنے ذرائع میں منور ظریف، سہیل احمد عزیزی، یونس بٹ جیسے لوگوں کی زندہ دل طبیعتیں بدترین ہیجان میں بھی مسکراہٹوں کا سامان بہم پہنچاتی رہیں، اور پہنچا رہی ہیں۔
ضیاء عہد میں ہونے والی روس امریکہ سرد جنگ اور ۹۰ء کی دہائی کی جہادِ کشمیر میں مجاہدین کی برآمد اور محاذوں سے لاشوں کی درآمد میں گوجرانوالہ پنجاب کے سبھی شہروں سے آگے رہا۔چاروں صوبوں کے جوانوں تک جذباتی مواد کی کمک پہنچانے والا جہادِ کشمیر کا روحانی قبلہ، لشکرِ طیبہ کا مرکز بھی لاہور اور گوجرانوالہ کے درمیان، مریدکے ضلع گوجرانوالہ میں قائم کیا گیا۔پرجوش تقریروں کی بمباری کرنے والے لاؤڈ اسپیکروں پر کسی بھی قانون کا عملی نفاذ تقریباً ناپید ہونے لگا۔ چوتھے مارشل لاء کے نفاذ تک لاؤڈ اسپیکر کی طاقت عوامی سطح پر اس قدر سکہ بند ہو چکی تھی کہ اب ریاست کے لیے اپنے ہی اس اقدام سے پسپائی مشکل ہو گئی تھی۔نوگیارہ کے بعد تک جہادِ کشمیر کے انگارے یہاں کی گلی محلوں میں کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھےلیکن ایک نسبتاً بڑا ہیجان آبادی کو آسیب کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ مشرف کا دَور، پچھلے فوجی عہد سے بالکل متضاد، روشن خیالی اور عصبیت سے پسپائی کے نعرے لے آیا۔ صنعتی سرمائے پر توجہ، ہائر ایجوکیشن پر سرمایہ کاری اور افرادی سرمائے کی برآمد وغیرہ۔ گوجرانوالہ جیسے سماجی طور پر ترقی پذیر شہر کے لیے ان عالمی و مقامی حالات میں ان نعروں کے بہت سے فوائد ضرور تھے، لیکن یہ بھی ہیجان کو بڑھانے کا سبب ہی بنے۔پچھلی کچھ دہائیوں سے اس شہر کی سماجی صورتحال یہ تھی کہ یہاں کا اکثریتی متوسط طبقہ اب تک سیکھے اور سکھائے گئے قبائلی طرز عمل کو دماغ سے کھرچے بغیر جدید معاشی، تعلیمی اور سماجی اداروں سے وابستہ ہوکر آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ ان تضادات کے ساتھ معیشت کے بین الاقوامی دھارے میں شامل ہو کر یہ طبقہ ایسے خوفناک اجتماعی نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوا، جو نو گیارہ کی بعد کی دنیا میں اور بھی زیادہ ہولناک تھے۔ پہلوانوں کی اولادیں لنگوٹیں چھوڑ کر رنگلی ٹائیاں لگائے اکاؤنٹنسی اور آئی ٹی پڑھنے میں لگے تھے۔ متوسط طبقے کی خواتین بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر میں کام کرنے لگیں۔ ان تضادات میں شناخت کا بحران جس نفسیاتی مسئلے کا پیش خیمہ ہوتا ہے، اسپیکروں کے بھونپو ایک فکری طور پر تساہل پسند طبقے کے لیے نہایت آسان متبادل ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تعلیمی اور معاشی کیرئیر کی خواہش اور ان ممالک سے شدید نفرت کے متضاد جذبوں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی وجہ سے اس وقت غازی عامر چیمہ شہید جیسے جوان گوجرانوالہ کے اکثر نوجوانوں کے نزدیک ایک مثالی شخصیت ہیں۔زندگی کے دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ پارلیمانی سیاست میں روایتی پگڑیوں کی جگہ نوجوان خواتین کے آنے پر ایسے تضادات جس طرح کے اضطراب کو جنم دیتے ہیں اس کا عملی نمونہ فروری ۲۰۰۷ء میں گوجرانوالہ کی نوجوان صوبائی وزیر ظلِ ہما کے قتل کی صورت میں نظر آتا ہے، جسے شہر کے ایک مولوی نے صرف اس وجہ سے قتل کیا تھا کہ ہمارے سماج میں عورت کو حکمرانی دینا معیوب ہے اور مزید یہ کہ مقتولہ کا لباس اسے پسند نہیں تھا۔ ایسے واقعات قبائلی دور کی تین صدی پرانی اس ذہنیت کی بازگشت ہیں جب چڑت سنگھ کی موت ہوئی تو اس کے بیٹے مہاں سنگھ کے کمسن ہونے کی وجہ سے چڑت سنگھ کی بیوہ مہارانی دیساں نے حکومت سنبھالی جبکہ مہاں سنگھ نے جوان ہوتے ہی اپنی ماں کو جان سے مار کے پنجاب اور گوجرانوالہ کا تخت و تاج سنبھال لیا… مقامِ افسوس یہ ہے کہ ظلِ ہما کے قتل کا واقعہ ایک علامت کے طور پر حقوقِ نسواں اور جمہوری حلقوں میں جس سطح کے احتجاج کا مستحق تھا، اس پر ویسا پُرزور ردعمل دیکھنے میں نہ آ سکا۔ یہ مولوی سرور کے ہاتھوں پچھلے دو سالوں میں چوتھی خاتون کا قتل تھا۔گوجرانوالہ جہاں گوندلانوالہ جانے والے راستے پرایک طرف کرشن نگر اور دوسری طرف بستی اسلام آباد کے ہندو مسلم باسی شادی بیاہ اور تہواروں میں صدیوں تک ایک دوسرے کے غموں خوشیوں کے ساتھی رہے تھے، اسی شہر میں ابکسی کوبنامِ خدا زندہ جلا دینا ایک کارِ خیر بن چکا تھا۔ حافظ فاروق سجاد کو اینٹوں سے بیچ چوراہے میں اینٹوں سے سنگسار کر کےجلا ڈالنے کا واقعہ اور ان پڑھ بچے سلامت مسیح پر توہین آمیز عبارت لکھنے کا مقدمہ ماضی بعید کی باتیں نہیں ہیں۔
شہر کی سماجی صورتحال کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس دور کی کئی ایک روشن مثالیں بھی یہاں نقل کی جا سکتی ہیں لیکن یہاں ان تاریک مثالوں سے ان دو دہائیوں کی نمائندگی محض اس لیے کی گئی ہے کہ عمومی رویوںمیںاس اندازِ فکر کی خفی یا جلی حمایت کا طرز عمل شہر میں اکثریت کے ہاں ملتا ہے۔
صنعت و حرفت کے باب میں شہر کی شناخت گھریلو صنعت یا کاٹیج انڈسٹری کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ گھریلو استعمال کی اشیاء بنانے والے عام بازاروں اور محلوں میں قائم چھوٹے کارخانے شہری معیشت کی ریڑھ ہیں۔ اگرچہ اب شہر کے گرد بڑے کارخانوں کا جال بچھتا ہوا نظر آتا ہے لیکن وہ اس قدر قابلِ ذکر نہیں ہے کہ اسے دوسرے بڑے شہروں کی بڑی صنعت کے حریف کے طور پیش کیا جا سکے۔ لیکن ایک رواں دواں معیشت ہونے کے باوجود گوجرانوالہ اب تک ملک میں بحساب پیداوار سب سے کم ٹیکس ادا کرنے والا شہر ہے۔
تقسیم ہند کے وقت یہاں خالصہ کالج کے علاوہ ایک ہندو کالج موجود تھا۔ اس وقت یہاں کئی ایک قابلِ ذکر تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن ساتھ میں جدید اداروں کے ساتھ مدارس کی تعداد کے قریب ترین تناسب کے حوالے سے بھی یہ شہر پنجاب میں سب سے اوپر ہے۔
سنگھاشاہی عہد میں پروان چڑھنے والا تمدن جس میں سبھی طاقتوں کا صدور دست و بازو کی طاقت سے ہوتا تھا، پروان چڑھنے والی کسرت، تن سازی اور جسمانی ریاضتوں کی ثقافت نے پنجاب کے روایتی چکنے اور لحمیاتی کھانوں کی روایت کو گوجرانوالہ میں ایک منفرد انداز بخشا۔ دودھ، گھی، گوشت، مکھن اورخشک میووں سے بنے دَم دار کھاجے اور مشروب یہاں کی خاص شناخت ہیں۔ تیز مصالحوں کو یہاں بہت بعد میں شرفِ اقبال ملا لیکن اب یہ ہر ڈھابے کے باورچیوں کی ترکیب میں شامل ہیں۔ بھُنے ہوئے بٹیر، چِڑے اور مرغ تیار کرنے اور کھانے کھلانےمیں یہاں کے باسیوں کے ذوق پر اہلِ لاہور تک رشک کھاتے ہیں۔ دَنگل اور اکھاڑوں میں یہ شہر لاہور کے پہلوانوں کے لیے ایک برابر کی ٹکر رہا ہے۔ اس کھیل میں لاہور اور امرتسر اس کے روایتی حریف رہے ہیں لیکن پہلوانوں کا شہر کہانے کا اعزاز اسی شہر کے حصے میں آیا۔ روایتی پہلوان چونکہ بچپن ہی سے لنگوٹ باندھ کر صبح شام اکھاڑے میں ڈنڈ بیٹھکوں اور داؤ پیچ کے شغل میں رہتے، اس لیے یہ کام سماجی طور پر ایک طرح کے تیاگ کا کام سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلوانوں کی اکثریت جسمانی طور پر جتنی قوی اور ناقابلِ تسخیر ہوتی، ان کی باطنی شخصیت اتنی ہی کھری اور سادہ لوح ہوتی۔ لہٰذا تجربے میں آیا ہے کہ بعد کی سماجی اور تعلیمی طور پر نسبتاً زیادہ “پیچیدہ” شخصیتوں کی مالک پود کے لیےان سادہ لوح لوگوں سے متعلق کسی شناخت کی وابستگی ایک استہزائی حوالہ اور ماضی کا لطیفہ سمجھی جانے لگی ہے۔اس فن سے وابستہ چند ایک خانوادے، شائقین کے شوق بدلنے کے باوجود، روایت کے تسلسل کی خاطر دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے، جیسے تیسے فن کی منتقلی اپنی اگلی نسل کوکر رہے ہیں۔ضلعی و صوبائی حکومت اور انفرادی شائقین کی طرف سے مختلف موسمی دنگل سجائے جانے کی خبریں بھی سننے میں آتی ہیں، لیکن اب ثقافت کے رنگ بدلنے اور اکثریت کی والہانہ دلچسپی نہ رہنے کی وجہ سے یہ ماضی کی طرح کی شہری عوامی سرگرمی کا روپ نہیں دھار پاتے۔
گوجرانوالہ کے ایک ڈھابے میں بٹیر کھاتے ہوئے ایک جدید وضع کے نوجوان سے جب راقم نے “پہلوانوں کے شہر” کا مذکور چھیڑا تووہ اُچٹ کر کہنے لگا؛ “یہاں اب ماضی جیسے بڑے پہلوان پیدا نہیں ہوتے، اور ویسے پہلوان تو دوسرے شہروں میں بھی رہے… اسے صرف انسانوں کا شہر کہا جائے… پہلوانوں کا نہیں…”۔۔ اس تاثر نے شہر کی نئی پود سے بہت کچھ کہنے کی گنجائش نکال دی ہے۔۔اگر گھڑی بھر اُن پہلوانوں کو انسانوں کی صف سے نکال کر بھی دیکھا جائے، تو یہ وہ نابغے تھے، جنہوں نے پہلوانی میں دوسرے شہروں کے زورآوروں کو پچھاڑ کر، اپنے شہر کو پہلوانوں کا شہر کہایا… انسانوں کا شہر کہانے کے لیے اب یہاں کے نابغوں کو پھر سے دوسرے شہروں سے انسانیت میں سبقت لینا ہوگی… اسے انسانوں کا شہر کہانے کے لیے، معاصر تمدن کے حضورماضی جیسے بڑے انسان نمو دینے کا عہد کرنا ہو گا…
ربط
http://www.laaltain.com/بدلتے-شہرگوجرانوالہ/
گوجرانوالہ ملک کا ساتواں بڑا شہر ہے اور ہر بڑے شہر کی طرح بدلتا رہا، اور بدل رہا ہے۔ تمدن کے ‘دوری جدول’ پر بدلتے ادوار میں یہ بھی ویرانے سے آبادی اور آبادی سے پر رونق شہر بننے کے مرحلوں میں اپنی شہری حدود وضع کرتا اور پھر اس وضیعت میں رد و بدل کرتا رہا ہے۔ اِن حدوں سے باہر دنیا میں ایک صحتمند شناخت ابھار کر خود ہی اس شناخت سے عملی طور پر مکر چکا شہر گوجرانوالہ کتابوں اور پرانے اخباروں میں پہلوانوں کا شہر کے لقب سے باتوں، گپوں اور کہاوتوں کا حصہ ہے۔صنعت و حرفت، ثقافت و سیاست، فنون لطیفہ اور ہر تمدنی حوالے میں اپنے آغوش میں کئی ایک زورآور ناموں کا حامل ہونے کے باوجود،جب بھی اِس شہر کا نام کوئی اچھے حافظے والا سنتا ہے تو کھلے اکھاڑوں میں ڈھول کی ڈھماڈھم پر ایک دوسرے کو اکھاڑتے پچھاڑتے کسرتی شانے بازؤوں والے گبھرو، شعور کی سکرین پر ایک لازم و ملزوم حوالے کی طرح کودنے ناچنے لگتے ہیں۔ اسے ایک شخصی رائے بھی کہا جا سکتا ہے کہ گوجرانوالہ اب ایک بوڑھا پہلوان ہے جس نے بالی عمر میں حرب و جنگ، قلعہ بندیوں اور شمشیر و سناں کی ہمرکابی میں دنیا کے رنگوں کو تجربہ کیا۔ ایک چاردیواری اور ایک گنجان کنبہ پانے کے بعد اپنی معیشت کو سدھارا۔ پختگی اور آسودگی آئی تو اکھاڑے کشتی کا مشغلہ اپنایا۔ پورے جوبن میں دِن بھر کشتی کرتا، دودھ ماکھن سے جان بناتا اور ڈنڈ پیل کر چھاتی تھپتپاتا۔ شام پڑے شعر و سخن اور رقص و موسیقی کے آغوش میں مزاج کو تر رکھتا۔ اولیاء کے دواروں پر جھاڑو پھیرکر روح کو روشن رکھتا اور رام رحیم کے اختلافی جھنجھٹ سے بارہ پتھر دور رہتا۔ رام رحیم کی “تمیز” بیدار ہوئی تو اپنے آدھے کنبے سے روٹھ کر اپنا گھرانہ کچھ سکیڑ لیا۔جہادِ کشمیر اور جہادِ افغانستان کی بادِ سموم چلی تو لنگوٹ کو اُلٹا پہن کے محاذوں کا رُخ بھی کیا اور اَن گنت زخم لے کر واپس لوٹا۔توند بڑھی تو لنگوٹ اتار کر بَل دار مونچھ ترشوا دی، ڈاڑھی رکھ کے اجلا شلوار قمیص پہن لیا۔یہ بوڑھا پہلوان اب دوسرے کاروبارِ حیات میں مگن ہے، لیکن جمعے کے وقفے میں خطبہ سن کر نت کسی نئے سازشی نظریے پر بھڑک اٹھتا ہے۔اب وہ اپنےجوبن کے ازیادرفتہ دنگلوں کے قصے چھِڑتے ہی سر جھٹک کر موضوع بدل لیتا ہے۔ اس کنبے کی نئی پود پچھلی پود کے اُن بوسیدہ لنگوٹوں سے، جو ماضی کے “تعفن” سے بھری ہے، جان چھڑوا کر کسی نئی شناخت کی تلاش میں ہے۔ شناختی نشانوں کی بنیادیں اگر اپنی زمین کھود کر رکھنے کی بجائے کسی ان دیکھے آسمان سے اُتاری جائیں تو ایسی کھوج میں لامحالہ طور پر ہیجان اور اضطراب ہاتھ آتا ہے۔ تاہم یہ اضطراب صرف گوجرانوالہ کا ذیلی مباحث نہیں ہے، نئی پود کا قومی المیہ ہے۔ ہمیں یہاںصرف اس مضطرب اور تبدیلی کی تلاش میں بے مہابہ بدلتے ہوئے سبکدوش پہلوان کا ذکر کرنا ہے۔
گوجرانوالہ کے نیچے دبی تہوں میں اگرچہ ہزاروں سال پرانی بُدھ تہذیب کے خرابے مدفون ہیں لیکن اس شہر کی اپنی تاریخ چند ایک صدیوں پر محیط ہے۔کوئی پانچ صدیاں پہلے تک یہاں جرنیلی سڑک کے آس پاس قریب و دور پھیلے ہوئے مختلف قبیلوں کے گاؤں، چھوٹی بڑی قلعہ بند یا کھلی آبادیاں کھلیان اور چراگاہیں نظر آتی ہیں۔ اِسے قطعی طور پر قدیم تہذیبوں کے تمدنی ورثے کا حامل شہر ثابت کرنے کی کسی بھی کامیاب کاوش کو شاید ابھی کچھ وقت درکار ہے۔ اب سے تقریباً پانچ سو سال قبل ساہنسی قبیلے کے ایک سردار خان جان نے باقاعدہ طور پر یہاں خان پور ساہنسی کے نام سے جو قصبہ آباد کیا تھا،بعد ازاں گوجر جاٹوں کے ہاتھوں ایک خونریز لڑائی میں چھِن جانے کے بعد گوجراں والاکہلایا۔ سکھوں کے قبضے تک یہی گوجر قبیلہ اِس کے سردار کی حیثیت سے تاجِ مغلیہ کو خراج ادا کرتا رہا۔یہاں کے علاقہ کھیالی کی سکھ آبادی کے چڑت سنگھ سے زمین پر کچھ تنازعے رہے، جس پراُس بیتاب جوان نے اپنے ننھیال، موضع راجہ سانسی (امرتسر) جا کر سورماؤں کا ایک جتھا بنانا شروع کیا۔ چڑت سنگھ، جو سردار مہاں سنگھ کا باپ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دادا تھا، امرتسر سے نکلا اور سیالکوٹ اور گجرات کو تاراج کرتا ہوا کھیالی میں اپنے رشتہ داروں سے معرکہ آرا ہوا اور کھیالی پر قبضہ کر لیا۔اُس کی عمر نواحات کے چھوٹے بڑے قبائلی سرداروں پر اپنی طاقت باور کرانے کی کامیاب کوشش میں صرف ہوئی اور اس کے نوجوان بیٹے مہاں سنگھ نے سیدنگری اور دوسرے علاقے فتح کر کےاپنی طاقت کا لوہا منوایا۔مہاں سنگھ پنجاب کی اس سکھ سلطنت کی داغ بیل ڈالنے والا سردار تھاجس سلطنت کو یہیں گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے اس کے بیٹے رنجیت سنگھ نے بعد میں کابل سے ملتان تک پھیلا دیا تھا۔رنجیت دس سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، اِس نے حرب و ضرب کے ساتھ ساتھ اس شہر میں باغات، حویلیاں، آبدارخانے، عشرت کدے اور کنویں بنوائے اور اس تمدن کو اور نکھارا جس کی بنیادیں اس کے باپ اور اس سے پہلے کے سرداروں نے رکھی تھیں۔ گوجرانوالہ رنجیت سنگھ کا پایہَ تخت رہا تا وقتیکہوہ تختِ لاہور پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا۔سنگھا شاہی دور انگریز کے پنجاب پر قابض ہونے کے بعد اپنے تمدنی خواص شہر کی ثقافت کو دے کر رخصت ہو گیا۔ تن سازی، خوش خوراکی، خوش گپیاں، دَنگل، تھڑے، شمشیر زنی، موسیقی، نیزہ بازی، بھنگڑا، کہاوتیں، گُرو سِمرن، یادِ الٰہی… انگریزوں کی آمد ایک عرصے تک محض ایک سیاسی اور انتظامی تبدیلی ہی رہی۔
ریل آئی تو پنجاب کا مرکز، لاہور اور بھی قریب آ گیا۔ ابھرتی ہوئی جدید صنعت اور سائنسی تعلیمات کی برکات نے آنکھوں کو خیرہ کیا تو سیاست، صحافت، اطلاقی سائنس، فلسفہ، صنعت اور سماجیات کا چٹخارا بھی تیتر بٹیر بھونتے ڈھابوں، تھڑوں اور بازاروںمیں رچتا بستا گیا۔شہر کی راتوں کو کتاب و خواب اور شباب و کباب برابر رومان پرور بناتے رہے اور پرندِ صبح کی ککڑوں کوں پر اسی گھر سے ایک بھائی لنگوٹ کَسے اکھاڑے کو روانہ ہوتادوسرا پتلون پہنے اسٹیشن سے “باؤ ٹرین” پکڑ کر لاہور میں فیکٹری یا یونیورسٹی کی راہ لیتا۔ بازاروں میں مضافاتی دستکار روزمرہ برتنے کی چیزیں بیچتے اور عام صارف بھاؤ چکا کر گھر لے آتے۔ ادھر قانونگو شیخ اور کھتری مہاجن بہی کھاتوں پر قلم گھمانے میں مشغول نظر آتے۔ نکڑ پر گردوارے، مندر، خانقاہیں اپنے اپنے روحانی باجگزاروں سے اپنے حصے کا چڑھاوا وصول کر کے دعا کا سنکھ پھونکتے۔ادھر دفتروں، چائے خانوں اور تھڑوں پر طرہ دار پگڑیوں، نہرو ٹوپیوں، خاکساری وردیوں اورلیگی قراقلیوں والے اپنے اپنے انداز میں تبدیلی کی تجویزوں پر بحث کرتے بھی نظر آتے۔کسی اکٹھ میں یہاں کے سوامی رام تیرتھ سوراج کی ویدانت سے وضاحت کرتے پائے جاتے، ادھر باؤ ٹرین سے اترنے والے بابو سیالکوٹ اور لاہور سے لائے اقبال کی نظموں کے مسودے اونچے سے پڑھ کر کسی نشاطِ ثانیہ کا متبادل پیش کرتے۔ پٹڑی کے سر پر نیتاجی سبھاش چندربوس کی انڈین لبریشن آرمی کے دفتروالے چوبارے سے کوئی انقلاب زندہ باد کا نعرہ کستا اور یوں تبدیلی کی للک میں عوامی سطح پر سرگوشیاں ہوتی رہیں۔ شعر و سخن کی بیٹھکوں سے امرتا پریتم، ن.م راشد اور عبدالحمید عدمؔ جیسے لوگ ابھرے۔دوسری جانب سرور و کیف کے متلاشیوں کے لیے استادانِ موسیقی تانوں پلٹوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے جوہر دکھاتے اور دائرے میں بیٹھے کَن رَس دل میں ماترے گنتے ہوئے سَم آتے ہی ہم آواز ہو کر ہاتھ اُٹھائے “ہا” کہہ کر داد دے دے نہال ہو جاتے، اوپرچھجے پر لگی لال بتی جلتی بجھتی اپنا رزق سمیٹنے میں مگن رہتی… یہ پرانا گوجرانوالہ ہے۔
سن ۴۷ء میں تبدیلی آ گئی۔ کاروبار پر ہندو چھائے ہوئے تھے۔ زرعی پیداوار سکھوں کے ہاں تگڑی تھی۔فنونِ لطیفہ کے میدان اور کشتی کے اکھاڑوں میں، اور منڈی کے صارفین مسلمان تھے۔ معاشی آزادی ملنے کے بعد بزازی دھندا شیخوں کے پاس آ گیا، ظروف، دھات کی مصنوعات اور کچھ دوسری گھریلو صنعتیں مغلوں نے سنبھال لیں۔ ہندو سکھ آبادی کی ہجرت سے جو خلاء پیدا ہوا تھا، ہندوستانی پنجاب سے آئے مہاجرین نے کچھ حد تک پُر کیا۔پھر جنگِ کشمیر کے بعد کشمیری مہاجرین کی بڑی تعداد کی میزبانی کرنے والے شہر گوجرانوالہ میں کشمیری مہاجر بستی، آبادی میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوئی۔ ان مہاجرین نے سرکاری طور پر کسی الاٹمنٹ کے انتظار سے عاجز آ کر انہی خیموں کو مکانات کی شکل دے لی اور یہیں رہنے لگے۔ نصف صدی سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی یہ درجہ دوم کے شہری اور کئی ایک بنیادی شہری و جمہوری حقوق سے محروم ہیں۔ شہر میں چھوٹا کاروبار زیادہ تر انہی کشمیریوں نے سنبھال رکھا ہے۔
بعد از تقسیم سرکاری تبادلوں کے چکر مصطفےٰ زیدی جیسے لوگوں کو گوجرانوالہ کی رونقیں بڑھانے کا بہانہ فراہم کرتے رہے، اسیر عابد نے غالب کا پنجابی ترجمہ ایسے کیا کہ غالب کی دلی، گوجرانوالہ سے ہاتھ بھر فاصلے پر دِکھنے لگی۔ دلدار پرویز بھٹی نے اپنی “پنجند” سے پانچ دریاؤں میں اپنی زبان کا وہ شہد گھولا کہ پنجاب کے لوگ اس میں گھلے اس زہر کو بھول گئے جس کا رونا روتی ہوئی گوجرانوالہ کی امرتاپریتم یہاں سے گئی تھی۔ اپنے اپنے ذرائع میں منور ظریف، سہیل احمد عزیزی، یونس بٹ جیسے لوگوں کی زندہ دل طبیعتیں بدترین ہیجان میں بھی مسکراہٹوں کا سامان بہم پہنچاتی رہیں، اور پہنچا رہی ہیں۔
ضیاء عہد میں ہونے والی روس امریکہ سرد جنگ اور ۹۰ء کی دہائی کی جہادِ کشمیر میں مجاہدین کی برآمد اور محاذوں سے لاشوں کی درآمد میں گوجرانوالہ پنجاب کے سبھی شہروں سے آگے رہا۔چاروں صوبوں کے جوانوں تک جذباتی مواد کی کمک پہنچانے والا جہادِ کشمیر کا روحانی قبلہ، لشکرِ طیبہ کا مرکز بھی لاہور اور گوجرانوالہ کے درمیان، مریدکے ضلع گوجرانوالہ میں قائم کیا گیا۔پرجوش تقریروں کی بمباری کرنے والے لاؤڈ اسپیکروں پر کسی بھی قانون کا عملی نفاذ تقریباً ناپید ہونے لگا۔ چوتھے مارشل لاء کے نفاذ تک لاؤڈ اسپیکر کی طاقت عوامی سطح پر اس قدر سکہ بند ہو چکی تھی کہ اب ریاست کے لیے اپنے ہی اس اقدام سے پسپائی مشکل ہو گئی تھی۔نوگیارہ کے بعد تک جہادِ کشمیر کے انگارے یہاں کی گلی محلوں میں کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھےلیکن ایک نسبتاً بڑا ہیجان آبادی کو آسیب کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ مشرف کا دَور، پچھلے فوجی عہد سے بالکل متضاد، روشن خیالی اور عصبیت سے پسپائی کے نعرے لے آیا۔ صنعتی سرمائے پر توجہ، ہائر ایجوکیشن پر سرمایہ کاری اور افرادی سرمائے کی برآمد وغیرہ۔ گوجرانوالہ جیسے سماجی طور پر ترقی پذیر شہر کے لیے ان عالمی و مقامی حالات میں ان نعروں کے بہت سے فوائد ضرور تھے، لیکن یہ بھی ہیجان کو بڑھانے کا سبب ہی بنے۔پچھلی کچھ دہائیوں سے اس شہر کی سماجی صورتحال یہ تھی کہ یہاں کا اکثریتی متوسط طبقہ اب تک سیکھے اور سکھائے گئے قبائلی طرز عمل کو دماغ سے کھرچے بغیر جدید معاشی، تعلیمی اور سماجی اداروں سے وابستہ ہوکر آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ ان تضادات کے ساتھ معیشت کے بین الاقوامی دھارے میں شامل ہو کر یہ طبقہ ایسے خوفناک اجتماعی نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوا، جو نو گیارہ کی بعد کی دنیا میں اور بھی زیادہ ہولناک تھے۔ پہلوانوں کی اولادیں لنگوٹیں چھوڑ کر رنگلی ٹائیاں لگائے اکاؤنٹنسی اور آئی ٹی پڑھنے میں لگے تھے۔ متوسط طبقے کی خواتین بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر میں کام کرنے لگیں۔ ان تضادات میں شناخت کا بحران جس نفسیاتی مسئلے کا پیش خیمہ ہوتا ہے، اسپیکروں کے بھونپو ایک فکری طور پر تساہل پسند طبقے کے لیے نہایت آسان متبادل ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تعلیمی اور معاشی کیرئیر کی خواہش اور ان ممالک سے شدید نفرت کے متضاد جذبوں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی وجہ سے اس وقت غازی عامر چیمہ شہید جیسے جوان گوجرانوالہ کے اکثر نوجوانوں کے نزدیک ایک مثالی شخصیت ہیں۔زندگی کے دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ پارلیمانی سیاست میں روایتی پگڑیوں کی جگہ نوجوان خواتین کے آنے پر ایسے تضادات جس طرح کے اضطراب کو جنم دیتے ہیں اس کا عملی نمونہ فروری ۲۰۰۷ء میں گوجرانوالہ کی نوجوان صوبائی وزیر ظلِ ہما کے قتل کی صورت میں نظر آتا ہے، جسے شہر کے ایک مولوی نے صرف اس وجہ سے قتل کیا تھا کہ ہمارے سماج میں عورت کو حکمرانی دینا معیوب ہے اور مزید یہ کہ مقتولہ کا لباس اسے پسند نہیں تھا۔ ایسے واقعات قبائلی دور کی تین صدی پرانی اس ذہنیت کی بازگشت ہیں جب چڑت سنگھ کی موت ہوئی تو اس کے بیٹے مہاں سنگھ کے کمسن ہونے کی وجہ سے چڑت سنگھ کی بیوہ مہارانی دیساں نے حکومت سنبھالی جبکہ مہاں سنگھ نے جوان ہوتے ہی اپنی ماں کو جان سے مار کے پنجاب اور گوجرانوالہ کا تخت و تاج سنبھال لیا… مقامِ افسوس یہ ہے کہ ظلِ ہما کے قتل کا واقعہ ایک علامت کے طور پر حقوقِ نسواں اور جمہوری حلقوں میں جس سطح کے احتجاج کا مستحق تھا، اس پر ویسا پُرزور ردعمل دیکھنے میں نہ آ سکا۔ یہ مولوی سرور کے ہاتھوں پچھلے دو سالوں میں چوتھی خاتون کا قتل تھا۔گوجرانوالہ جہاں گوندلانوالہ جانے والے راستے پرایک طرف کرشن نگر اور دوسری طرف بستی اسلام آباد کے ہندو مسلم باسی شادی بیاہ اور تہواروں میں صدیوں تک ایک دوسرے کے غموں خوشیوں کے ساتھی رہے تھے، اسی شہر میں ابکسی کوبنامِ خدا زندہ جلا دینا ایک کارِ خیر بن چکا تھا۔ حافظ فاروق سجاد کو اینٹوں سے بیچ چوراہے میں اینٹوں سے سنگسار کر کےجلا ڈالنے کا واقعہ اور ان پڑھ بچے سلامت مسیح پر توہین آمیز عبارت لکھنے کا مقدمہ ماضی بعید کی باتیں نہیں ہیں۔
شہر کی سماجی صورتحال کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس دور کی کئی ایک روشن مثالیں بھی یہاں نقل کی جا سکتی ہیں لیکن یہاں ان تاریک مثالوں سے ان دو دہائیوں کی نمائندگی محض اس لیے کی گئی ہے کہ عمومی رویوںمیںاس اندازِ فکر کی خفی یا جلی حمایت کا طرز عمل شہر میں اکثریت کے ہاں ملتا ہے۔
صنعت و حرفت کے باب میں شہر کی شناخت گھریلو صنعت یا کاٹیج انڈسٹری کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ گھریلو استعمال کی اشیاء بنانے والے عام بازاروں اور محلوں میں قائم چھوٹے کارخانے شہری معیشت کی ریڑھ ہیں۔ اگرچہ اب شہر کے گرد بڑے کارخانوں کا جال بچھتا ہوا نظر آتا ہے لیکن وہ اس قدر قابلِ ذکر نہیں ہے کہ اسے دوسرے بڑے شہروں کی بڑی صنعت کے حریف کے طور پیش کیا جا سکے۔ لیکن ایک رواں دواں معیشت ہونے کے باوجود گوجرانوالہ اب تک ملک میں بحساب پیداوار سب سے کم ٹیکس ادا کرنے والا شہر ہے۔
تقسیم ہند کے وقت یہاں خالصہ کالج کے علاوہ ایک ہندو کالج موجود تھا۔ اس وقت یہاں کئی ایک قابلِ ذکر تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن ساتھ میں جدید اداروں کے ساتھ مدارس کی تعداد کے قریب ترین تناسب کے حوالے سے بھی یہ شہر پنجاب میں سب سے اوپر ہے۔
سنگھاشاہی عہد میں پروان چڑھنے والا تمدن جس میں سبھی طاقتوں کا صدور دست و بازو کی طاقت سے ہوتا تھا، پروان چڑھنے والی کسرت، تن سازی اور جسمانی ریاضتوں کی ثقافت نے پنجاب کے روایتی چکنے اور لحمیاتی کھانوں کی روایت کو گوجرانوالہ میں ایک منفرد انداز بخشا۔ دودھ، گھی، گوشت، مکھن اورخشک میووں سے بنے دَم دار کھاجے اور مشروب یہاں کی خاص شناخت ہیں۔ تیز مصالحوں کو یہاں بہت بعد میں شرفِ اقبال ملا لیکن اب یہ ہر ڈھابے کے باورچیوں کی ترکیب میں شامل ہیں۔ بھُنے ہوئے بٹیر، چِڑے اور مرغ تیار کرنے اور کھانے کھلانےمیں یہاں کے باسیوں کے ذوق پر اہلِ لاہور تک رشک کھاتے ہیں۔ دَنگل اور اکھاڑوں میں یہ شہر لاہور کے پہلوانوں کے لیے ایک برابر کی ٹکر رہا ہے۔ اس کھیل میں لاہور اور امرتسر اس کے روایتی حریف رہے ہیں لیکن پہلوانوں کا شہر کہانے کا اعزاز اسی شہر کے حصے میں آیا۔ روایتی پہلوان چونکہ بچپن ہی سے لنگوٹ باندھ کر صبح شام اکھاڑے میں ڈنڈ بیٹھکوں اور داؤ پیچ کے شغل میں رہتے، اس لیے یہ کام سماجی طور پر ایک طرح کے تیاگ کا کام سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلوانوں کی اکثریت جسمانی طور پر جتنی قوی اور ناقابلِ تسخیر ہوتی، ان کی باطنی شخصیت اتنی ہی کھری اور سادہ لوح ہوتی۔ لہٰذا تجربے میں آیا ہے کہ بعد کی سماجی اور تعلیمی طور پر نسبتاً زیادہ “پیچیدہ” شخصیتوں کی مالک پود کے لیےان سادہ لوح لوگوں سے متعلق کسی شناخت کی وابستگی ایک استہزائی حوالہ اور ماضی کا لطیفہ سمجھی جانے لگی ہے۔اس فن سے وابستہ چند ایک خانوادے، شائقین کے شوق بدلنے کے باوجود، روایت کے تسلسل کی خاطر دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے، جیسے تیسے فن کی منتقلی اپنی اگلی نسل کوکر رہے ہیں۔ضلعی و صوبائی حکومت اور انفرادی شائقین کی طرف سے مختلف موسمی دنگل سجائے جانے کی خبریں بھی سننے میں آتی ہیں، لیکن اب ثقافت کے رنگ بدلنے اور اکثریت کی والہانہ دلچسپی نہ رہنے کی وجہ سے یہ ماضی کی طرح کی شہری عوامی سرگرمی کا روپ نہیں دھار پاتے۔
گوجرانوالہ کے ایک ڈھابے میں بٹیر کھاتے ہوئے ایک جدید وضع کے نوجوان سے جب راقم نے “پہلوانوں کے شہر” کا مذکور چھیڑا تووہ اُچٹ کر کہنے لگا؛ “یہاں اب ماضی جیسے بڑے پہلوان پیدا نہیں ہوتے، اور ویسے پہلوان تو دوسرے شہروں میں بھی رہے… اسے صرف انسانوں کا شہر کہا جائے… پہلوانوں کا نہیں…”۔۔ اس تاثر نے شہر کی نئی پود سے بہت کچھ کہنے کی گنجائش نکال دی ہے۔۔اگر گھڑی بھر اُن پہلوانوں کو انسانوں کی صف سے نکال کر بھی دیکھا جائے، تو یہ وہ نابغے تھے، جنہوں نے پہلوانی میں دوسرے شہروں کے زورآوروں کو پچھاڑ کر، اپنے شہر کو پہلوانوں کا شہر کہایا… انسانوں کا شہر کہانے کے لیے اب یہاں کے نابغوں کو پھر سے دوسرے شہروں سے انسانیت میں سبقت لینا ہوگی… اسے انسانوں کا شہر کہانے کے لیے، معاصر تمدن کے حضورماضی جیسے بڑے انسان نمو دینے کا عہد کرنا ہو گا…
ربط
http://www.laaltain.com/بدلتے-شہرگوجرانوالہ/