آخری چند گزارشات جناب شاہد شاہنواز کی خصوصی توجہ کے لئے۔
جناب الف عین ۔ اگر میں نے کچھ غلط سلط کہہ دیا ہے تو اس پر بھی مجھے متنبہ فرمائیے گا۔بہت آداب۔
جناب الف عین کی خواہش کے احترام میں۔
جناب شاہد شاہنواز کی غزل پر میری کچھ گزارشات:۔
بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟
ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے’’مقدر میں جو لکھا ہو‘‘ شاید بہتر تاثر دیتا۔ تاہم یہاں قافیے کی پابندی آن پڑی۔ مصرعِ ثانی کے الفاظ کی در و بست تبدیل کر کے دیکھ لیجئے۔
بدل پائے جسے تدبیر وہ تقدیر ہی کیا ہے؟
مقدر میں جو لکھا ہو، ہمیشہ ہوکے رہتا ہے ۔۔۔
وہ میدان اپنی مرضی سے مقدر چھوڑ دے جس کو
اسی میدان میں انسان خود قسمت بناتا ہےاگر میں اس کے مفہوم کو پہنچ پایا ہوں تو یہ مطلع کے تسلسل میں ہے۔ تاہم یہاں ایک نوع کا تضاد بھی آ گیا ہے۔ ’’انسان خود قسمت بناتا ہے‘‘ تو پھر مقدر کا میدان کون سا ہے، اور اس کا کوئی میدان چھوڑ دینا کیا ہے؟ اس شعر میں معانی ٹکرا رہے ہیں۔ ’’تقدیر اور تدبیر‘‘ پر پہلے ہی بہت طویل مباحث موجود ہیں، اُن سے قطع نظر یا آپ کا جو بھی نکتہء نظر ہے، اس کا اظہار واضح اور صاف ہونا چاہئے۔
÷÷غیر ضروری تھا اور غیر ضروری مجھے بھی لگ رہا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں لکھ دیا۔۔۔
دوا ممکن نہیں اس کی، دعا مانگی نہیں جاتی
نکلتی ہی نہیں دل سے محبت نام جس کا ہےدعا سے شاید آپ ترکِ محبت مراد لے رہے ہیں۔ یہ بات تو بہت پہلے کہیں جا چکی اور مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیجئے کہ بہت بہتر انداز میں کہی جا چکی۔
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
۔۔ یہ مصرع میں نے اس طرح پڑھا تھا: دل چاہتا نہ ہو تو زباںمیں اثر کہاں ۔۔۔ از مولانا الطاف حسین حالی ۔۔
کسی ادا شدہ مضمون کو پھر سے ادا کرنے تو میں عیب نہیں سمجھتا، تاہم شاعر سے یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ وہ یا تو اس مضمون کو کسی نئے زاویے سے پیش کرے یا اسلوبی سطح پر کوئی نیاپن لے کر آئے۔
آخری چند گزارشات جناب شاہد شاہنواز کی خصوصی توجہ کے لئے۔
جناب الف عین ۔ اگر میں نے کچھ غلط سلط کہہ دیا ہے تو اس پر بھی مجھے متنبہ فرمائیے گا۔
غزل میں خیال اور مضمون کا تسلسل بھی ملتا ہے۔ وہ جسے ہم ’’غزلِ مسلسل‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ تاہم ریزہ خیالی زیادہ معروف اور مقبول ہے۔ دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، غزل کے ہر شعر کو اپنی جگہ ایک مکمل اکائی ہونا چاہئے۔ ایک مضمون ایک شعر میں پورا ادا نہیں ہو پا رہا، تو دو تین چار قطعہ بند اشعار لائے جا سکتے ہیں، اس میں کوئی ہرج نہیں۔
ایک خاص بات جو غزل کے حسن اور تاثر کو بڑھاتی ہے، وہ ہے غزل کی مجموعی فضا۔ میں اس کو غزل کی ’’زیریں رَو‘‘ کہا کرتا ہوں۔ تمام شعر اپنے اپنے (انفرادی) مضمون اور موضوع اور اندازِ فکر و اظہار کے باوجود ایک فضا بناتے ہیں کہ اس میں کوئی کیفیت مشترک ہوتی ہے، یا ایک خاص اندازِ فکر جو نمایاں ہو یا نہ ہو اپنا احساس دلاتا ہے۔ یا لفظیات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ایک ’’پیچیدہ اکائی‘‘ بن جاتی ہے۔ ردیف اور قافیہ اس کو اکائی بننے میں مدد دیتے ہیں۔ کھلے قافیے میں ظاہر ہے یہ ایک عامل غیر مؤثر ہو جاتا ہے، تاہم باقی عوامل بدستور رہتے ہیں۔
مجھے اس غزل میں اس ’’زیریں رَو‘‘ کی کمی محسوس ہوئی ہے۔ شاعر کا اسلوب اِس کمی کو پُورا کر سکتا ہے۔ اسلوب کو صرف الفاظ اور تراکیب سازی تک محدود نہیں کیا جا سکتا، فکر کا بھی ایک اسلوب ہوتا ہے۔ اور پھر ایک شاعر (خاص طور پر غزل میں) اپنی پوری شخصیت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہوتا ہے۔ یہ چیز اس غزل میں موجود ہے اور شاعر کا ایک واضح فکری خاکہ بھی بن رہا ہے۔ اس کو ترقی دیجئے۔
ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے مباحث اب پرانے ہو چکے۔ فن اور مقصدیت کی موافقت یا مطابقت بھی کوئی ایسا بڑا جھگڑا نہیں کہ ہم ادھر اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہیں۔ ہاں دو تین عناصر ضرور ایسے ہیں جہاں واقع ہونے والی فروگزاشت ادب کے معیار کو متاثر کر سکتی ہے۔ قافیہ کی پابندی بہر حال کرنی پڑے گی، ردیف اگر آپ نے اختیار کر لی ہے تو اس کو نبھانا بھی لازم ہے۔ اوزان پر بھی توجہ دینی ہے۔ یہ بھی ہے کہ زبان و بیان کی کوئی غلطی نہیں ہونی چاہئے، تلمیح اور استعارہ میں جدت کی بہت گنجائش ہے تاہم اتنی دور نہ جائیے کہ آپ کا مفہوم ہی کھو جائے۔
یہ بات طویل بھی ہو سکتی ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس پلیٹ فارم پر موجود غزل گو شعراء غزل کے مختلف پہلوؤں پر اپنی راہنما آراء سے نوازیں۔ ترجیحات، پسندیدہ لفظیات، انشائی عنصر وغیرہ پر بھی بات چیت کریں۔
بہت آداب۔
بھلا ہو اِس یادداشت کا کہ جِس نے پہلی بات سنبھال لی اور دوسری بھُلا دی تھیغزل میں خیال اور مضمون کا تسلسل بھی ملتا ہے۔ وہ جسے ہم ’’غزلِ مسلسل‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ تاہم ریزہ خیالی زیادہ معروف اور مقبول ہے۔ دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، غزل کے ہر شعر کو اپنی جگہ ایک مکمل اکائی ہونا چاہئے۔