نمرہ
محفلین
اصلاح اور مرمت وغیرہ کے لیے ایک غزل پیش خدمت ہے۔
بدل کے بھی روش ، اکتا رہی ہے
طبیعت پھر سے پلٹا کھا رہی ہے
شمع دل کی جو بجھتی جا رہی ہے
سیاہی چار سو منڈلا رہی ہے
جہاں میں شور بڑھتا جا رہا ہے
دلوں پر اک خموشی چھا رہی ہے
کوئی رستہ تو روکے آرزو کا!
یہ ناداں اب کدھر کو جا رہی ہے؟
تخیل لے گیا آگے ہی آگے
فراست راہ میں سستا رہی ہے
گزاری عمر یو ں تیرہ شبی میں
تصور میں سدا فردا رہی ہے
لیے ہاتھوں میں ٹکڑے سب، کھڑی ہے
مجھے امید پھر بہلا رہی ہے
ہجوم ِ دوستاں میں روح اپنی
رہی اکثر ہے اور تنہا رہی ہے
تھا دعوا خود شناسی کا ہمیں بھی
اب اپنی طبعہی سہمارہی ہے
کہیں نقصاں نہ ہو جائے دوبارہ
مروت پھر سے آڑے آ رہی ہے
کہاں اتنی جگہ تھی زندگی میں؟
عداوت جو رہی ، بے جا رہی ہے
یہ دنیا فہم کا دھوکا سہی ، پر
بخوبی ہم کو یہ الجھا رہی ہے
دریچہ کھل رہا ہے رفتہ رفتہ
صبا پھر سے قفس میں آ رہی ہے
ہماری برق رفتاری کے آگے
سمے کی نبض بھی پتھرا رہی ہے
بدل کے بھی روش ، اکتا رہی ہے
طبیعت پھر سے پلٹا کھا رہی ہے
شمع دل کی جو بجھتی جا رہی ہے
سیاہی چار سو منڈلا رہی ہے
جہاں میں شور بڑھتا جا رہا ہے
دلوں پر اک خموشی چھا رہی ہے
کوئی رستہ تو روکے آرزو کا!
یہ ناداں اب کدھر کو جا رہی ہے؟
تخیل لے گیا آگے ہی آگے
فراست راہ میں سستا رہی ہے
گزاری عمر یو ں تیرہ شبی میں
تصور میں سدا فردا رہی ہے
لیے ہاتھوں میں ٹکڑے سب، کھڑی ہے
مجھے امید پھر بہلا رہی ہے
ہجوم ِ دوستاں میں روح اپنی
رہی اکثر ہے اور تنہا رہی ہے
تھا دعوا خود شناسی کا ہمیں بھی
اب اپنی طبعہی سہمارہی ہے
کہیں نقصاں نہ ہو جائے دوبارہ
مروت پھر سے آڑے آ رہی ہے
کہاں اتنی جگہ تھی زندگی میں؟
عداوت جو رہی ، بے جا رہی ہے
یہ دنیا فہم کا دھوکا سہی ، پر
بخوبی ہم کو یہ الجھا رہی ہے
دریچہ کھل رہا ہے رفتہ رفتہ
صبا پھر سے قفس میں آ رہی ہے
ہماری برق رفتاری کے آگے
سمے کی نبض بھی پتھرا رہی ہے