بدل کے بھی روش ، اکتا رہی ہے۔۔۔برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
فاتح ۔۔۔ یقینا آپ درست کہہ رہے ہیں، بقول اقبال: وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا، جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے۔۔۔ فردا کا مطلب یہی نکلتا ہے۔۔۔ رہی مذکر اور مونث دونوں ہونے کی بات تو یہ ہمارے علم میں نہیں تھی (بالکل اسی طرح جیسے فردا کو ہم نے مستقبل سمجھا۔۔۔ ) کہ کوئی لفظ مذکراور مونث دونوں بھی ہوسکتا ہے، حالانکہ یہ معلوم تھا کہ کچھ الفاظ ترجمہ ہو کر آتے ہیں یا جوں کے توں اپنائے جاتے ہیں تو بعض اوقات مذکر سے مونث اور مونث سے مذکر ہوجاتے ہیں،
 

الف عین

لائبریرین
فردا کے بارے میں شروع میں مجھے بھی کنفیوژن ہوا تھا، لیکن پھر امثال سوچیں تو سارے اشعار میں فردا کا استعمال بغیر صنف کی نشان دہی کے ہی میسر آیا۔ اس لئے اپنے خیال کو ہی حقیقت مان لیا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عربی کی زبر زیر ہم عروض میں بحروں کو پڑھنے کے سلسلے میں بھی استعمال کریں یا نہ کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ مفعول مفاعیل مفاعیل مفولن۔۔۔ اس کو کوئی مفعولو مفاعیلو مفاعیلو مفولن پڑھے تب بھی وہی وزن ہوگا۔۔۔ (یہ نمرہ کو بتانے سے زیادہ فاتح کو چھیڑنے کی سازش ہے)
 

فاتح

لائبریرین
عربی کی زبر زیر ہم عروض میں بحروں کو پڑھنے کے سلسلے میں بھی استعمال کریں یا نہ کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ ۔ مفعول مفاعیل مفاعیل مفولن۔۔۔ اس کو کوئی مفعولو مفاعیلو مفاعیلو مفولن پڑھے تب بھی وہی وزن ہوگا۔۔۔ (یہ نمرہ کو بتانے سے زیادہ فاتح کو چھیڑنے کی سازش ہے)
شاہد، اتفاق کی بات ہے کہ چھیڑتے ہوئے اپنی طرف سے مذاق میں کہا لیکن یہ ایک حقیقت ہے سوائے مثال کے جو درست نہیں۔ ;)
یعنی مَفعُولُ کو مُفعَولَ پڑھ لو تب بھی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔ صرف متحرک کو ساکن اور ساکن کو متحرک نہیں کرنا۔۔۔ بس :)
 
Top