کاشفی
محفلین
غزل
(امجد اسلام امجد)
بدن سے اُٹھتی تھی اس کے خوش بو، صبا کے لہجے میں بولتا تھا
یہ میری آنکھیں تھیں اس کا بستر وہ اس میں سوتا تھا جاگتا تھا
حیا سے پلکیں جھکی ہوئی تھیں، ہوا کی سانسیں رُکی ہوئی تھیں
وہ میرے سینے میں سر چھپائے نہ جانے کیا بات سوچتا تھا
کوئی تھا چشمِ کرم کا طالب کسی پہ شوقِ وصال، غالب
سوال پھیلے تھے چار جانب بس ایک میں تھا جو چپ کھڑا تھا
عجیب صحبت، عجیب رُت تھی، خموش بیٹھے ہوئے تھے دونوں
میں اس کی آواز سن رہا تھا وہ میری آواز سن رہا تھا
بہار آئی تو تتلیوں کے پروں میں رنگوں کے خواب جاگے
اور ایک بھنورا کلی کلی کے لبوں کو رہ رہ کے چومتا تھا
وہ اور ہوں گے کہ جن کو امجد نئے مناظر کی چاہ ہوگی
میں اس کے چہرے کو دیکھتا ہوں اس کے چہرے کو دیکھتا تھا
(امجد اسلام امجد)
بدن سے اُٹھتی تھی اس کے خوش بو، صبا کے لہجے میں بولتا تھا
یہ میری آنکھیں تھیں اس کا بستر وہ اس میں سوتا تھا جاگتا تھا
حیا سے پلکیں جھکی ہوئی تھیں، ہوا کی سانسیں رُکی ہوئی تھیں
وہ میرے سینے میں سر چھپائے نہ جانے کیا بات سوچتا تھا
کوئی تھا چشمِ کرم کا طالب کسی پہ شوقِ وصال، غالب
سوال پھیلے تھے چار جانب بس ایک میں تھا جو چپ کھڑا تھا
عجیب صحبت، عجیب رُت تھی، خموش بیٹھے ہوئے تھے دونوں
میں اس کی آواز سن رہا تھا وہ میری آواز سن رہا تھا
بہار آئی تو تتلیوں کے پروں میں رنگوں کے خواب جاگے
اور ایک بھنورا کلی کلی کے لبوں کو رہ رہ کے چومتا تھا
وہ اور ہوں گے کہ جن کو امجد نئے مناظر کی چاہ ہوگی
میں اس کے چہرے کو دیکھتا ہوں اس کے چہرے کو دیکھتا تھا
آخری تدوین: