سنو پیارے بچو، جہاں ہم کھڑے ہیں، یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔
یہاں آسماں ایسا شفاف تھا اس میں سب مہ جبیں اپنی صورت تکا کرتے تھے۔ اس کی گلیاں سرِ شام زلفوں کے عنبر سے رچتی تھیں، آب و ہوا معتدل اور کثافت سے عاری تھی۔ برسات کے موسموں میں یہاں سے وہاں شہر کے شہر میں سبزہ ہلکورے لے لے کے بچوں، بڑوں کے دلوں میں تراوٹ کے موتی کھلاتا تھا۔
لیکن خدا کا یہ کرنا ہوا اس خداداد بستی کے فرماں روا کو ولایت کی سوجھی۔ وہاں اس نے اک دن کسی پیڑ کی اک نہایت حسیں نسل دیکھی، بہت دل کو بھائی۔۔۔ وطن واپسی پر وہ اس پیڑ کی چند قلمیں بھی سامان میں رکھ کے لایا۔
ابھی چند ہی سال گزرے تھے، بستی کے باشندوں پر اک انوکھا مرض حملہ آور ہوا۔ رات دن چھینکتے چھینکتے، کھانستے کھانستے ہی گزرتے تھے۔۔۔ آنکھوں میں مرچیں سی بھر جایا کرتی تھیں۔۔۔ سینے سے سانسوں کے کانٹے نکلتے نہیں تھے۔
پھر اک روز تنگ آ کے کلہاڑیاں لے کے خلقِ خدا اس بدیسی حسین پیڑ کی فصل پر پِل پڑی۔ صبح سے شام تک۔۔۔ شام سے صبح تک۔۔۔ کاٹتے کاٹتے بانہیں شل ہو گئیں، کندھے سن ہو گئے۔
پر جہاں پیڑ کی شاخ گرتی۔۔۔ وہاں ایک اکھوا نیا پھوٹتا تھا۔۔۔
سو بچو، جہاں تم افق تا افق سبز کائی میں لپٹے کھنڈر دیکھتے ہو۔۔۔ یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔
یہاں آسماں ایسا شفاف تھا اس میں سب مہ جبیں اپنی صورت تکا کرتے تھے۔ اس کی گلیاں سرِ شام زلفوں کے عنبر سے رچتی تھیں، آب و ہوا معتدل اور کثافت سے عاری تھی۔ برسات کے موسموں میں یہاں سے وہاں شہر کے شہر میں سبزہ ہلکورے لے لے کے بچوں، بڑوں کے دلوں میں تراوٹ کے موتی کھلاتا تھا۔
لیکن خدا کا یہ کرنا ہوا اس خداداد بستی کے فرماں روا کو ولایت کی سوجھی۔ وہاں اس نے اک دن کسی پیڑ کی اک نہایت حسیں نسل دیکھی، بہت دل کو بھائی۔۔۔ وطن واپسی پر وہ اس پیڑ کی چند قلمیں بھی سامان میں رکھ کے لایا۔
ابھی چند ہی سال گزرے تھے، بستی کے باشندوں پر اک انوکھا مرض حملہ آور ہوا۔ رات دن چھینکتے چھینکتے، کھانستے کھانستے ہی گزرتے تھے۔۔۔ آنکھوں میں مرچیں سی بھر جایا کرتی تھیں۔۔۔ سینے سے سانسوں کے کانٹے نکلتے نہیں تھے۔
پھر اک روز تنگ آ کے کلہاڑیاں لے کے خلقِ خدا اس بدیسی حسین پیڑ کی فصل پر پِل پڑی۔ صبح سے شام تک۔۔۔ شام سے صبح تک۔۔۔ کاٹتے کاٹتے بانہیں شل ہو گئیں، کندھے سن ہو گئے۔
پر جہاں پیڑ کی شاخ گرتی۔۔۔ وہاں ایک اکھوا نیا پھوٹتا تھا۔۔۔
سو بچو، جہاں تم افق تا افق سبز کائی میں لپٹے کھنڈر دیکھتے ہو۔۔۔ یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔