جنید احمدحسن
محفلین
السلام علیکم،
کیا کوئی برادر جنہیں فلسفے کے ساتھ اشتغال ہو، مندرجہ ذیل عبارتیں سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں؟ جو الفاظ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے، انھیں میں نے سرخ کر دیا ہے- پھر ان کے سامنے اپنی سمجھ کے مطابق جو انگریزی مترادفات داخل کیے ہیں، ان پر بھی آپ کا تبصرہ درکار ہے-
علم کو بدیہی (immediate؟) اور نظری(mediate؟) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پھر بدیہی اُسے قرار دیا جاتا ہے جو فکر و تدبر کے بغیر آپ سے آپ حاصل ہوتا ہے اور نظری اُسے جس کا فکر و تدبر کے ذریعے سے خود بدیہی سے اکتساب کیا جاتا ہے۔ اِس تقسیم کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدیہی اصل اور اساس کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور باقی ہر چیز اُس کی فرع قرار پاتی ہے۔ فلسفہ کی ابتدا خارجی حقائق سے متعلق بحث و تمحیص سے ہوئی تھی۔ پھر مدارک (؟) کی حقیقت موضوع بحث بنی اور بدیہی کو اصل قرار دیا گیا تو اُس کی علامت یہ سمجھی گئی کہ اُس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوتا، مگر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز سے اختلاف کر سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا اور ظنون و شبہات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک فریق کا اصرار ہے کہ معلوم صرف محسوس ہے اور وہی اصل ہے۔ تمام افکار و خیالات اُس چیز سے پیدا ہوتے ہیں جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے سمجھتے ہیں۔ دماغ (tabula rasa)، یعنی لوح سادہ ہے۔ ہمارے ادراک سے پہلے کوئی چیز اُس پر ثبت نہیں ہوتی۔ دوسرا یہ کہتا ہے کہ علم و اردات نفس ہیں اور نفس مدرکہ(؟)کے سوا ہم کسی موجود کے وجود کا یقین نہیں رکھتے۔ تیسرے کا دعویٰ ہے کہ اثر محسوس(؟)کے سوا کوئی چیز یقینی نہیں ہے اور چوتھے نے اعلان کر رکھا ہے کہ حس اور فکر، دونوں ناقابل اعتماد ہیں، اِس لیے دنیا میں یقین اور قطعیت نام کی کوئی چیز سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔
قرآن اِس کے برخلاف اپنے استدلال کی بنیاد اُس فطری علم پر رکھتا ہے جو نفس انسانی میں الہام کر دیا گیا ہے۔ انسان کے تمام علم و عمل اور فکر و استدلال کی بنیاد درحقیقت یہی علم ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نگاہ سب سے پہلے جس چیز پر پڑتی ہے، وہ بدیہی ہے، لہٰذا اِسی کو اصل مان کر انسان اپنی جستجو شروع کرتا ہے۔ اُسے توجہ نہیں ہوتی کہ یہ حقیقت میں اُس کا فطری علم ہے جو اُسے بدیہیات تک پہنچاتا اور ہانکتا ہوا نظریات تک لے جاتا ہے۔ یہ علم نہ ہوتا تو بداہت، نظر، استدلال، اِن میں سے کوئی چیز بھی وجود پذیر نہیں ہو سکتی تھی، اِس لیے کہ خارج سے جو چیز آتی ہے، وہ صرف موضوعات(؟) ہیں۔ اُن کا حکم خارج سے نہیں آتا، وہ نفس کے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ وہی یہ حکم لگاتا اور بارہا موضوعات کو نئے موضوعات میں تبدیل کر دیتا ہے تاکہ اُن پر نیا حکم لگائے۔ ذوق و ادراک اِسی کا ظہور ہے جس میں سے پہلا عمل اور دوسرا علم کا مصدر ہے۔ ذات و صفات، حامل و محمول(possessor and possession?)، فعل و انفعال(action and its effect?)، حسن و قبح، مدرک اور غیر مدرک (wise and unwise?)اور ذات اور اُس کے عوارض(disorders?) میں فرق و امتیاز کا منبع بھی یہی ہے ۔حو اس کے ذریعے سے جو اثرات نفس انسانی تک پہنچتے ہیں، اُن سے موثرات (?)پر استدلال اِسی کا وظیفہ ہے جس سے وجود خارجی کا یقین حاصل ہوتا ہے۔
بہت شکریہ،
جنید حسن
کیا کوئی برادر جنہیں فلسفے کے ساتھ اشتغال ہو، مندرجہ ذیل عبارتیں سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں؟ جو الفاظ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے، انھیں میں نے سرخ کر دیا ہے- پھر ان کے سامنے اپنی سمجھ کے مطابق جو انگریزی مترادفات داخل کیے ہیں، ان پر بھی آپ کا تبصرہ درکار ہے-
علم کو بدیہی (immediate؟) اور نظری(mediate؟) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پھر بدیہی اُسے قرار دیا جاتا ہے جو فکر و تدبر کے بغیر آپ سے آپ حاصل ہوتا ہے اور نظری اُسے جس کا فکر و تدبر کے ذریعے سے خود بدیہی سے اکتساب کیا جاتا ہے۔ اِس تقسیم کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدیہی اصل اور اساس کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور باقی ہر چیز اُس کی فرع قرار پاتی ہے۔ فلسفہ کی ابتدا خارجی حقائق سے متعلق بحث و تمحیص سے ہوئی تھی۔ پھر مدارک (؟) کی حقیقت موضوع بحث بنی اور بدیہی کو اصل قرار دیا گیا تو اُس کی علامت یہ سمجھی گئی کہ اُس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوتا، مگر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز سے اختلاف کر سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا اور ظنون و شبہات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک فریق کا اصرار ہے کہ معلوم صرف محسوس ہے اور وہی اصل ہے۔ تمام افکار و خیالات اُس چیز سے پیدا ہوتے ہیں جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے سمجھتے ہیں۔ دماغ (tabula rasa)، یعنی لوح سادہ ہے۔ ہمارے ادراک سے پہلے کوئی چیز اُس پر ثبت نہیں ہوتی۔ دوسرا یہ کہتا ہے کہ علم و اردات نفس ہیں اور نفس مدرکہ(؟)کے سوا ہم کسی موجود کے وجود کا یقین نہیں رکھتے۔ تیسرے کا دعویٰ ہے کہ اثر محسوس(؟)کے سوا کوئی چیز یقینی نہیں ہے اور چوتھے نے اعلان کر رکھا ہے کہ حس اور فکر، دونوں ناقابل اعتماد ہیں، اِس لیے دنیا میں یقین اور قطعیت نام کی کوئی چیز سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔
قرآن اِس کے برخلاف اپنے استدلال کی بنیاد اُس فطری علم پر رکھتا ہے جو نفس انسانی میں الہام کر دیا گیا ہے۔ انسان کے تمام علم و عمل اور فکر و استدلال کی بنیاد درحقیقت یہی علم ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نگاہ سب سے پہلے جس چیز پر پڑتی ہے، وہ بدیہی ہے، لہٰذا اِسی کو اصل مان کر انسان اپنی جستجو شروع کرتا ہے۔ اُسے توجہ نہیں ہوتی کہ یہ حقیقت میں اُس کا فطری علم ہے جو اُسے بدیہیات تک پہنچاتا اور ہانکتا ہوا نظریات تک لے جاتا ہے۔ یہ علم نہ ہوتا تو بداہت، نظر، استدلال، اِن میں سے کوئی چیز بھی وجود پذیر نہیں ہو سکتی تھی، اِس لیے کہ خارج سے جو چیز آتی ہے، وہ صرف موضوعات(؟) ہیں۔ اُن کا حکم خارج سے نہیں آتا، وہ نفس کے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ وہی یہ حکم لگاتا اور بارہا موضوعات کو نئے موضوعات میں تبدیل کر دیتا ہے تاکہ اُن پر نیا حکم لگائے۔ ذوق و ادراک اِسی کا ظہور ہے جس میں سے پہلا عمل اور دوسرا علم کا مصدر ہے۔ ذات و صفات، حامل و محمول(possessor and possession?)، فعل و انفعال(action and its effect?)، حسن و قبح، مدرک اور غیر مدرک (wise and unwise?)اور ذات اور اُس کے عوارض(disorders?) میں فرق و امتیاز کا منبع بھی یہی ہے ۔حو اس کے ذریعے سے جو اثرات نفس انسانی تک پہنچتے ہیں، اُن سے موثرات (?)پر استدلال اِسی کا وظیفہ ہے جس سے وجود خارجی کا یقین حاصل ہوتا ہے۔
بہت شکریہ،
جنید حسن