بدیہی اور نظری ، چند مشکلات

السلام علیکم،

کیا کوئی برادر جنہیں فلسفے کے ساتھ اشتغال ہو، مندرجہ ذیل عبارتیں سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں؟ جو الفاظ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے، انھیں میں نے سرخ کر دیا ہے- پھر ان کے سامنے اپنی سمجھ کے مطابق جو انگریزی مترادفات داخل کیے ہیں، ان پر بھی آپ کا تبصرہ درکار ہے-

علم کو بدیہی (immediate؟) اور نظری(mediate؟) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پھر بدیہی اُسے قرار دیا جاتا ہے جو فکر و تدبر کے بغیر آپ سے آپ حاصل ہوتا ہے اور نظری اُسے جس کا فکر و تدبر کے ذریعے سے خود بدیہی سے اکتساب کیا جاتا ہے۔ اِس تقسیم کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدیہی اصل اور اساس کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور باقی ہر چیز اُس کی فرع قرار پاتی ہے۔ فلسفہ کی ابتدا خارجی حقائق سے متعلق بحث و تمحیص سے ہوئی تھی۔ پھر مدارک (؟) کی حقیقت موضوع بحث بنی اور بدیہی کو اصل قرار دیا گیا تو اُس کی علامت یہ سمجھی گئی کہ اُس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوتا، مگر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز سے اختلاف کر سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا اور ظنون و شبہات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک فریق کا اصرار ہے کہ معلوم صرف محسوس ہے اور وہی اصل ہے۔ تمام افکار و خیالات اُس چیز سے پیدا ہوتے ہیں جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے سمجھتے ہیں۔ دماغ (tabula rasa)، یعنی لوح سادہ ہے۔ ہمارے ادراک سے پہلے کوئی چیز اُس پر ثبت نہیں ہوتی۔ دوسرا یہ کہتا ہے کہ علم و اردات نفس ہیں اور نفس مدرکہ(؟)کے سوا ہم کسی موجود کے وجود کا یقین نہیں رکھتے۔ تیسرے کا دعویٰ ہے کہ اثر محسوس(؟)کے سوا کوئی چیز یقینی نہیں ہے اور چوتھے نے اعلان کر رکھا ہے کہ حس اور فکر، دونوں ناقابل اعتماد ہیں، اِس لیے دنیا میں یقین اور قطعیت نام کی کوئی چیز سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔

قرآن اِس کے برخلاف اپنے استدلال کی بنیاد اُس فطری علم پر رکھتا ہے جو نفس انسانی میں الہام کر دیا گیا ہے۔ انسان کے تمام علم و عمل اور فکر و استدلال کی بنیاد درحقیقت یہی علم ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نگاہ سب سے پہلے جس چیز پر پڑتی ہے، وہ بدیہی ہے، لہٰذا اِسی کو اصل مان کر انسان اپنی جستجو شروع کرتا ہے۔ اُسے توجہ نہیں ہوتی کہ یہ حقیقت میں اُس کا فطری علم ہے جو اُسے بدیہیات تک پہنچاتا اور ہانکتا ہوا نظریات تک لے جاتا ہے۔ یہ علم نہ ہوتا تو بداہت، نظر، استدلال، اِن میں سے کوئی چیز بھی وجود پذیر نہیں ہو سکتی تھی، اِس لیے کہ خارج سے جو چیز آتی ہے، وہ صرف موضوعات(؟) ہیں۔ اُن کا حکم خارج سے نہیں آتا، وہ نفس کے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ وہی یہ حکم لگاتا اور بارہا موضوعات کو نئے موضوعات میں تبدیل کر دیتا ہے تاکہ اُن پر نیا حکم لگائے۔ ذوق و ادراک اِسی کا ظہور ہے جس میں سے پہلا عمل اور دوسرا علم کا مصدر ہے۔ ذات و صفات، حامل و محمول(possessor and possession?)، فعل و انفعال(action and its effect?)، حسن و قبح، مدرک اور غیر مدرک (wise and unwise?)اور ذات اور اُس کے عوارض(disorders?) میں فرق و امتیاز کا منبع بھی یہی ہے ۔حو اس کے ذریعے سے جو اثرات نفس انسانی تک پہنچتے ہیں، اُن سے موثرات (?)پر استدلال اِسی کا وظیفہ ہے جس سے وجود خارجی کا یقین حاصل ہوتا ہے۔

بہت شکریہ،

جنید حسن
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ ایپسٹیمالوجی Epistemology کے سوال ہیں اور بقول ول ڈیورنٹ فلسفے کی یہ شاخ ایک گورکھ دھندہ ہے۔ بقولِ مرزا، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی :)
 
آپ کے تجویز کردہ اکثر تراجم تو براہِ راست لغت بینی کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن فلسفیانہ اصطلاحات میں یہ الفاظ ایک بالکل مختلف رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔
میں نے آپ کے نشان زدہ الفاظ کو اپنی فلسفہ دانی کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرا فلسفے کا مطالعہ جو کچھ رہا ہے انگریزی میں رہا ہے۔ محدود لسانی قابلیت اور محدود تر مطالعے کے ساتھ صحتِ ترجمہ کی ضمانت تو میں نہیں دے سکتا مگر انگریزی میں میرے ترجمہ شدہ الفاظ کی تعریفیں ملاحظہ کی جانی چاہئیں۔ یا تو تشفی ہو جائے گی یا کوئی اور راہ کھلے گی۔
ترجمے کا پیمانہ ہرگز لغوی نہیں ہے بلکہ میں نے بین السطور سمجھنے کی کوشش کر کے ترجمہ کیا ہے۔ ساتھ ترجمے کی حتی المقدور وضاحت اور توجیہ بھی پیش کر دی ہے۔
بدیہی = a priori
فلسفے اور علمیات میں سادہ طور پر اس سے مراد وہ معلومات ہیں جن کا ذہن اکتساب نہیں کرتا بلکہ ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔
نظری = a posteriori
وہ علم جو اکتساب سے ذہن نشین ہوتا ہے۔
مدارک = perceptions
غالباً مدرَک یا مدرَکہ (رائے قرشت کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے۔ مدرَک اسمِ مفعول ہے جس کا معنیٰ ہے ادراک کردہ شدہ۔ اردو میں اسے مختصراً بیان کرنا میرے بس سے باہر ہے۔
نفسِ مدرکہ = perceiving mind
یہاں مدرِکہ بہ رائے مکسور ہے جس کے معنیٰ ادراک کرنی والی کے ہیں۔
اثرِ محسوس = perceived effect/positive effect
فحوائے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے سوفسطائی یا پھر منطقی اثباتیت کے مؤیدین مراد ہیں۔ اگر سوفسطائیت مراد سمجھی جائے تو perceived effect ورنہ positive effect۔
موضوعات = ؟
حامل = ؟
محمول = ؟
فعل و انفعال = activity and passivity

معروف ترجمہ یہی ہے۔ ویسے میں نے گفتگو کے تناظر میں فعل سے فعالیت مراد لی ہے۔
مدرک و غیر مدرک = perceived and unperceived
مدرَک بہ رائے مفتوح۔
عوارض = characteristics
یعنی جوہر کی خصوصیات۔
مؤثرات = causes
مؤثِرہ بہ ثائے ثخذ مکسور کے معنی اثر پیدا کرنے والی کے ہیں۔ اسے موثَر بہ ثائے مفتوح قیاس کرنے سے گفتگو بے ربط ہو جاتی ہے۔
اصل میں مصنف کے خیالات اور موضوع ٹھیٹھ فلسفیانہ ہیں مگر اصطلاحات کو میرے خیال میں اس نے اس باقاعدگی، احتیاط اور تردد سے نہیں برتا جو فلسفیانہ طرزِ تحریر کا خاصہ ہیں۔ بلکہ ادیبانہ اور کسی قدر شاعرانہ طور پر گفتگو کی ہے۔ اس باعث اس کا مدعا سمجھ لینا تو آسان ہے مگر سمجھانا یا ترجمہ کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ ترجمے اور وضاحت کی اس قسم کی کوشش میں، جیسی میں نے کی ہے، اکثر حد سے بڑھی ہوئی عمومیت در آتی ہے جو غلط فہمی اور بحث کو جنم دے سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میں نے یہ سب غلط سمجھا ہو۔
مضمحل ہو گئے قویٰ، غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں؟​
اس سلسلے میں شاید مزمل شیخ بسمل مدد فرما سکیں۔ وہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور پڑھتے لکھتے رہتے بھی ہیں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
فلسفہ میں لفظ اور اصطلاح کی precision کافی اہمیت رکھتی ہے۔ میں نے جتنا فلسفہ پڑھا ہے سب انگریزی میں لہذا اردو اصطلاحات کے ساتھ یہ مراسلہ سمجھنا کافی مشکل لگا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ان اصطلاحات کے لیے قاضی قیصر الاسلام صاحب کی کتاب مفید ثابت ہو گی ۔ فلسفے اور فلسفیانہ تاریخ پر ایک کنسائز کتاب ہے ۔

موضوع سے مراد سبجیکٹو کنٹینٹ ہے جو عموماََ آبجیکٹو کنٹینٹ کے ساتھ استعمال میں آتا ہے جس کے لیے معروضی کہتے ہیں ۔
 
خارج سے جو چیز آتی ہے، وہ صرف موضوعات(؟) ہیں۔
موضوع سے مراد سبجیکٹو کنٹینٹ ہے جو عموماََ آبجیکٹو کنٹینٹ کے ساتھ استعمال میں آتا ہے جس کے لیے معروضی کہتے ہیں ۔
موضوعی مواد خارج سے کیسے آ سکتا ہے؟ مصنف کسی اور ہی شے کی بات کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اقتباس کردہ ٹکڑے کی وجہ ہی سے میں متردد ہو گیا تھا۔
 
گو کہ وقت بہت کم ہے۔ لیکن راحیل بھائی کی محبت اور اپنے ذاتی میلان کی وجہ سے حاضر ہو گیا ہوں۔
پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مذکورہ بالا اقتباس میں کئی باتیں ایسی ہیں جن کا تعلق فلسفہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کے اطراف و جوانب کو بطور اجمال کے لے لیا گیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فلسفہ پڑھنے کا چلن نہیں ہے۔ اسی لیے یہی اقتباس اگر انگریزی میں بھی لکھا جائے تو ابلاغ ایک عام انگریزی کے قاری کے لیے مشکل ہی ہوگا۔ حتی کہ وہ فلسفہ کا قاری ہو۔ اور طرہ یہ ہے کہ اردو میں فلسفہ لکھا نہیں گیا۔ بہر حال۔ میں سطر بسطر ہلکی پھلکی تشریح کرکے سمجھا دیتا ہوں۔
علم کو
بدیہی (اے پرائیو رائے)
اور
نظری(اے پوسٹیریورائے)
میں تقسیم کیا جاتا ہے۔​
غالباً ان اصطلاحات کو فلسفہ میں باقاعدگی سے استعمال کرنے والا اور اپنے نظامَ فکر کی بنیاد بنانے والا سب سے پہلا فلسفی امانول کانٹ تھا جس نے کریٹیق آف پیور ریزن میں اس کا باقاعدہ استعمال کیا تھا۔
چنانچہ بدیہی علم ہر وہ علم ہے جو انسان کو تجربہ سے پہلے حاصل ہوتا ہے۔ اب تجربہ سے پہلے حاصل ہونے والا علم کیا ہوتا ہے؟ اس بات کی صاحب اقتباس نے شاید اپنی ہی تشفی کے لیے وضاحت نہیں کی ہے۔ در اصل تجربے سے پہلے حاصل ہونے والے علوم میں کانٹ نے زمان اور مکان کا تصور رکھا ہے۔ کانٹ یہ کہتا ہے کہ ہمارا دماغ سپیس اور ٹائم کو بغیر کسی تجربے کے کشید کرتا ہے۔ کیونکہ دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ دماغ میں پائے جانے والے تمام تجرباتی یا نظری علوم سپیس اور ٹائم کے فریم میں ڈھل کر ہی کوئی تصور قائم کر پاتے ہیں۔ اس لحاظ سے زمان اور مکان کے تصور گویا بدیہات ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ریاضی کے قضیے۔ کہ وہ تجربے سے پہلے (قبل تجربی یا A priori) موجود ہیں۔

پھر
مدارک (؟)
کی حقیقت موضوع بحث بنی اور بدیہی کو اصل قرار دیا گیا تو اُس کی علامت یہ سمجھی گئی کہ اُس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوتا، مگر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز سے اختلاف کر سکتا ہے۔​
گویا پہلے بحث یہ تھی کہ دماغ سے باہر کی دنیا کیا ہے اور اسے ہم کہاں تک جانتے ہیں، یا جان سکتے ہیں۔ پھر مدارک یعنی اندرونِ دماغ کی دنیا جسے ہم حواسِ خمسہ سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں ان کی بحث آئی۔ اور اس میں سوالات پیدا ہوئے کہ کیا حقیقت ہے اور کیا غیر حقیقت۔ بدیہات کو حقیقت کا قائم مقام ماننے پر بھی کئی مباحث وجود میں آئے۔

وسرا یہ کہتا ہے کہ علم و اردات نفس ہیں اور
نفس مدرکہ(؟)
کے سوا ہم کسی موجود کے وجود کا یقین نہیں رکھتے۔​
بشپ بارکلے کا نظریہ۔ یعنی جو کچھ ہے وہ دماغ میں ہے۔ خارج میں کچھ نہیں ہے۔ یعنی کہ اگر میں ایک درخت دیکھتا ہوں تو وہ صرف میرے حواس کی وجہ سے ہے۔ جب میرے حواس موجود نہ ہوں تو درخت موجود نہیں ہوگا۔ اس میں بارکلے کے حوالے سے مزید تفصیل بھی ہے جو اس کے الہیاتی نظریے تک پہنچتی ہے۔ لیکن تفصیل کا وقت نہیں۔
تیسرے کا دعویٰ ہے کہ
اثر محسوس(؟)
کے سوا کوئی چیز یقینی نہیں ہے​
محسوس یعنی جو کچھ حواسِ خمسہ سے حاصل ہوا۔

اِس لیے کہ خارج سے جو چیز آتی ہے، وہ صرف
موضوعات(؟)
ہیں۔ اُن کا حکم خارج سے نہیں آتا، وہ نفس کے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے۔​
موضوعات بمقابلہ معروضات (Objective vs Subjective)۔ موضوعات تمام ایسے مظاہر جنہیں دماغ کا اندرونی مظہر (فینامینن) سمجھا جائے۔ اس کے برعکس معروضات وہ ہیں جو دماغ کی دنیا (سینسبل ورلڈ) سے باہر ہو۔

ذات و صفات،
حامل و محمول(possessor and possession?)
،
فعل و انفعال(action and its effect?)
، حسن و قبح،
مدرک اور غیر مدرک (wise and unwise?)
اور ذات اور اُس کے
عوارض(disorders?)
میں فرق و امتیاز کا منبع بھی یہی ہے ۔حو اس کے ذریعے سے جو اثرات نفس انسانی تک پہنچتے ہیں، اُن سے
موثرات (?)
پر استدلال اِسی کا وظیفہ ہے جس سے وجود خارجی کا یقین حاصل ہوتا ہے۔​
عوارض بمعنی عجز۔
جس طرح ہر محمول کے لیے حامل، انفعال کے لیے فعل، حسن کے ساتھ قبح، مدرک کی ضد میں غیر مدرک (مدرک وہ جس کا تصور کیا گیا۔ غیر مدرک، تصور سے بالا) کی شرائط ہیں اسی طرح نفسِ مدرکہ پر جن اثرات سے علوم پہنچتے ہیں اس سے ہم خالص خارجی حقیقت کو کشید کرکے ان پر استدلال کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہتے ہیں کہ دماغ اور نفسِ مدرکہ سے باہر حتمی اور خارجی حقیقت کا وجود ہے۔

پس نوشت: اپنی طرف سے اس سے زیادہ تشریح میرے لیے ممکن نہیں ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ موضوع ایسا گنجلک ہے کہ جب تک آپ فلسفہ کے قاری نہ ہوں تب تک ایسی باتیں سمجھنا تھوڑا مشکل ہی لگتا ہے۔ لیکن اگر ہر اصطلاح کو غور سے پڑھ لیں تو مطلب سمجھ میں آجانا کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔
تشریح میں میرے ذاتی نظریات کو علیحدہ رکھیے۔ کیونکہ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کا تعلق حقیقی فلسفہ سے نہیں ہے۔ خصوصاً آخری سطریں میرے ناقص فہم کے مطابق چار چاند لگانے کے لیے لکھی گئی ہیں۔تاہم فلسفہ کا ایک ادنی سا قاری ہونے کی حیثیت سے مجھ پر لازم ہے کہ وضاحت کر دوں کہ اوپر جو کچھ لکھا ہے اسے تشریح ہی سمجھا جائے۔ شارح کا متفق ہونا ضرور نہیں۔

شکریہ۔
 
آخری تدوین:
اتنے مفصل اور عمدہ جواب کا بہت بہت شکریہ!

میں نے مصنف، جناب جاوید احمد غامدی، سے براہ راست بات کی اور اب کم و بیش یہ تمام الفاظ اور اصطلاحات مجھ پر واضح ہیں-

بدیہی اور نظری کا جو ترجمہ آپ نے کیا ہے وہ لینے میں بڑی مشکل یہ تھی کہ a priori and a posteriori کی جدید تفہیم تجربے کو ان میں اصل فارق قرار دیتی ہے، جبکہ مصنف نے یہاں تجربے کا ذکر ہی نہیں کیا- اس وجہ سے میں نے اس کا ترجمہ Aristotelian logicکی اصطلاحات immediate and mediate knowledgeسے کیا ، جو مصنف کی تعریف کے عین مطابق ہیں-جب مصنف سے بات ہی تو انہوں نے واضح کیا کہ دونوں ہی اصطلاحات درست ہیں، کانٹ سے پہلے a priori and a posterioriاسی طرح بیان کیے جاتے تھے-

مدارک آپ درست سمجھے ہیں- یہ مدرَک کی جمع ہے-

نفسِ مدرکہ بھی آپ نے درست بیان کیا ہے- میں نے اس کا ترجمہ "perceiving soul" کیا ہے-

"اثرِ محسوس" کا ترجمہ میں نے کیا ہے "impressions produced by senses" اور مصنف نے اس کی تائید کی-

"موضوعات" کا درست ترجمہ ہو گا "objects"- یعنی خارج سے جو کچھ آتا ہے، وہ صرف objectsہیں- ان کا حکم، مثلاً خوبصورتی و بدصورتی خارج سے نہیں آتی، یہ تصوّرات نفس میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں، جن کی بدولت وہ حکم لگاتا ہے -

انفعال یہاں اپنے عمومی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، یعنی اثر پذیری۔

حامل و محمول کا درست ترجمہ میرے خیال میں possessor and possessionہو گا-

اسی مضمون میں ایک اصطلاح استعمال ہوئی ہے، "علم محض"- اس کے لیے اگر کوئی انگریزی مترادف آپ کے ذہن میں ہو تو ضرور بتائیے گا- مصنف نے اس کی جو تشریح کی، وہ میرے الفاظ میں کچھ یوں ہے:

Ilm-e-maḥḍ implies that, though, it is a fact that something is in our knowledge but what it is, we do not know; we have no means to analyse it. It is just a state of knowledge that we find ourselves in. Neither do we know who the perceiver is, nor do we know what is being perceived, nor do we know of anything (if at all) in the external world.

مکمل مضمون یہاں "اضطراری علم" کے عنوان سے موجود ہے:

http://www.javedahmadghamidi.com/members/collection/qatai

ایک مرتبہ پھر آپ کا بیحد شکریہ!
 
مندرجہ بالا پیغام میں نے برادر راحیل فاروق کے لیے لکھا، مگر معلوم نہیں کیوں ان کے جواب کے ذیل میں یہ درج نہیں ہو سکا-

بردار مزمل شیخ بسمل، آپ کا بھی بہت بہت شکریہ! جو تاریخی پس منظر آپ نے دیا ہے، وہ نہایت مفید ہے-
 
اوہ، تو یہ غامدی صاحب تھے!
غامدی صاحب میرے بھی محسن ہیں۔ میری دہریت کے زمانے میں بہت سے معاملات میں ان کی پھیلائی ہوئی روشنی میں میں نے راستہ دیکھا۔ مگر پھر میں نے اس راستے پر کچھ دور موصوف کی اتباع میں قدم مارنے کے بعد راہ بدل لی۔ مجھے دین میں ان کا عقلیاتی رویہ کچھ شدت پسندانہ معلوم ہوتا ہے اور اصطلاحات و تصورات کا جو طومار انھوں نے باندھ رکھا ہے اس سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ صاف صاف کہوں تو ایک مصرعے پر بات ختم کی جا سکتی ہے:
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں​
لیکن ان کے تبحر اور دینی خدمات کا انکار بہرحال میرے بس میں نہیں۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ آنے والےزمانوں میں عصرِ حاضر کے ایک ایسے ہی مصلح کے طور پر دیکھے جائیں گے جیسے ان کے پیش روؤں میں سرسید تھے۔
"موضوعات" کا درست ترجمہ ہو گا "objects"- یعنی خارج سے جو کچھ آتا ہے، وہ صرف objectsہیں- ان کا حکم، مثلاً خوبصورتی و بدصورتی خارج سے نہیں آتی، یہ تصوّرات نفس میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں، جن کی بدولت وہ حکم لگاتا ہے -
یہ ترجمہ فاضل مصنف کے بطن میں موجود معنیٰ کے لحاظ سے تو یقیناً درست ہے مگر پیچیدگی یہ ہے کہ موضوع کا لفظ فلسفے کی روایت میں خارج کی بجائے داخل سے متعلق ہے اور ہمیشہ اسی ذیل میں استعمال ہوتا ہے۔ غامدی صاحب نے اسے تقریباً الٹ معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ یہ رعایت انھیں شاعر اور ادیب ہونے کے ناتے ہی دی جا سکتی ہے ورنہ فلسفیانہ طرزِ نگارش کے لحاظ سے وہ ایک فاش غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مجھے مضمون کے اسلوب سے موصوف کا نہ سہی ان کے مزاج کا کسی قدر اندازہ ضرور ہو گیا تھا۔
اصل میں مصنف کے خیالات اور موضوع ٹھیٹھ فلسفیانہ ہیں مگر اصطلاحات کو میرے خیال میں اس نے اس باقاعدگی، احتیاط اور تردد سے نہیں برتا جو فلسفیانہ طرزِ تحریر کا خاصہ ہیں۔ بلکہ ادیبانہ اور کسی قدر شاعرانہ طور پر گفتگو کی ہے۔ اس باعث اس کا مدعا سمجھ لینا تو آسان ہے مگر سمجھانا یا ترجمہ کرنا دشوار ہو گیا ہے۔
اب جب کہ میں انھیں پہچان گیا ہوں تب بھی میں ان سے اپنا اسلوب بدلنے کی درخواست نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ اگر ان کے اندر شاعرانہ اور ادیبانہ دل آسائی، نرمی اور رقت موجود نہ ہوتی تو وہ شاید اسلام کے ایک عظیم دوست کی بجائے عظیم دشمن ہوتے۔ میرے تجربے کی رو سے حد سے بڑھا ہوا تعقل مزاج میں اس خشکی کو راہ دیتا ہے جو فنون کے ساتھ ساتھ مذاہب کی بھی قاتل ہے۔
اسی مضمون میں ایک اصطلاح استعمال ہوئی ہے، "علم محض"- اس کے لیے اگر کوئی انگریزی مترادف آپ کے ذہن میں ہو تو ضرور بتائیے گا- مصنف نے اس کی جو تشریح کی، وہ میرے الفاظ میں کچھ یوں ہے:

Ilm-e-maḥḍ implies that, though, it is a fact that something is in our knowledge but what it is, we do not know; we have no means to analyse it. It is just a state of knowledge that we find ourselves in. Neither do we know who the perceiver is, nor do we know what is being perceived, nor do we know of anything (if at all) in the external world.
اگر گستاخی پر محمول نہ فرمائیں تو یہاں بھی موضوعات کے ترجمے والی گڑبڑ محسوس ہو رہی ہے مجھے۔ اگر آپ نے مصنف کے مدعا کو درست سمجھا ہے تو ایسے علم کا تصور میں نے کسی فلسفی کے ہاں نہیں دیکھا۔ خاص طور پر آپ کی بیان کردہ تشریح کا دوسرا نصف خاصا ابہام انگیز ہے۔ بہت جوڑ توڑ بھی کیا جائے تو علم کی یہ قسم سری یا متصوفانہ نوعیت کے ادراک کے کلبوت پر چڑھائی جا سکتی ہے۔ مگر اس صورت میں علمِ محض کا لفظ اس کے لیے میری رائے میں قطعی طور غیرموزوں ہے۔
ایک صورت اور ہو سکتی ہے۔ موصوف کے مضمون کو دیکھنے کے بعد مجھے شک ہوتا ہے کہ شاید ان کی مراد تجریدی علم سے ہو۔ لیکن اس کے حق میں یا خلاف بھی کوئی حوالہ مضمون سے نہیں ملتا۔ محض تجریدی علم پر مدار کے بعد نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ مجھے کسی فلسفی کے نظامِ فکر میں اس قسم کے تصور کا بھی شائبہ نہیں ملا۔ لیکن میری ہیچ مدانی بھی بہرحال ملحوظ رہنی چاہیے۔
حکیمِ المانی نطشے نے فلسفہ لکھتے ہوئے حوالہ دینے یا حواشی لکھنے کو کبھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ غالباً اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ جرمن زبان کا ایک بلند پایہ ادیب تھا جس کے فکر پر فنون و ادبیات سے لگاؤ کی چھاپ واضح ہے۔ مگر لوگ نطشے کو اس کی پیچیدگی، عدم توازن اور دشوار اسلوب کے باوجود عظیم سمجھتے ہیں اور بیسویں صدی میں جرمن قوم پرستی کے طوفان کا سہرا اسی کے سر باندھا جاتا ہے۔ غامدی صاحب کو بھی اپنی جگہ پر اس لحاظ سے میں نطشے جیسا ہی سمجھتا ہوں۔ :)
 
آخری تدوین:
عرب شاید اسے المانیہ کہتے ہیں۔ اہلِ فارس آلمان کہتے ہیں۔ عربی کی بابت اگر ہمارا گمان درست ہے تو اسے المانوی ہی ہونا چاہیے۔ مگر فارسی میں المانی اور آلمانی دونوں طرح سے ملتا ہے۔ گوگل میں الفِ ممدودہ کے بغیر خالص 'المانی' کی کھوج سے فارسی اور دیگر زبانوں کے تقریباً 524,000 نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ 'المانوی' کو ڈھونڈا جائے تو بمشکل 1050 جگہوں پر اس کا وجود نظر آتا ہے۔
مجید امجدؔ مرحوم کی معروف نظم میونخ میں بھی 'المان' کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا اسمِ صفت المانوی کی بجائے المانی زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
’’میری شالاط، اے مری شالاط
اے میں قرباں! تم آ گئیں، بیٹی؟‘‘
اور وہ دختِ ارضِ الماں جب
سر سے گٹھڑی اتار کر، جھک کر
اپنی امی کے پاؤں پڑتی ہے
اس کی پلکوں پہ ملک ملک کی گرد
ایک آنسو میں ڈوب جاتی ہے​
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
عرب شاید اسے المانیہ کہتے ہیں۔ اہلِ فارس آلمان کہتے ہیں۔ عربی کی بابت اگر ہمارا گمان درست ہے تو اسے المانوی ہی ہونا چاہیے۔ مگر فارسی میں المانی اور آلمانی دونوں طرح سے ملتا ہے۔ گوگل میں الفِ ممدودہ کے بغیر خالص 'المانی' کی کھوج سے فارسی اور دیگر زبانوں کے تقریباً 524,000 نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ 'المانوی' کو ڈھونڈا جائے تو بمشکل 1050 جگہوں پر اس کا وجود نظر آتا ہے۔
مجید امجدؔ مرحوم کی معروف نظم شالاط میں میں بھی 'المان' کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا اسمِ صفت المانوی کی بجائے المانی زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
’’میری شالاط، اے مری شالاط
اے میں قرباں، تم آ گئیں، بیٹی!‘‘
اور وہ دختِ ارضِ الماں جب
سر سے گٹھڑی اتار کر جھک کر
اپنی امی کے پاؤں پڑتی ہے
اس کی پلکوں پہ ملک ملک کی گرد
ایک آنسو میں ڈوب جاتی ہے​
ممکن ہے دونوں طرح مستعمل ہو، بہرحال میرے لیے یہ بڑی سند ہے، اس نسخے کی کتابت علامہ کی اپنی نگرانی میں ہوئی تھی۔
Fullscreen%20capture%2019-Apr-16%20110757%20PM.jpg
 
ممکن ہے دونوں طرح مستعمل ہو، بہرحال میرے لیے یہ بڑی سند ہے، اس نسخے کی کتابت علامہ کی اپنی نگرانی میں ہوئی تھی۔
Fullscreen%20capture%2019-Apr-16%20110757%20PM.jpg
میں بھی پہلے 'المانوی' ہی کو اس لفظ کی واحد یا مستند صورت سمجھتا تھا۔ مگر، جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے، اس شکل میں اس کا استعمال السنۂِ اسلامیہ میں کم تر ہے۔
ایک فاضل دوست نے یہ توضیح بھی فرمائی ہے کہ اہلِ عرب بھی اسے المانی ہی بولتے ہیں۔ تاہم میری رائے میں اگر اردو میں برطانیہ سے برطانوی، اطالیہ سے اطالوی وغیرہ ہو سکتے ہیں تو المانوی میں بھی کوئی ایسی قباحت نہیں۔ لفظ المانیہ کے وجود سے تو بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا۔ :)
 
اوہ، تو یہ غامدی صاحب تھے!
غامدی صاحب میرے بھی محسن ہیں۔ میری دہریت کے زمانے میں بہت سے معاملات میں ان کی پھیلائی ہوئی روشنی میں میں نے راستہ دیکھا۔ مگر پھر میں نے اس راستے پر کچھ دور موصوف کی اتباع میں قدم مارنے کے بعد راہ بدل لی۔ مجھے دین میں ان کا عقلیاتی رویہ کچھ شدت پسندانہ معلوم ہوتا ہے اور اصطلاحات و تصورات کا جو طومار انھوں نے باندھ رکھا ہے اس سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ صاف صاف کہوں تو ایک مصرعے پر بات ختم کی جا سکتی ہے:
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں​
لیکن ان کے تبحر اور دینی خدمات کا انکار بہرحال میرے بس میں نہیں۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ آنے والےزمانوں میں عصرِ حاضر کے ایک ایسے ہی مصلح کے طور پر دیکھے جائیں گے جیسے ان کے پیش روؤں میں سرسید تھے۔

یہ ترجمہ فاضل مصنف کے بطن میں موجود معنیٰ کے لحاظ سے تو یقیناً درست ہے مگر پیچیدگی یہ ہے کہ موضوع کا لفظ فلسفے کی روایت میں خارج کی بجائے داخل سے متعلق ہے اور ہمیشہ اسی ذیل میں استعمال ہوتا ہے۔ غامدی صاحب نے اسے تقریباً الٹ معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ یہ رعایت انھیں شاعر اور ادیب ہونے کے ناتے ہی دی جا سکتی ہے ورنہ فلسفیانہ طرزِ نگارش کے لحاظ سے وہ ایک فاش غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مجھے مضمون کے اسلوب سے موصوف کا نہ سہی ان کے مزاج کا کسی قدر اندازہ ضرور ہو گیا تھا۔

اب جب کہ میں انھیں پہچان گیا ہوں تب بھی میں ان سے اپنا اسلوب بدلنے کی درخواست نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ اگر ان کے اندر شاعرانہ اور ادیبانہ دل آسائی، نرمی اور رقت موجود نہ ہوتی تو وہ شاید اسلام کے ایک عظیم دوست کی بجائے عظیم دشمن ہوتے۔ میرے تجربے کی رو سے حد سے بڑھا ہوا تعقل مزاج میں اس خشکی کو راہ دیتا ہے جو فنون کے ساتھ ساتھ مذاہب کی بھی قاتل ہے۔

اگر گستاخی پر محمول نہ فرمائیں تو یہاں بھی موضوعات کے ترجمے والی گڑبڑ محسوس ہو رہی ہے مجھے۔ اگر آپ نے مصنف کے مدعا کو درست سمجھا ہے تو ایسے علم کا تصور میں نے کسی فلسفی کے ہاں نہیں دیکھا۔ خاص طور پر آپ کی بیان کردہ تشریح کا دوسرا نصف خاصا ابہام انگیز ہے۔ بہت جوڑ توڑ بھی کیا جائے تو علم کی یہ قسم سری یا متصوفانہ نوعیت کے ادراک کے کلبوت پر چڑھائی جا سکتی ہے۔ مگر اس صورت میں علمِ محض کا لفظ اس کے لیے میری رائے میں قطعی طور غیرموزوں ہے۔
ایک صورت اور ہو سکتی ہے۔ موصوف کے مضمون کو دیکھنے کے بعد مجھے شک ہوتا ہے کہ شاید ان کی مراد تجریدی علم سے ہو۔ لیکن اس کے حق میں یا خلاف بھی کوئی حوالہ مضمون سے نہیں ملتا۔ محض تجریدی علم پر مدار کے بعد نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ مجھے کسی فلسفی کے نظامِ فکر میں اس قسم کے تصور کا بھی شائبہ نہیں ملا۔ لیکن میری ہیچ مدانی بھی بہرحال ملحوظ رہنی چاہیے۔
حکیمِ المانی نطشے نے فلسفہ لکھتے ہوئے حوالہ دینے یا حواشی لکھنے کو کبھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ غالباً اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ جرمن زبان کا ایک بلند پایہ ادیب تھا جس کے فکر پر فنون و ادبیات سے لگاؤ کی چھاپ واضح ہے۔ مگر لوگ نطشے کو اس کی پیچیدگی، عدم توازن اور دشوار اسلوب کے باوجود عظیم سمجھتے ہیں اور بیسویں صدی میں جرمن قوم پرستی کے طوفان کا سہرا اسی کے سر باندھا جاتا ہے۔ غامدی صاحب کو بھی اپنی جگہ پر اس لحاظ سے میں نطشے جیسا ہی سمجھتا ہوں۔ :)

السلام علیکم برادر راحیل فاروق،

غامدی صاحب کے فکر سے میں اچھی طرح واقف ہوں اور میں پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ ان کے متعلق یہ دونوں باتیں خلاف واقعہ ہیں- عقل کی کیا حدود ہیں، اس کی روشنی میں کیا سمجھا جا سکتا ہے اور کیا نہیں، اس میں وہ بالکل واضح ہیں- اپنے قرآن کے ترجمے میں جگہ جگہ متشابہ آیات کے ذیل میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ ان باتوں کی حقیقت عقل نہیں سمجھ سکتی، ان کے درپے ہونا اپنے آپ کو فتنے میں ڈالنے کے مترادف ہے- پھر اسی مضمون "اضطراری علم" کو لے لیجیے، یہاں خدا کے وجود کے حق میں جو برہان وجودی (ontological argument) انہوں نے پیش کیا ہے، اسے وہ اس ضمن میں بنیادی حیثیت دیتے ہیں- ان کا اصرار ہے کہ استدلال الکائنات اور دیگر عقلی استدلالات اضافی ہیں-پھر ان کا تعلق "دبستان شبلی" سے ہے- سر سید احمد خان صاحب کے قرآن کریم کو سمجھنے کے اصول و مبادی سے یہ مکتبۂ فکر اصولی اختلافات رکھتا ہے، اور ان میں تطبیق کی کوئی صورت نہیں-

اصطلاحات و تصورات کا طورمار تو آپ کو علمی کام کرنے والے ہرشخص کے ہاں ملے گا، یہ علم کا اضطرار ہے- ہاں، البتہ متکلمین، فقہاء اور صوفیہ کا سا حال غامدی صاحب کے ہاں نہیں ہے - امام رازی، امام شافعی اور شیخ اکبر ابن عربی کے کام سے "میزان" کا موازنہ کر لیجیے، بات واضح ہو جائے گی-

نہیں، الٹے معنی میں لفظ کے استعمال کی اجازت تو کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی- غامدی صاحب نے "موضوع " کا لفظ اس کے عمومی معنی میں استعمال کیا ہے (یہ دیکھیے)- اس کے اصطلاحی معنی تو یہاں مراد ہی نہیں لیے جا سکتے کہ متن انہیں اگل دیتا ہے - اچھا،پھر یہاں objects کے لیے یہی لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کی وجہ میرے خیال سے یہ ہے کہ یہ لفظ جان دار اور بےجان، دونوں کا احاطہ کرتا ہے-

ہمارے بزرگ شاعر، صوفی اور فلسفی جناب احمد جاوید نے نطشے کو پڑھاتے ہوے "محض" کے لفظ کی بعینہ وہی تشریح کی، جن معنوں میں اسے غامدی صاحب نے یہاں استعمال کیا ہے- ان کا لیکچر Youtube پر موجود ہے-

میں اس بارے میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ جب غامدی صاحب علما فضلا کے لیے کچھ لکھتے ہیں تو اپنے قاری پر غیرمعمولی اعتماد کرتے ہیں- اس وجہ سے بعض اوقات مجھ جیسا طالب علم غلط فہمی کا شکار بھی ہو جاتا ہے- لیکن دوسری جانب "البیان" دیکھیے، جس کے مخاطب عوام و خواص دونوں ہیں- حواشی تکنیکی مگر ترجمہ نہایت دلنشیں، مشرح اور سہل ہے-


والسلام،

جنید
 
Top