مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی گذارش کے ساتھ یہ غزل پیش کر رہا ہوں
آگ ہوتی ہے جہاں پر بھی دھواں ہوتا ہے
مُشک اُٹھتا ہے وہاں عشق جہاں ہوتا ہے
دل کو چھو جائے ،جو آنکھوں میں بسیرا کر لے
ایسے ہر شخص پہ تیرا ہی گماں ہوتا ہے
تجھ پہ دیوان پہ دیوان لکھے جاتے ہیں
کس سے اک خط میں تِرا حسن بیاں ہوتا ہے
خود بھی روتا ہے جدائی کا جو وُہ ذکر کرے
میری آنکھوں سے بھی اک سیل رواں ہوتا ہے
میں ہوں تنہا ہی تڑپتا شبِ ہجر آتی ہے جب
شامل اس دُکھ میں کوئی اور کہاں ہوتا ہے
اس کے پہلو میں رہوں بات کرے یا نہ کرے
اتنا کافی ہے کہ حُسن اس کا عیاں ہوتا ہے
دوریاں اور بڑھا دیتی ہیں ملنے کی تڑپ
ہجر کے دور میں عشق اور جواں ہوتا ہے
تجھ سے مل کر فقط آتی نہیں چہرے پہ خوشی
میرے اندر بھی تو شادی کا سماں ہوتا ہے
لوگ بھی مجھ سے یونہی اس کا پتہ پوچھتے ہیں
وُہ مرے دل میں ہی ہے اور کہاں ہوتا ہے
سر جھکاتا ہوں وہیں ،اس کو سمجھ کر مندر
جس جگہ پر بھی کوئی نقشِ بتاں ہوتا ہے
عشق بھی کرتا رہوں ، پھر بھی تماشا نہ بنوں
ایسا مقبول اس دنیا میں کہاں ہو تا ہے
آگ ہوتی ہے جہاں پر بھی دھواں ہوتا ہے
مُشک اُٹھتا ہے وہاں عشق جہاں ہوتا ہے
دل کو چھو جائے ،جو آنکھوں میں بسیرا کر لے
ایسے ہر شخص پہ تیرا ہی گماں ہوتا ہے
تجھ پہ دیوان پہ دیوان لکھے جاتے ہیں
کس سے اک خط میں تِرا حسن بیاں ہوتا ہے
خود بھی روتا ہے جدائی کا جو وُہ ذکر کرے
میری آنکھوں سے بھی اک سیل رواں ہوتا ہے
میں ہوں تنہا ہی تڑپتا شبِ ہجر آتی ہے جب
شامل اس دُکھ میں کوئی اور کہاں ہوتا ہے
اس کے پہلو میں رہوں بات کرے یا نہ کرے
اتنا کافی ہے کہ حُسن اس کا عیاں ہوتا ہے
دوریاں اور بڑھا دیتی ہیں ملنے کی تڑپ
ہجر کے دور میں عشق اور جواں ہوتا ہے
تجھ سے مل کر فقط آتی نہیں چہرے پہ خوشی
میرے اندر بھی تو شادی کا سماں ہوتا ہے
لوگ بھی مجھ سے یونہی اس کا پتہ پوچھتے ہیں
وُہ مرے دل میں ہی ہے اور کہاں ہوتا ہے
سر جھکاتا ہوں وہیں ،اس کو سمجھ کر مندر
جس جگہ پر بھی کوئی نقشِ بتاں ہوتا ہے
عشق بھی کرتا رہوں ، پھر بھی تماشا نہ بنوں
ایسا مقبول اس دنیا میں کہاں ہو تا ہے