اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
~~~~~~~~~~~~
جدید ہے یہ تخیّل ، اگرچہ مبہم ہے
چمن ہے جھیل سا ، مثلِ حباب شبنم ہے
دلِ حیات دھڑکتا ہے درد کے باعث
حیاتِ دل کے لیے درد جزوِ اعظم ہے
شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
بھڑکنے والا شرر کچھ شرار سے کم ہے
کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے
میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے
اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے
فراق ، دھوپ کی گرمی سا دائمی ہے مگر
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے
کبھی تو لگتا ہے جیسے بہت زیادہ ہے یہ
کبھی یوں لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے
کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے
غزل کی غیر ہے حالت کہ عہدِ حاضر کے
بہت سے شاعروں سے اس کی ناک میں دم ہے
یہ بھی بہت ہے کہ آج آپ نے کہا مجھ سے
تمہاری قافیہ پیمائی میں بڑا دم ہے !
بس اس لیے کہ ہے غالبؔ کی یہ زمین ، اشرف !
اک آدھ شعر مِری اِس غزل کا مبہم ہے
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
~~~~~~~~~~~~
جدید ہے یہ تخیّل ، اگرچہ مبہم ہے
چمن ہے جھیل سا ، مثلِ حباب شبنم ہے
دلِ حیات دھڑکتا ہے درد کے باعث
حیاتِ دل کے لیے درد جزوِ اعظم ہے
شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
بھڑکنے والا شرر کچھ شرار سے کم ہے
کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے
میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے
اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے
فراق ، دھوپ کی گرمی سا دائمی ہے مگر
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے
کبھی تو لگتا ہے جیسے بہت زیادہ ہے یہ
کبھی یوں لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے
کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے
غزل کی غیر ہے حالت کہ عہدِ حاضر کے
بہت سے شاعروں سے اس کی ناک میں دم ہے
یہ بھی بہت ہے کہ آج آپ نے کہا مجھ سے
تمہاری قافیہ پیمائی میں بڑا دم ہے !
بس اس لیے کہ ہے غالبؔ کی یہ زمین ، اشرف !
اک آدھ شعر مِری اِس غزل کا مبہم ہے