برائے اصلاح : اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔

~~~~~~~~~~~~

جدید ہے یہ تخیّل ، اگرچہ مبہم ہے
چمن ہے جھیل سا ، مثلِ حباب شبنم ہے

دلِ حیات دھڑکتا ہے درد کے باعث
حیاتِ دل کے لیے درد جزوِ اعظم ہے

شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
بھڑکنے والا شرر کچھ شرار سے کم ہے

کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے

میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے

اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے

فراق ، دھوپ کی گرمی سا دائمی ہے مگر
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے

کبھی تو لگتا ہے جیسے بہت زیادہ ہے یہ
کبھی یوں لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے

کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے

غزل کی غیر ہے حالت کہ عہدِ حاضر کے
بہت سے شاعروں سے اس کی ناک میں دم ہے

یہ بھی بہت ہے کہ آج آپ نے کہا مجھ سے
تمہاری قافیہ پیمائی میں بڑا دم ہے !

بس اس لیے کہ ہے غالبؔ کی یہ زمین ، اشرف !
اک آدھ شعر مِری اِس غزل کا مبہم ہے
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔

~~~~~~~~~~~~

جدید ہے یہ تخیّل ، اگرچہ مبہم ہے
چمن ہے جھیل سا ، مثلِ حباب شبنم ہے

دلِ حیات دھڑکتا ہے درد کے باعث
حیاتِ دل کے لیے درد جزوِ اعظم ہے
یہ دونوں تو سر کے اوپر سے نکل گئے
درد بطور جزو اعظم کسی دوا کا جزو تو ہو سکتا ہے لیکن حیات دل کے لیے؟
شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
بھڑکنے والا شرر کچھ شرار سے کم ہے

کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے

میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے
تینوں پر داد
اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے
حمدیہ؟یک خدا کے عشق میں سرشار ارض و سما کچھ درست نہیں لگتا
فراق ، دھوپ کی گرمی سا دائمی ہے مگر
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے
خوب!
کبھی تو لگتا ہے جیسے بہت زیادہ ہے یہ
کبھی یوں لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے
پہلے مصرع میں تھوڑی تبدیلی کر دو
کبھی یہ لگتا ہے جیسے بہت زیادہ ہے، اگرچہ تقابل ردیفین ہے، یا کچھ َاور متبادل سوچو
دوسرے مصرعے میں بھی "یوں" ذرا کھٹکتا ہے، وہاں بھی یہ کہیں تو؟
یا زندگی کو پہلے مصرع میں لا کر دوسرے کو
مگر کبھی کبھی لگتا ہے، یہ بہت کم ہے
کر دو
کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے
درست، مجھے غم کی جگہ اگر اسے بہت غم ہے کر دیں تو؟
غزل کی غیر ہے حالت کہ عہدِ حاضر کے
بہت سے شاعروں سے اس کی ناک میں دم ہے
یہ شعر نکال ہی دو
یہ بھی بہت ہے کہ آج آپ نے کہا مجھ سے
تمہاری قافیہ پیمائی میں بڑا دم ہے !
یہی بہت ہے....
بس اس لیے کہ ہے غالبؔ کی یہ زمین ، اشرف !
اک آدھ شعر مِری اِس غزل کا مبہم ہے
درست
 

اشرف علی

محفلین
چار اشعار پر داد مل گئی ،اور کیا چاہیے
پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے بے حد ممنون ہوں سر
جزاک اللہ خیر
ٹھیک ہے سر ، شکریہ
مجھے لگا "یہی بہت ہے" سے بات نہیں بنے گی اس لیے "یہ بھی بہت"لانا پڑا تھا ،اب ڈاؤٹ ختم ہو گیا ، بہت بہت شکریہ سر ، جزاک اللہ خیر

یہی بہت ہے کہ آج آپ نے کہا مجھ سے
تمہاری قافیہ پیمائی میں بڑا دم ہے !

درست، مجھے غم کی جگہ اگر اسے بہت غم ہے کر دیں تو؟
"اسے بہت غم ہے" یا نہیں ، یہ مجھے نہیں پتا سر ! لیکن مجھے تو ہے تا کہ شعر سچا رہے ، ویسے بھی پوری غزل میں یہی ایک پرسنل شعر ہو پایا ہے

"اسے بہت غم ہے" کرنے سے کیا دونوں مصرعوں میں "اسے" کی تکرار بھلی لگے گی سر ؟

کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک اسے بہت غم ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم اشرف بھائی


جدید ہے یہ تخیّل ، اگرچہ مبہم ہے
چمن ہے جھیل سا ، مثلِ حباب شبنم ہے
بھئی یہ تو صاف دولخت شعر ہے۔
دلِ حیات دھڑکتا ہے درد کے باعث
حیاتِ دل کے لیے درد جزوِ اعظم ہے
میں چاہوں گا کہ اس شعر کی آپ شرح فرمائیں ۔شرح سےمراد محض نثر کر دینا نہیں ہوتا بلکہ اس فلسفے کو وضاحت سے بیان کریں کہ جو شعر میں پیش کیا گیا ہے:دل حیات : اور :حیات دل: پر روشنی ڈالتے ہوئے۔
شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
بھڑکنے والا شرر کچھ شرار سے کم ہے
صاف لگتا ہے کہ غالب کے شعر کو دیکھ دیکھ کر شعوری کوشش کی گئی ہے کچھ کہنےکی:

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے
یہاں رعایت لفظی جو پیدا ہوئی ہے تو یہ کوئی اصول نہیں کہ شہ شاہ سے ،رہ راہ سے ،شرر شرار سے ،کم ہی ہوں گے یعنی یہ اسمائے مصغر بنانے کا قاعدہ نہیں۔
میری ناقص رائے میں غالب کی مراد یہ ہے کہ عدم التفات میں بھی ایک التفات ہوتا ہے جس کا ادراک بتدریج ہوتا ہےاور اس میں لطف یہ ہوتا ہے کہ ظاہر نہیں ہوتا۔
آپ کی مراد جبکہ شعر میں ہے کہ شروع ہجر میں شرر تھا پھر وسط ہجر میں شرار ہوا اور آخر ہجر میں شرارہ بن گیا جس سے ہر غرارہ پناہ مانگتا ہے۔
کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے
واہ ، خوب ۔کیا برجستہ کہا۔
میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے
واہ۔
اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے
واہ ۔بہت خوب ،میرے ذوق کو تو یہ شعر بھایا ۔
فراق ، دھوپ کی گرمی سا دائمی ہے مگر
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے
لطف نہ آ سکا۔فراق و وصال میں جو ربط ہے وہ دھوپ کی گرمی اور بارشوں کے موسم میں نہ ہو سکا اور پھر دھوپ کی دائم گرمی نے الجھا دیا ہے شعر کو ۔
کبھی تو لگتا ہے جیسے بہت زیادہ ہے یہ
کبھی یوں لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے
یہ تو محض اٹھتے بیٹھتے کی ایک بات ہے جسے موزوں کر دیا گیا۔
کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے
واہ صاحب ۔یہ بھی برملا و برجستہ ،بھنے کباب کی ذرا سی خوشبو لیے ہوئے۔
غزل کی غیر ہے حالت کہ عہدِ حاضر کے
بہت سے شاعروں سے اس کی ناک میں دم ہے

یہ بھی بہت ہے کہ آج آپ نے کہا مجھ سے
تمہاری قافیہ پیمائی میں بڑا دم ہے !

بس اس لیے کہ ہے غالبؔ کی یہ زمین ، اشرف !
اک آدھ شعر مِری اِس غزل کا مبہم ہے
یہ اشعار تو حسب معمول آپ کی وقت گزاری کا وظیفہ ہیں۔

آپ شعر کے مبہم ہونے سے کیا مراد لیتے ہیں جس کا غزل میں دو بار آپ نے ذکر کیا؟
میں آپ کے خط کا منتظر ہوں ۔شرح بھی فرمائیے گا دوسرے شعر کی اور اس سوال کا جواب بھی مرحمت فرمائیے گا کہ شعر مبہم ہونا کیا ہوتا ہے۔

اللہ جل شانہ آپ کو عافیت دارین سے رکھے ۔آمین ۔
 

اشرف علی

محفلین
مجھے تو برا نہیں لگ رہا
ٹھیک ہے سر ، پھر ایسے ہی کر دیتا ہوں ، بہت شکریہ
پہلے مصرع میں تھوڑی تبدیلی کر دو
کبھی یہ لگتا ہے جیسے بہت زیادہ ہے، اگرچہ تقابل ردیفین ہے، یا کچھ َاور متبادل سوچو
دوسرے مصرعے میں بھی "یوں" ذرا کھٹکتا ہے، وہاں بھی یہ کہیں تو؟
یا زندگی کو پہلے مصرع میں لا کر دوسرے کو
مگر کبھی کبھی لگتا ہے، یہ بہت کم ہے
کر دو
تقابل ردیفین سے بچنے کے لیے ہی آخر میں "یہ" لائے تھے سر !

اب دیکھیے ۔۔۔

کبھی یہ لگتا ہے جیسے بہت زیادہ ہے
کبھی یہ لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے
یا
بہت زیادہ ہے یہ زندگی ، کبھی یوں لگا
مگر کبھی یوں لگا جیسے یہ بہت کم ہے
حمدیہ؟یک خدا کے عشق میں سرشار ارض و سما کچھ درست نہیں لگتا
جی سر !
صرف پہلا مصرع بدلنا ہوگا سر یا پورا شعر ؟
درد بطور جزو اعظم کسی دوا کا جزو تو ہو سکتا ہے لیکن حیات دل کے لیے؟
اس طرح ؟

دوائے دردِ دل اب کیا ہی کام آئے گی
کہ اس دوا میں تو خود درد جزوِ اعظم ہے
یا
کہ اس میں جب سببِ درد جزوِ اعظم ہے
یہ دونوں تو سر کے اوپر سے نکل گئے
مجھے لگا مقطع کی وجہ سے مطلع چل جائے گا
مطلع میں چمن کو جھیل سے اور شبنم کو حباب سے تشبیہ دیے ہیں سر اور شاید یہ خیال نیا ہواور عجیب لگے اس لیے پہلا مصرع میں جدید اور مبہم کا لفظ لائے ہیں ۔۔۔

نیا مطلع ۔۔۔

خلاف میرے یوں تو آج سارا عالم ہے
تم ایسے میں بھی مِرے ساتھ ہو ، یہ کیا کم ہے !
 
آخری تدوین:

اشرف علی

محفلین
السلام علیکم اشرف بھائی
و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
بھئی یہ تو صاف دولخت شعر ہے۔
او ! مجھے لگا تھا چل جائے گا
میں چاہوں گا کہ اس شعر کی آپ شرح فرمائیں ۔شرح سےمراد محض نثر کر دینا نہیں ہوتا بلکہ اس فلسفے کو وضاحت سے بیان کریں کہ جو شعر میں پیش کیا گیا ہے:دل حیات : اور :حیات دل: پر روشنی ڈالتے ہوئے۔
کہنا یہ چاہتا تھا کہ جس طرح ذکر کرنے والا دل زندہ ہوتا ہے یعنی اللہ کو یاد کرنے والا دل ،اور عام طور سے لوگ دکھ ،درد اور تکلیف میں ہی اللہ کو زیادہ یاد کرتے ہیں ، اس لیے "حیاتِ دل" کے لیے یعنی دل کو زندہ رکھنے کے لیے اللہ کو یاد کرنا ضروری ہے اور اللہ کی یاد چوں کہ دکھ درد تکلیف پہنچنے پر زیادہ آتی ہے اس لیے درد کا ہونا بے حد ضروری ہے
دوسرے مصرع کے شروع میں چوں کہ "حیاتِ دل" تھا اس لیے پہلے مصرع میں اسی طرح کی ایک ترکیب "دلِ حیات" لے آئے
پہلا مصرع میں صرف یہ کہنا تھا کہ زندگی میں اگر درد نہیں ہے توزندگی میں کوئی مزا بھی نہیں ہے اور اس مزا کے لیے "دھڑکتا"لفظ لائے تھے کیوں کہ حیات کے ساتھ دل کا لفظ بھی ترکیب میں شامل تھا
صاف لگتا ہے کہ غالب کے شعر کو دیکھ دیکھ کر شعوری کوشش کی گئی ہے کچھ کہنےکی:

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے
یہاں رعایت لفظی جو پیدا ہوئی ہے تو یہ کوئی اصول نہیں کہ شہ شاہ سے ،رہ راہ سے ،شرر شرار سے ،کم ہی ہوں گے یعنی یہ اسمائے مصغر بنانے کا قاعدہ نہیں۔
میری ناقص رائے میں غالب کی مراد یہ ہے کہ عدم التفات میں بھی ایک التفات ہوتا ہے جس کا ادراک بتدریج ہوتا ہےاور اس میں لطف یہ ہوتا ہے کہ ظاہر نہیں ہوتا۔
جی سر !
آپ کی مراد جبکہ شعر میں ہے کہ شروع ہجر میں شرر تھا پھر وسط ہجر میں شرار ہوا اور آخر ہجر میں شرارہ بن گیا جس سے ہر غرارہ پناہ مانگتا ہے۔
:LOL:

سر ! چوں کہ شرر اور شرار کاایک ہی مطلب ہوتا ہے تو کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ابھی ہجر کی شروعات ہے اس لیے عاشق کو جومحسوس ہو رہا ہے کہ اس کے دل میں چنگاری بھڑک رہی ہے وہ حقیقت میں چنگاری کہلانے کے لائق نہیں ہے
لطف نہ آ سکا۔فراق و وصال میں جو ربط ہے وہ دھوپ کی گرمی اور بارشوں کے موسم میں نہ ہو سکا اور پھر دھوپ کی دائم گرمی نے الجھا دیا ہے شعر کو
یہ پرانی غزل کا شعر ہے سر !
جس میں قافیہ موسم کی جگہ سیزن تھا
اسی شعر کی وجہ سے پوری غزل ہوئی ہے
کہنا یہ تھا کہ دھوپ جس طرح ہر موسم میں ہوتی ہے اسی طرح ایک عاشق فراق کی حالت میں ہر وقت رہتا ہے، کبھی کبھی تو وصال میں بھی (وصل ہے اور فراق طاری ہے )
لیکن وصال، بارش کی طرح صرف چند دنوں کے لیے نصیب ہوتا ہے

یہ تو محض اٹھتے بیٹھتے کی ایک بات ہے جسے موزوں کر دیا گیا
اس کو نکال دوں سر ؟
یہ اشعار تو حسب معمول آپ کی وقت گزاری
:)
آپ شعر کے مبہم ہونے سے کیا مراد لیتے ہیں جس کا غزل میں دو بار آپ نے ذکر کیا؟
دونوں شعر میں مبہم سے مراد غیر واضح ہے
چوں کہ مطلع اور مقطع دونوں صاف نہیں ہیں
واہ ، خوب ۔کیا برجستہ کہا۔
واہ ۔بہت خوب ،میرے ذوق کو تو یہ شعر بھایا
واہ صاحب ۔یہ بھی برملا و برجستہ ،بھنے کباب کی ذرا سی خوشبو لیے ہوئے۔
چار اشعار پر آپ سے بھی داد مل گئی ، واہ
حوصلہ افزائی اور پذیرائی کا بہت بہت شکریہ سر
جزاک اللہ خیر
اللہ جل شانہ آپ کو عافیت دارین سے رکھے ۔آمین
اللہ کریم آپ کے حق میں بھی یہ دعا قبول فرمائے ، آمین ۔
جزاک اللہ خیر
 

الف عین

لائبریرین
خلاف میرے یوں تو آج سارا عالم ہے
تم ایسے میں بھی مِرے ساتھ ہو ، یہ کیا کم ہے !
پہلے مصرع میں یوں، یُ تقطیع ہونا اچھا نہیں،
دوسرا بھی
مگر تم اب بھی مرے ساتھ ہو، یہ کیا کم ہے
یا
تم اب بھی ساتھ ہو میرے، مگر یہ کیا کم ہے
بہتر ہو گا، 'اب بھی' کا تنافر' ایس میں' کے اسقاط سےبہتر ہے، یا" اب بھی " کو بھی بدل سکو تو بدل دو
 

یاسر شاہ

محفلین
کہنا یہ چاہتا تھا کہ جس طرح ذکر کرنے والا دل زندہ ہوتا ہے یعنی اللہ کو یاد کرنے والا دل ،اور عام طور سے لوگ دکھ ،درد اور تکلیف میں ہی اللہ کو زیادہ یاد کرتے ہیں ، اس لیے "حیاتِ دل" کے لیے یعنی دل کو زندہ رکھنے کے لیے اللہ کو یاد کرنا ضروری ہے اور اللہ کی یاد چوں کہ دکھ درد تکلیف پہنچنے پر زیادہ آتی ہے
دلِ حیات دھڑکتا ہے درد کے باعث
حیاتِ دل کے لیے درد جزوِ اعظم ہے
عزیزم ۔آپ جو کہنا چاہتے تھےشعر میں نہیں کہہ پائے سو اب تشریح میں کہہ رہے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس میں دل کی حیات وغیرہ تو شعر میں نہیں شعر میں تو آپ کے درد ہی درد ہے۔اسی کو کہتے معنی فی بطن الشاعر ۔خیر اب اس کو آپ بدل ہی رہے ہیں۔
سر ! چوں کہ شرر اور شرار کاایک ہی مطلب ہوتا ہے تو کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ابھی ہجر کی شروعات ہے اس لیے عاشق کو جومحسوس ہو رہا ہے کہ اس کے دل میں چنگاری بھڑک رہی ہے وہ حقیقت میں چنگاری کہلانے کے لائق نہیں ہے
شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
بھڑکنے والا شرر کچھ شرار سے کم ہے
یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ شعر سے آپ وہ مراد لینا چاہ رہے ہیں جو متن سے مترشح نہیں۔
یہ پرانی غزل کا شعر ہے سر !
جس میں قافیہ موسم کی جگہ سیزن تھا
اسی شعر کی وجہ سے پوری غزل ہوئی ہے
کہنا یہ تھا کہ دھوپ جس طرح ہر موسم میں ہوتی ہے اسی طرح ایک عاشق فراق کی حالت میں ہر وقت رہتا ہے، کبھی کبھی تو وصال میں بھی (وصل ہے اور فراق طاری ہے )
لیکن وصال، بارش کی طرح صرف چند دنوں کے لیے نصیب ہوتا ہے
فراق ، دھوپ کی گرمی سا دائمی ہے مگر
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے
:دھوپ کی گرمی سا دائمی: یہ الجھن سلجھا دیں تو شاید کچھ سہل ہو جائے سمجھنا۔کیونکہ دھوپ تو گرم ہی ہوتی ہے۔یہ بھی ایک صورت ہے:
فراق دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے

اس کو نکال دوں سر ؟
نکال دیں اور کیا۔یاد رکھیں :شاعر کا انتخاب : اس کے مرتبے کے تعین میں بہت معنی خیز ہوتا ہے۔خواہ وہ انتخاب غزل میں اشعار کے رد سے حاصل ہو یا مجموعہ کلام میں غزلوں ،نظموں وغیرہ کے رد سے۔آپ کی جان جون ایلیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ بھی مرنے سے پہلے اپنے کلام میں سے چھانٹی کر کے انتخاب دے جاتے جیسے غالب اور اقبال وغیرہ نے دیاتو ان کی وقعت اور مرتبے میں آج دوچند اضافہ ہوتا اور ایسے شعر ان کے مجموعوں میں نہ مل پاتے

اب ببر شیر اشتہا ہے مری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں

بشیر بدر نے خوب کہا:
ہزار صفحوں کا دیوان کون پڑھتا ہے
بشیر بدر کوئی انتخاب دے جاؤ
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
دونوں شعر میں مبہم سے مراد غیر واضح ہے
چوں کہ مطلع اور مقطع دونوں صاف نہیں ہیں
یہ تو آپ نے مبہم کے لغوی معنی بتا دیے۔چلیں سوال دوسری طرح پوچھتا ہوں۔یہ فرمائیے شعر وں کا مبہم ہونا یا غیر واضح ہونا کوئی نقص ہے یا نہیں ؟
 
آخری تدوین:

اشرف علی

محفلین
پہلے مصرع میں یوں، یُ تقطیع ہونا اچھا نہیں،
دوسرا بھی
مگر تم اب بھی مرے ساتھ ہو، یہ کیا کم ہے
یا
تم اب بھی ساتھ ہو میرے، مگر یہ کیا کم ہے
بہتر ہو گا، 'اب بھی' کا تنافر' ایس میں' کے اسقاط سےبہتر ہے، یا" اب بھی " کو بھی بدل سکو تو بدل دو
کچھ سوچتا ہوں سر
بہت بہت شکریہ
جزاک اللہ خیر
 

اشرف علی

محفلین
عزیزم ۔آپ جو کہنا چاہتے تھےشعر میں نہیں کہہ پائے سو اب تشریح میں کہہ رہے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس میں دل کی حیات وغیرہ تو شعر میں نہیں شعر میں تو آپ کے درد ہی درد ہے۔اسی کو کہتے معنی فی بطن الشاعر ۔خیر اب اس کو آپ بدل ہی رہے ہیں۔
یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ شعر سے آپ وہ مراد لینا چاہ رہے ہیں جو متن سے مترشح نہیں۔
دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے اب
دھوپ کی گرمی سا دائمی: یہ الجھن سلجھا دیں تو شاید کچھ سہل ہو جائے سمجھنا۔کیونکہ دھوپ تو گرم ہی ہوتی ہے۔یہ بھی ایک صورت ہے:
فراق دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے
بہت بہت شکریہ سر
جزاک اللہ خیر

"دھوپ کی گرمی" کا ٹکڑا کچھ شعر میں استعمال ہوا ہے سر ، شاید مجھ سے نہیں نبھ سکا !
بارش اور موسم کی مناسبت سےلفظ" گرمی" کیا چل سکتا ہے ؟
"عارضی" کی "ی" کیا گرا سکتے ہیں سر ؟
نکال دیں اور کیا۔یاد رکھیں :شاعر کا انتخاب : اس کے مرتبے کے تعین میں بہت معنی خیز ہوتا ہے۔خواہ وہ انتخاب غزل میں اشعار کے رد سے حاصل ہو یا مجموعہ کلام میں غزلوں ،نظموں وغیرہ کے رد سے۔
جی ! بہت بہت شکریہ ، جزاک اللہ خیر
جان تو اپنی یہیں ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
اشرف بھائی ! آپ بیچ میں کہاں غائب ہو جاتے ہیں کہ موضوع بھو ل بھال جاتا ہے۔
بارش اور موسم کی مناسبت سےلفظ" گرمی" کیا چل سکتا ہے ؟

گرمی دائمی تو نہیں ہوتی۔
"عارضی" کی "ی" کیا گرا سکتے ہیں سر ؟

دو نقائص میں سے انتخاب کرنا ہو تو بھرتی کے اور حیران و پریشاں لفظوں کے مقابلے میں مضمون سےمناسب فارسی کے الفاظ کے آخری حروف علت گرا دینے کا انتخاب بہتر ہے۔
فراق عارضی سا بارشوں کا موسم ہے
کی جگہ
فراق عارضی اک بارشوں کا موسم ہے
بھی کیا جا سکتا ہے،یہاں ی گرے گی نہیں بلکہ :ض: مکسور ہو جائے گی اور :ی: کا ادغام ہو جائے گا :اک : میں ۔
Aa-ri-zi-yik

آگے آپ کی مرضی۔بلاتکلف جو رائے دل کو لگے اس کے مطابق غزل کی آخری شکل پیش کر دیا کریں۔

نہیں جناب ۔یہی تو بات ہے جو مطالعے کے بغیر محض اصلاح سخن سے حاصل نہیں ہو سکتی ،یہاں اصلاح کاروں کو بھی شعروں میں ابہام کی نشاندہی یوں کرتے دیکھا جیسے یہ کوئی عیب ہو۔
آپ ،اپنے ہی انڈیا کے تنقید کے لیجنڈ شمس الرحمان فاروقی کی معرکۃ الآرا تصنیف :شعر ،غیر شعر اور نثر : کا مطالعہ کریں جس میں انھوں نے شعر کے وہ اجزائے ترکیبی دریافت کیے ہیں جو شعر کو شعر بناتے ہیں اور نثر میں استعمال ہو ں تو اسے ناقص بنا دیتے ہیں ۔ان میں ایک ابہام بھی ہے ۔

اگر ابہام کو خوبی سے برتا جائے تو یہ شعر کا حسن ہے نہ کہ نقص۔

مثالوں سے انھوں نے بڑی خوبی سے اس بات کی وضاحت کی ہے مثلا ایک ہی مضمون کے تین اشعار پیش کرتے ہیں :
ہوگئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں
اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستان پیدا
ناسخ
ہیں مستحیل خاک میں اجزائے نو خطاں
کیاسہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا
میر
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
غالب
اور تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ غالب کا شعر بازی مار گیا ہے تو اپنے ابہام کی وجہ سے مثلا ایک ابہام یہی دیکھیے کہ ناسخ کے ہاں گل اندام کا ذکر ہے یعنی پھولوں کے جسم رکھنے والے ،میر کے یہاں نو خطاں کا یعنی وہ نوجوان جن کی نئی نئی ڈاڑھی مونچھ آئی ہو،اور غالب نے: کیا صورتیں: کہہ کر سب کچھ قاری پر چھوڑ دیا ہے۔
اسی طرح ناسخ کے شعر کو جو انھوں نے تھرڈ کلاس کہا ہے وہ محض وضاحت کی وجہ سے کہ ہر بات کھول کھول کر بیان کرنے کے چکر میں شعر میں لغویت پیدا ہو گئی ہے مثلاً خاک سے گلستان کا پیدا ہونا ظاہر ہے آسمان اور دریا کے پانی پہ تو باغ نہیں اگتے۔ پھر: ہو گئے دفن:میں یہ لغویت کہ کیا اب دفن نہیں ہو رہے وغیرہ وغیرہ۔
 

اشرف علی

محفلین
اشرف بھائی ! آپ بیچ میں کہاں غائب ہو جاتے ہیں کہ موضوع بھو ل بھال جاتا ہے۔
معذرت چاہتا ہوں سر
گرمی دائمی تو نہیں ہوتی
جی !
دو نقائص میں سے انتخاب کرنا ہو تو بھرتی کے اور حیران و پریشاں لفظوں کے مقابلے میں مضمون سےمناسب فارسی کے الفاظ کے آخری حروف علت گرا دینے کا انتخاب بہتر ہے۔
فراق عارضی سا بارشوں کا موسم ہے
کی جگہ
فراق عارضی اک بارشوں کا موسم ہے
بھی کیا جا سکتا ہے،یہاں ی گرے گی نہیں بلکہ :ض: مکسور ہو جائے گی اور :ی: کا ادغام ہو جائے گا :اک : میں ۔
Aa-ri-zi-yik
جی سر ، بہت بہت شکریہ ، جزاک اللہ خیر
آگے آپ کی مرضی۔بلاتکلف جو رائے دل کو لگے اس کے مطابق غزل کی آخری شکل پیش کر دیا کریں
ابھی غزل نامکمل ہے سر
 

اشرف علی

محفلین
نہیں جناب ۔یہی تو بات ہے جو مطالعے کے بغیر محض اصلاح سخن سے حاصل نہیں ہو سکتی ،یہاں اصلاح کاروں کو بھی شعروں میں ابہام کی نشاندہی یوں کرتے دیکھا جیسے یہ کوئی عیب ہو۔
آپ ،اپنے ہی انڈیا کے تنقید کے لیجنڈ شمس الرحمان فاروقی کی معرکۃ الآرا تصنیف :شعر ،غیر شعر اور نثر : کا مطالعہ کریں جس میں انھوں نے شعر کے وہ اجزائے ترکیبی دریافت کیے ہیں جو شعر کو شعر بناتے ہیں اور نثر میں استعمال ہو ں تو اسے ناقص بنا دیتے ہیں ۔ان میں ایک ابہام بھی ہے ۔

اگر ابہام کو خوبی سے برتا جائے تو یہ شعر کا حسن ہے نہ کہ نقص۔

مثالوں سے انھوں نے بڑی خوبی سے اس بات کی وضاحت کی ہے مثلا ایک ہی مضمون کے تین اشعار پیش کرتے ہیں :
ہوگئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں
اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستان پیدا
ناسخ
ہیں مستحیل خاک میں اجزائے نو خطاں
کیاسہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا
میر
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
غالب
اور تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ غالب کا شعر بازی مار گیا ہے تو اپنے ابہام کی وجہ سے مثلا ایک ابہام یہی دیکھیے کہ ناسخ کے ہاں گل اندام کا ذکر ہے یعنی پھولوں کے جسم رکھنے والے ،میر کے یہاں نو خطاں کا یعنی وہ نوجوان جن کی نئی نئی ڈاڑھی مونچھ آئی ہو،اور غالب نے: کیا صورتیں: کہہ کر سب کچھ قاری پر چھوڑ دیا ہے۔
اسی طرح ناسخ کے شعر کو جو انھوں نے تھرڈ کلاس کہا ہے وہ محض وضاحت کی وجہ سے کہ ہر بات کھول کھول کر بیان کرنے کے چکر میں شعر میں لغویت پیدا ہو گئی ہے مثلاً خاک سے گلستان کا پیدا ہونا ظاہر ہے آسمان اور دریا کے پانی پہ تو باغ نہیں اگتے۔ پھر: ہو گئے دفن:میں یہ لغویت کہ کیا اب دفن نہیں ہو رہے وغیرہ وغیرہ۔
ممنون ہوں سر
جزاک اللہ خیر

اس صورت میں کیا میرا مقطع چل جائے گا یا نیا مقطع کہنا ہوگا ؟

بس اس لیے کہ ہے غالبؔ کی یہ زمین ، اشرف !
اک آدھ شعر مِری اِس غزل کا مبہم ہے
 

اشرف علی

محفلین
الف عین سر ، یاسر شاہ سر

برائے اصلاح
~~~~~~~~

کچھ اس لیے بھی وصال اپنا وجہِ ماتم ہے
شعاعِ مہر سا ہوں میں ، وہ مثلِ شبنم ہے

شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
شرار کم ہے ، جنوں کم ہے ، بے کلی کم ہے

کبھی یہ لگتا ہے مشکل ہے کاٹنا اِس کو
کبھی یہ لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے

دوائے دردِ محبت بنا سکے کوئی
میاں ! اب اتنا بھی تھوڑی کسی میں دم خم ہے
یا
کہاں کسی میں مِرے دوست ! اتنا دم خم ہے

فراق ، دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے
یا
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے

سنا ہے ، "ایک ہیں بندِ غم اور قیدِ حیات"
تو کیا فقط وہی بے غم ہے جو کہ بے دم ہے ؟

زمانہ لاکھ اٹھائے اب انگلیاں مجھ پر
جب آپ ساتھ ہیں میرے تو مجھ کو کیا غم ہے

وہ مجھ سے ملنے اب آتا نہیں ہے کیوں اشرف !
ہے کوئی خاص سبب یا وہ مجھ سے برہم ہے ؟
 

یاسر شاہ

محفلین
معذرت چاہتا ہوں سر

جی !

جی سر ، بہت بہت شکریہ ، جزاک اللہ خیر

ابھی غزل نامکمل ہے سر

پیارے اشرف بھائی -الله تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت کی مسرّتیں عطا فرمائے جن میں سے ایک عدد مسرّت معجل ہو کہ جس سے بعد مہر معجل آپ لطف اندوز ہو سکیں -آمین


نئے اشعار میں یہ شعر توجہ کھینچ پایا ہے -
زمانہ لاکھ اٹھائے اب انگلیاں مجھ پر
جب آپ ساتھ ہیں میرے تو مجھ کو کیا غم ہے



گویا میرے لحاظ سے آپ کی غزل کی یہ صورت ابھری ہے دیکھیے اعجاز صاحب کیا فرماتے ہیں :

کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے

میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے

اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے

فراق دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے

کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے

زمانہ لاکھ اٹھائے اب انگلیاں مجھ پر
جب آپ ساتھ ہیں میرے تو مجھ کو کیا غم ہے

میری ذاتی ناقص سی رائے ہے کہ" ہے " ردیف کو نبھانا بظاہر آسان ہوتے ہوئے بھی بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ جملے کے آخر میں: ہے : رکھ کر آپ حقائق بیان کریں گے اور طے شدہ حقائق کا بیان تو شاعری نہیں ہوتا کہ جس میں اس طرح کی باتوں کی گنجائش ہو کہ جو پہلے سے جانی مانی ہوں جیسے اسلام آباد پاکستان کا دار الحکومت ہے ،دہلی ہندوستان کا دار الحکومت ہے ،خرگوش کی ایک دم ہے ،انسان کی ایک ناک ہے وغیرہ وغیرہ -اس طرح کے مسلمہ حقائق کا اخبار شاعری میں کبھی کبھی تو پڑھا جا سکتا ہے لیکن مسلسل جاری رہے تو لطف کھو دیتا ہے -لہٰذا شاعر کو اس قبیل کی ردیف میں اپنے فلسفیانہ مطالعے یا قوت تخیل سے کام لینا پڑتا ہے - دیکھیے ایک زندگی سے تنگ شاعر نے کہ جن کا مطالعہ بھی نوجوانوں کو خود کشی کی طرف لے جا سکتا ہے نے: ہے : ردیف کو ایسا نبھایا کہ میرے نزدیک کئی اساتذه سے بھی اس زمین میں بازی لے گئے :


کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے

انجمن میں یہ میری خاموشی
بردباری نہیں ہے وحشت ہے

طنز پیرایہ ءِ تبسم میں
اس تکلف کی کیا ضرورت ہے

تجھ سے یہ گا ہ گاہ کا شکوہ
جب تلک ہے بسا غنیمت ہے

گرم جوشی اور اس قدر کیا بات!
کیا تمھیں مجھ سے کچھ شکایت ہے

تو بھی اے شخص کیا کرے آخر
مجھ کو سر پھوڑنے کی عادت ہے

اب نکل آؤ اپنے اندر سے
گھر میں سامان کی ضرورت ہے

ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے

خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے

لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
یاں مرا غم ہی میری فرصت ہے

آج کا دن بھی عیش سے گذرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے


پوری غزل پڑھ لیجیے، کہیں جانے مانے حقائق کی تکرار نہیں بلکہ پرانے حقائق سے نیا شعور پیدا کیا جا رہا ہے یا وہ فلسفیانہ موشگافیاں جو خاص تھیں ان کو عام فہم بنا کر پبلک کیا جا رہا ہے -بس اب آپ کبھی طبع موزوں ہو تو اپنی اس غزل کے مطلع کی فکر کر لیں اور فی الحال ایسی زمینوں میں لکھنے کی کوشش نہ کریں ہاں آگے مشق و مطالعہ کے بعد میلان ہو تو الگ بات ہے -
 
آخری تدوین:
Top