اصلاح کے بعد
~~~~~~~~
کچھ اس لیے بھی وصال اپنا وجہِ ماتم ہے
شعاعِ مہر ہوں میں ، وہ مثالِ شبنم ہے
کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے
وہ میرے عشق میں ہے مبتلا ، زہے قسمت !
وہ جس کے حُسن کا شیدا یہ سارا عالم ہے
فراق ، دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے
کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک اُسے بہت غم ہے
میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے
زمانہ لاکھ اٹھائے اب انگلیاں مجھ پر
جب آپ ساتھ ہیں میرے تو مجھ کو کیا غم ہے
وہ مجھ سے ملنے اب آتا نہیں ہے کیوں اشرف !
ہے کوئی خاص سبب یا وہ مجھ سے برہم ہے ؟
********
~~~~~~~~
تو کیا ہُوا جو خلاف اپنے سارا عالم ہے
ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ، یہ کیا کم ہے
دوائے دردِ محبت بنا سکے کوئی
میاں ! اب اتنا بھی تھوڑا کسی میں دم خم ہے
کبھی یہ لگتا ہے مشکل ہے کاٹنا اِس کو
کبھی یہ لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے
اُسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اُسی کے حُسن کا پرتو یہ سارا عالم ہے
شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
شرار کم ہے ، جنوں کم ہے ، بیکلی کم ہے
یہی بہت ہے کہ آج آپ نے کہا مجھ سے
تمہاری قافیہ پیمائی میں بڑا دم ہے
وہ کہنے کو تو کسی اور کا ہے اب ، لیکن
ہے عشق مجھ سے ابھی بھی اسے ، یہ کیا کم ہے
بس اِس لیے کہ ہے غالبؔ کی یہ زمین اشرف !
اک آدھ شعر مِری اِس غزل کا مبہم ہے