برائے اصلاح : اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے

اشرف علی

محفلین
نئے اشعار میں یہ شعر توجہ کھینچ پایا ہے
شکریہ سر
باقی اشعار کیا غلط ہیں ؟ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا
ایک زندگی سے تنگ شاعر نے کہ جن کا مطالعہ بھی نوجوانوں کو خود کشی کی طرف لے جا سکتا ہے
یہ بھی نہیں سمجھ سکا
بس اب آپ کبھی طبع موزوں ہو تو اپنی اس غزل کے مطلع کی فکر کر لیں
کیا اس مطلع کا دونوں مصرع ٹھیک نہیں ہے سر یا کسی ایک کو رکھ کے اس پہ کوئی اور شعر کہا جا سکتا ہے ؟


آپ کی رائے اور مشورے کا بہت بہت شکریہ سر
جزاک اللہ خیر
 

اشرف علی

محفلین
اب غزل واقعی نکھر گئی ہے
آپ کا اور یاسر سر کا بہت بہت شکریہ
اللہ آپ دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے ، آمین ۔


کون سی غزل نکھر گئی ہےسر ؟
یہ والی ، اس میں تو مطلع اور مقطع دونوں نہیں ہیں
کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے

میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے

اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے

فراق دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے

کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک مجھے بہت غم ہے

زمانہ لاکھ اٹھائے اب انگلیاں مجھ پر
جب آپ ساتھ ہیں میرے تو مجھ کو کیا غم ہے

یا پھر برائے اصلاح والی ؟
یعنی یہ
برائے اصلاح
~~~~~~~~

کچھ اس لیے بھی وصال اپنا وجہِ ماتم ہے
شعاعِ مہر سا ہوں میں ، وہ مثلِ شبنم ہے

شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
شرار کم ہے ، جنوں کم ہے ، بے کلی کم ہے

کبھی یہ لگتا ہے مشکل ہے کاٹنا اِس کو
کبھی یہ لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے

دوائے دردِ محبت بنا سکے کوئی
میاں ! اب اتنا بھی تھوڑی کسی میں دم خم ہے
یا
کہاں کسی میں مِرے دوست ! اتنا دم خم ہے

فراق ، دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے
یا
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے

سنا ہے ، "ایک ہیں بندِ غم اور قیدِ حیات"
تو کیا فقط وہی بے غم ہے جو کہ بے دم ہے ؟

زمانہ لاکھ اٹھائے اب انگلیاں مجھ پر
جب آپ ساتھ ہیں میرے تو مجھ کو کیا غم ہے

وہ مجھ سے ملنے اب آتا نہیں ہے کیوں اشرف !
ہے کوئی خاص سبب یا وہ مجھ سے برہم ہے ؟
 

الف عین

لائبریرین
او ہو، یہبھی دو غزلہ تھا! مجھے خیال ہوا کہ اوپر جو یاسر شاہ نے اصلاح کے بعد اشعار قبول کئے ہیں، وہ مجھے بھی درست لگے۔پچھلی غزل کو میں تو دیکھ ہی چکا تھا
اس غزل میں، مطلع اگر یوں ہو
شعاعِ مہر سا ہوں میں ، وہ مثلِ شبنم ہے
شعاع مہر ہوں میں، وہ مثالِ شبنم ہے
کبھی یہ لگتا ہے مشکل ہے کاٹنا اِس کو
کبھی یہ لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے
درست
دوائے دردِ محبت بنا سکے کوئی
میاں ! اب اتنا بھی تھوڑی کسی میں دم خم ہے
یا
کہاں کسی میں مِرے دوست ! اتنا دم خم ہے
پہلا متبادل بہتر لگتا ہے لیکن محاورے کے لحاظ سے تھوڑا بہتر ہے
فراق ، دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے
یا
وصال جیسے فقط بارشوں کا موسم ہے
پہلا متبادل یاسر نے قبول کیا ہے، اسے ہی رکھو
سنا ہے ، "ایک ہیں بندِ غم اور قیدِ حیات"
تو کیا فقط وہی بے غم ہے جو کہ بے دم ہے ؟
اس شعر کو غزل نکالا دے دو
زمانہ لاکھ اٹھائے اب انگلیاں مجھ پر
جب آپ ساتھ ہیں میرے تو مجھ کو کیا غم ہے
درست
وہ مجھ سے ملنے اب آتا نہیں ہے کیوں اشرف !
ہے کوئی خاص سبب یا وہ مجھ سے برہم ہے ؟
درست
یاسر کے قبول کردہ شعر شاید دوسری غزل کے ہیں,؟
 

یاسر شاہ

محفلین
اب غزل واقعی نکھر گئی ہے، دو ملاؤں کے بیچ حرام نہیں، مزید لذیذ ہو گئی ہے مرغی
😂
دعوت طعام تو تین کو تھی لیکن تیسرے لذیذ مرغ 🐓 سے محروم رہ گئے۔
محترم @الف عین صاحب
محترم @یاسر شاہ صاحب
محترم @محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب
 

یاسر شاہ

محفلین
یہ بھی نہیں سمجھ سکا
یہ تو ایک مقالے کا مضمون ہے جس کا عنوان ہونا چاہیے :جون ایلیا کی شاعری اور اس کے نوجوانوں پہ منفی اثرات:۔
باقی تشفی آپ کی اعجاز صاحب کے مراسلے سے ہو گئی ہوگی۔اللہ تعالیٰ آپ کو خیر وعافیت سے رکھے اور کلام میں تاثیر عطا فرمائے۔آمین
 

اشرف علی

محفلین
یہ تو ایک مقالے کا مضمون ہے جس کا عنوان ہونا چاہیے :جون ایلیا کی شاعری اور اس کے نوجوانوں پہ منفی اثرات:۔
او ، اچھا !
باقی تشفی آپ کی اعجاز صاحب کے مراسلے سے ہو گئی ہوگی۔
جی سر !
اللہ تعالیٰ آپ کو خیر وعافیت سے رکھے اور کلام میں تاثیر عطا فرمائے۔آمین
آمین
جزاک اللہ خیر
اللہ تعالیٰ آپ کوبھی شاد و سلامت رکھے ، آمین ۔
 

اشرف علی

محفلین
او ہو، یہبھی دو غزلہ تھا
نہیں سر ، لیکن آئیڈیا اچھا ہے ، شکریہ
! مجھے خیال ہوا کہ اوپر جو یاسر شاہ نے اصلاح کے بعد اشعار قبول کئے ہیں، وہ مجھے بھی درست لگے
اس میں تو ایک شعر "عشق میں سرشار" والا بھی ہے سر جس کے بارے میں آپ نے کہا تھا :
اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے
" حمدیہ؟یک خدا کے عشق میں سرشار ارض و سما کچھ درست نہیں لگتا"

لیکن یاسر سر کو یہ شعر اچھا لگا تھا :" واہ ۔بہت خوب ،میرے ذوق کو تو یہ شعر بھایا ۔"

تو اب اس شعر کو رکھوں یا بدلوں یا کیا کروں ؟
پچھلی غزل کو میں تو دیکھ ہی چکا تھا
جی سر ،اس میں مطلع اور کچھ اشعار پر کام کرنا باقی تھا
اسی کو ٹھیک کرتے کرتےمقطع کے ساتھ ایک اور غزل ہو گئی
یاسر کے قبول کردہ شعر شاید دوسری غزل کے ہیں,؟
جی ، پہلی والی
 

اشرف علی

محفلین
اس غزل میں، مطلع اگر یوں ہو
شعاع مہر ہوں میں، وہ مثالِ شبنم ہے
شکریہ سر ، جزاک اللہ خیر

کچھ اس لیے بھی وصال اپنا وجہِ ماتم ہے
شعاعِ مہر ہوں میں ، وہ مثالِ شبنم ہے
پہلا متبادل بہتر لگتا ہے لیکن محاورے کے لحاظ سے تھوڑا بہتر ہے
شکریہ سر

دوائے دردِ محبت بنا سکے کوئی
میاں ! اب اتنا بھی تھوڑا کسی میں دم خم ہے

"تھوڑا" کی جگہ
متبادل یاسر نے قبول کیا ہے، اسے ہی رکھو
ٹھیک ہے سر ، بہت بہت شکریہ
اس شعر کو غزل نکالا دے دو
اوکے سر ، شکریہ

اصلاح و رہنمائی کے لیے بہت بہت شکریہ سر
اللہ آپ کو شاد و سلامت رکھے ، آمین ۔
 
آخری تدوین:

اشرف علی

محفلین
شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
شرار کم ہے ، جنوں کم ہے ، بے کلی کم ہے
یہ شعر رہ گیا سر ، اسے بھی دیکھ لیجیے ، ٹھیک ہے یا نہیں
غزل کے مطلع کی فکر کر لیں
سر ، برائے اصلاح :

تو کیا ہُوا جو خلاف اپنے سارا عالم ہے
ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ، یہ کیا کم ہے
یا
وہ کہنے کو تو کسی اور کا ہے اب ، لیکن
ہے عشق مجھ سے ابھی بھی اسے ، یہ کیا کم ہے

وہ جس کے حُسن کا شیدا ، یہ سارا عالم ہے
وہ ، میرے عشق میں ہے مبتلا ، یہ کیا کم ہے
یا
وہ میرے عشق میں ہے مبتلا ، زہے قسمت !
وہ جس کے حُسن کا شیدا یہ سارا عالم ہے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کے طور پر تودو ہی امکانات ہیں! دونوں مجھے اچھے لگ رہے ہیں، کوئی سا بھی رکھ لو۔ مطلع کی ضرورت کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو چوتھا بہترین ہے
 

اشرف علی

محفلین
مطلع کے طور پر تودو ہی امکانات ہیں! دونوں مجھے اچھے لگ رہے ہیں، کوئی سا بھی رکھ لو۔
ٹھیک ہے سر ، بہت شکریہ
مطلع کی ضرورت کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو چوتھا بہترین ہے
چوتھا سے مراد "زہے قسمت" والا شعر ؟
 

اشرف علی

محفلین
اس میں تو ایک شعر "عشق میں سرشار" والا بھی ہے سر جس کے بارے میں آپ نے کہا تھا :
اسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اسی کے حُسن کا پرتو ، یہ سارا عالم ہے
" حمدیہ؟یک خدا کے عشق میں سرشار ارض و سما کچھ درست نہیں لگتا"

لیکن یاسر سر کو یہ شعر اچھا لگا تھا :" واہ ۔بہت خوب ،میرے ذوق کو تو یہ شعر بھایا ۔"

تو اب اس شعر کو رکھوں یا بدلوں یا کیا کروں ؟
سر یہ ؟



شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
شرار کم ہے ، جنوں کم ہے ، بے کلی کم ہے

اور یہ ؟
 

اشرف علی

محفلین
اصلاح کے بعد
~~~~~~~~
کچھ اس لیے بھی وصال اپنا وجہِ ماتم ہے
شعاعِ مہر ہوں میں ، وہ مثالِ شبنم ہے

کبھی ہے اِس میں مزا تو کبھی ہے خود یہ سزا
یہ زندگی ، گہے جنت گہے جہنم ہے

وہ میرے عشق میں ہے مبتلا ، زہے قسمت !
وہ جس کے حُسن کا شیدا یہ سارا عالم ہے

فراق ، دھوپ کے مانند دائمی ہے مگر
وصال عارضی سا بارشوں کا موسم ہے

کسی طرح بھی میں اپنا اُسے بنا نہ سکا
اس ایک بات کا اب تک اُسے بہت غم ہے

میں بد نصیب اگر ہوں تو خوش نصیب بھی ہوں
وہ یوں کہ زخموں پہ میرے ، نمک نہ مرہم ہے

زمانہ لاکھ اٹھائے اب انگلیاں مجھ پر
جب آپ ساتھ ہیں میرے تو مجھ کو کیا غم ہے

وہ مجھ سے ملنے اب آتا نہیں ہے کیوں اشرف !
ہے کوئی خاص سبب یا وہ مجھ سے برہم ہے ؟
********


~~~~~~~~
تو کیا ہُوا جو خلاف اپنے سارا عالم ہے
ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ، یہ کیا کم ہے

دوائے دردِ محبت بنا سکے کوئی
میاں ! اب اتنا بھی تھوڑا کسی میں دم خم ہے

کبھی یہ لگتا ہے مشکل ہے کاٹنا اِس کو
کبھی یہ لگتا ہے ، یہ زندگی بہت کم ہے

اُسی کے عشق میں سرشار ہیں یہ ارض و سما
اُسی کے حُسن کا پرتو یہ سارا عالم ہے

شروعِ ہجر کے دن ہیں ، ابھی درونِ دل
شرار کم ہے ، جنوں کم ہے ، بیکلی کم ہے

یہی بہت ہے کہ آج آپ نے کہا مجھ سے
تمہاری قافیہ پیمائی میں بڑا دم ہے

وہ کہنے کو تو کسی اور کا ہے اب ، لیکن
ہے عشق مجھ سے ابھی بھی اسے ، یہ کیا کم ہے

بس اِس لیے کہ ہے غالبؔ کی یہ زمین اشرف !
اک آدھ شعر مِری اِس غزل کا مبہم ہے
 
Top