نوید ناظم
محفلین
اگر اشکِ رواں رکے تو چلوں
یہ جو طوفان ہے، تھمے تو چلوں
کوئی تو ساتھ ہو سفر میں تِرے
میرا بھی دل ہے، تُو کہے تو چلوں؟
حَبس میں تو قدم نہیں اٹھے گا
سوچتا ہوں ہوا چلے تو چلوں
قتل ہونے میں عار مجھ کو نہیں
یہ کہ مقتل بھی کچھ سجے تو چلوں
اور بھی غم نصیب میں ہے ابھی
سوچ میں ہوں کہ وہ ملے تو چلوں
گھیر رکھا ہے مجھ کو ہجر نے اب
یہ کسی طرف راہ دے تو چلوں
دشت کی یاد کچھ تو آتی رہے
ہاں یہ ویرانی گھر رہے تو چلوں
شب نصیبوں کو روشنی نہیں راس
آخری بھی دیا بجھے تو چلوں
کچھ تو ایندھن بھی چاہیے نہ حضور
وہ جلاتا ہے دل، جلے تو چلوں
یہ جو طوفان ہے، تھمے تو چلوں
کوئی تو ساتھ ہو سفر میں تِرے
میرا بھی دل ہے، تُو کہے تو چلوں؟
حَبس میں تو قدم نہیں اٹھے گا
سوچتا ہوں ہوا چلے تو چلوں
قتل ہونے میں عار مجھ کو نہیں
یہ کہ مقتل بھی کچھ سجے تو چلوں
اور بھی غم نصیب میں ہے ابھی
سوچ میں ہوں کہ وہ ملے تو چلوں
گھیر رکھا ہے مجھ کو ہجر نے اب
یہ کسی طرف راہ دے تو چلوں
دشت کی یاد کچھ تو آتی رہے
ہاں یہ ویرانی گھر رہے تو چلوں
شب نصیبوں کو روشنی نہیں راس
آخری بھی دیا بجھے تو چلوں
کچھ تو ایندھن بھی چاہیے نہ حضور
وہ جلاتا ہے دل، جلے تو چلوں