برائے اصلاح(بحرِ رمل)

نوید ناظم

محفلین
آ گیا آپ کے ہاتھوں میں خود
دل کو سینے سے نکالا تو نہیں

آپ کی وجہ سے میں بھی چپ ہوں
بات کو میں نے اچھالا تو نہیں

چھوڑ کر ہی نہ کبھی جائے غم
اس قدر شوق سے پالا تو نہیں

بے وفائی پہ یونہی بات کی ہے
آپ کا اس میں حوالہ تو نہیں

جب اندھیرے میں مجھے ڈال دیا
پھر تسلی کی، اجالا تو نہیں

رند دعوے تو بڑے کرتا تھا
اس کو ساقی نے سنبھالا تو نہیں

جا رہا ہوں بس ابھی محفل سے
آپ کی بات کو ٹالا تو نہیں
 
زبردست جناب۔

بے وفائی پہ یونہی بات کی ہے

پھر تسلی کی، اجالا تو نہیں

بس ان مصرعوں میں کی کا یک حرفی باندھا جانا روانی کو متاثر کر رہا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
تسلی کی ‘ تو چل سکتا ہے۔÷ لیکن ’بات کی ہے‘ نہیں۔
بے وفائی کا یوں ہی ذکر کیا
کر سکتے ہو
 
Top