برائے اصلاح :جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائی آنکھیں

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن


جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائی آنکھیں
ہائے! اس شخص نے ہم سے نہ ملائی آنکھیں

آتشِ عشق نے جب میری جلائی آنکھیں
تب تری یاد کے اشکوں سے بجھائی آنکھیں

اس کی ہر ایک ادا ہم نے بھلا دی لیکن
اس کی بس ایک کبھی بھول نہ پائی آنکھیں

اپنے دل میں تو نہ کچھ ہم نے بسایا لیکن
اپنی آنکھوں میں اسی کی ہیں بسائی آنکھیں

وہ حسیں ہم کو لگے پہلے سے بھی بڑھ کر، جب
ہم پہ اس شخص نے غصے سے اٹھائی آنکھیں

ساری دنیا میں، فقط آپ ہی بھائے ہیں اور
آپ کی سب سے زیادہ مجھے بھائی آنکھیں

اس قدر ہے مری آنکھوں میں جھجھک، شرم و ڈر
دیکھ کر ایک دفعہ اس کو جھکائی آنکھیں

مجھ سے بچھڑا تُو اگر یاد کی بارش ہوگی
سہہ نہ پائیں گی کسی طور جدائی آنکھیں

آؤ دیکھیں، کبھی ہم حسنِ خدا جی بھر کر
دیکھنے کے لئے، رب نے ہیں بنائی آنکھیں

ہم نے الفت کی نظر سے جسے دیکھا میثم
اس نے دشمن کی طرح ہم کو دکھائی آنکھیں
یاسر علی میثم
 
اپنی آنکھوں میں اسی کی ہیں بسائی آنکھیں

سہہ نہ پائیں گی کسی طور جدائی آنکھیں

دیکھنے کے لئے، رب نے ہیں بنائی

مندرجہ بالا تینوں مصرعوں میں تو درست استعمال کیا لیکن باقی مصرعوں میں قافیے میں نون غنہ شامل کرنا ہوگا۔ اب سب سے پہلے طے کرلیجیے کہ قافیہ پچھائیں، دکھائیں، جھکائیں ہوگا
یا
بنائی، جدائی ۔
قافیے کے موجودہ سقم کے ساتھ ان اشعار کو نہیں پرکھا جاسکتا۔
 

الف عین

لائبریرین
باقی افعال کو تو بچھائیں جلائیں وغیرہ کیا جا سکتا ہے، بس جدائی ہی اسم ہے، اسے رکھنے کے لئے ردیف کو 'اک انکھ' کرنی یو گی!!
ڈر ہندی لفظ ہے، اس کے ساتھ واو عطف نہیں آ سکتا
 

یاسر علی

محفلین
میں نے تو یہ سمجھ کر قافیہ استعمال کیا تھا کہ مطلع میں بچھائی اور ملائی استعمال کر لیا ہے تو اس میں "ئی" مشترک ہو گیا ۔۔اس کے بعد ئی سے پہلے لا اور چھا آگیا ۔۔اب اس طرح کا،ما جا،وہ تمام قافیہ استعمال کر سکتا ہوں ۔۔

کیا قافیہ میں اسم کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔۔یہ نہیں سمجھا۔۔
 
میں نے تو یہ سمجھ کر قافیہ استعمال کیا تھا کہ مطلع میں بچھائی اور ملائی استعمال کر لیا ہے تو اس میں "ئی" مشترک ہو گیا ۔۔اس کے بعد ئی سے پہلے لا اور چھا آگیا ۔۔اب اس طرح کا،ما جا،وہ تمام قافیہ استعمال کر سکتا ہوں ۔۔

کیا قافیہ میں اسم کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔۔یہ نہیں سمجھا۔۔
شاید آپ سمجھے نہیں۔ ذیل میں دیکھیے
جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائی آنکھیں

جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائیں آنکھیں

ہونا چاہیے کیونکہ آنکھیں جمع کا صیغہ ہے۔
ہائے! اس شخص نے ہم سے نہ ملائی آنکھیں

ملائیں آنکھیں

آتشِ عشق نے جب میری جلائی آنکھیں

جلائیں آنکھیں

تب تری یاد کے اشکوں سے بجھائی آنکھیں

بجھائیں آنکھیں
 

یاسر علی

محفلین
شاید آپ سمجھے نہیں۔ ذیل میں دیکھیے


جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائیں آنکھیں

ہونا چاہیے کیونکہ آنکھیں جمع کا صیغہ ہے۔


ملائیں آنکھیں



جلائیں آنکھیں



بجھائیں آنکھیں
شکریہ جناب!
جی بالکل فاش غلطی ہے۔۔۔
میں اسے درست کرتا ہوں ۔۔
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
الف عین


جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائیں آنکھیں
ہائے! اس شخص نے ہم سے نہ ملائیں آنکھیں

آتشِ عشق نے جب میری جلائی آنکھیں
تب تری یاد کے اشکوں سے بجھائیں آنکھیں

اس کی ہر ایک ادا ہم نے بھلا دی لیکن
اس کی بس ایک کبھی بھول نہ پائیں آنکھیں

اپنے دل میں تو نہ کچھ ہم نے بسایا لیکن
اپنی آنکھوں میں اسی کی ہیں بسائیں آنکھیں

وہ حسیں ہم کو لگے پہلے سے بھی بڑھ کر, جب
ہم پہ اس شخص نے غصے سے اٹھائیں آنکھیں

ساری دنیا میں فقط آپ ہی بھائے ہیں اور
آپ کی سب سے زیادہ مجھے بھائیں آنکھیں

اس قدر اس کی ہے آنکھوں میں جھجھک شرم و حیا
دیکھ کر ایک دفعہ مجھ کو جھکائیں آنکھیں

آؤ دیکھیں، کبھی ہم حسنِ خدا جی بھر کر
دیکھنے کے لئے, رب نے ہیں بنائیں آنکھیں

ہم نے الفت کی نظر سے جسے دیکھا میثم
اس نے دشمن کی طرح ہم کو دکھائیں آنکھیں
یاسر علی میثم
متفرق شعر
مجھ سے بچھڑا تو اگر یاد کی بارش ہوگی
سہہ نہ پائیں گی کسی طور جدائی آنکھیں
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یاسر بھائی آپ شاید سمجھ نہیں سکے، اساتذہ نے فرمایا کہ آنکھیں چونکہ جمع کا صیغہ ہے تو اس کی نسبت سے تمام قوافی جمع میں آنے چاہئیں
 
چلو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ سب قوافی میں "ئیں" لگا دیا گیا ہے.

آتشِ عشق نے جب میری جلائی آنکھیں
تب تری یاد کے اشکوں سے بجھائی آنکھیں
آتشِ عشق کو اتشِ ہجر کر دو تو زیادہ مناسب رہے گا میرے خیال میں.

اس کی ہر ایک ادا ہم نے بھلا دی لیکن
اس کی بس ایک کبھی بھول نہ پائی آنکھیں
جب اپنے فعل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ "ہم سے اس کی آنکھیں نہیں بھول پائیں" ... ظاہر ہے کہ گرامر کے حساب سے یہ درست نہیں. "ہم سے اس کی آنکھیں بھلائی نہ گئیں/جا سکیں" کہنا درست ہوگا.

اپنے دل میں تو نہ کچھ ہم نے بسایا لیکن
اپنی آنکھوں میں اسی کی ہیں بسائی آنکھیں
آنکھوں میں آنکھیں بسانا شاید قابل قبول ہو، مجھے کچھ فلمی سا لگتا ہے.

وہ حسیں ہم کو لگے پہلے سے بھی بڑھ کر, جب
ہم پہ اس شخص نے غصے سے اٹھائی آنکھیں
لگے کی جگہ "لگا" آنا چاہیے پہلے مصرعے میں.

اس قدر اس کی ہے آنکھوں میں جھجھک شرم و حیا
دیکھ کر ایک دفعہ مجھ کو جھکائی آنکھیں
"اس کی ہے آنکھوں میں" کی جگہ "اس کی آنکھوں میں ہے" بھی تو کہا جا سکتا ہے؟ مثلا
اس کی آنکھوں میں ہے اس درجہ جھجک، شرم و حیا
پھر غیر ضروری تعقید کیوں؟ الفاظ کی قدرتی ترتیب برقرار رکھنے کی حتی الوسع کوشش کیا کرو.
دوسرے مصرعے میں دفعہ کا تلفظ ٹھیک نہیں ہے. ع ادا نہیں ہو رہی اور تقطیع میں د+فہ آ رہا ہے، جبکہ اس کہ تقطیع دف+عہ ہو گی.
بیان بھی بڑا گنجلک ہے، مفہوم ٹھیک سے واضح نہیں ہوتا. اس پر دوبارہ فکر کرو.

آؤ دیکھیں، کبھی ہم حسنِ خدا جی بھر کر
دیکھنے کے لئے, رب نے ہیں بنائی آنکھیں
"حسنِ خدا" بالذات کیسے دیکھا جا سکتا ہے. اس کے لیے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی لن ترانی کہہ دیا گیا تھا، ہماری کیا ہستی!
ہاں حسنِ خدا کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں، سو شعر کا بیانیہ بھی اسی پیرائے میں ہونا چاہیے.
 

یاسر علی

محفلین
چلو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ سب قوافی میں "ئیں" لگا دیا گیا ہے.


آتشِ عشق کو اتشِ ہجر کر دو تو زیادہ مناسب رہے گا میرے خیال میں.


جب اپنے فعل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ "ہم سے اس کی آنکھیں نہیں بھول پائیں" ... ظاہر ہے کہ گرامر کے حساب سے یہ درست نہیں. "ہم سے اس کی آنکھیں بھلائی نہ گئیں/جا سکیں" کہنا درست ہوگا.


آنکھوں میں آنکھیں بسانا شاید قابل قبول ہو، مجھے کچھ فلمی سا لگتا ہے.


لگے کی جگہ "لگا" آنا چاہیے پہلے مصرعے میں.


"اس کی ہے آنکھوں میں" کی جگہ "اس کی آنکھوں میں ہے" بھی تو کہا جا سکتا ہے؟ مثلا
اس کی آنکھوں میں ہے اس درجہ جھجک، شرم و حیا
پھر غیر ضروری تعقید کیوں؟ الفاظ کی قدرتی ترتیب برقرار رکھنے کی حتی الوسع کوشش کیا کرو.
دوسرے مصرعے میں دفعہ کا تلفظ ٹھیک نہیں ہے. ع ادا نہیں ہو رہی اور تقطیع میں د+فہ آ رہا ہے، جبکہ اس کہ تقطیع دف+عہ ہو گی.
بیان بھی بڑا گنجلک ہے، مفہوم ٹھیک سے واضح نہیں ہوتا. اس پر دوبارہ فکر کرو.


"حسنِ خدا" بالذات کیسے دیکھا جا سکتا ہے. اس کے لیے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی لن ترانی کہہ دیا گیا تھا، ہماری کیا ہستی!
ہاں حسنِ خدا کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں، سو شعر کا بیانیہ بھی اسی پیرائے میں ہونا چاہیے.
شکریہ راحل صاحب!
راہنمائی فرمانے کا۔۔
 

یاسر علی

محفلین
الف عین

جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائیں آنکھیں
ہائے! اس شخص نے ہم سے نہ ملائیں آنکھیں

آتشِ ہجر نے جب میری جلائیں آنکھیں
تب تری یاد کے اشکوں سے بجھائیں آنکھیں

اس کی ہر ایک ادا ہم نے بھلا دی لیکن
اس کی بس اک نہ گئیں ہم سے بھلائیں آنکھیں

اپنے دل میں تو نہ کچھ ہم نے بسایا لیکن
اپنی آنکھوں میں اسی کی ہیں بسائیں آنکھیں

وہ حسیں ہم کو لگا پہلے سے بھی بڑھ کر، جب
ہم پہ اس شخص نے غصے سے اٹھائیں آنکھیں

ساری دنیا میں فقط آپ ہی بھائے ہیں اور
آپ کی سب سے زیادہ ہمیں بھائیں آنکھیں

اس کی آنکھوں میں ہے اس درجہ جھجھک شرم و حیا
دیکھ کر ایک نظر ہم کو جھکائیں آنکھیں

کیوں نہ حسرت سے ترا حسنِ سراپا دیکھوں
دیکھنے کے لئے رب نے ہیں بنائیں آنکھیں

ہم نے الفت کی نظر سے جسے دیکھا میثم
اس نے دشمن کی طرح ہم کو دکھائیں آنکھیں

متفرق شعر
مجھ سے بچھڑا تو اگر یاد کی بارش ہوگی
سہہ نہ پائیں گی کسی طور جدائی آنکھیں
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
تمام اساتذہ کرام سے درخواست ہے کہ ایک بار پھر نظر ثانی فرما دیں ۔شکریہ
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن

جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائیں آنکھیں
ہائے! اس شخص نے ہم سے نہ ملائیں آنکھیں

آتشِ ہجر نے جب میری جلائیں آنکھیں
تب تری یاد کے اشکوں سے بجھائیں آنکھیں

اس کی ہر ایک ادا ہم نے بھلا دی لیکن
اس کی بس اک نہ گئیں ہم سے بھلائیں آنکھیں

اپنے دل میں تو نہ کچھ ہم نے بسایا لیکن
اپنی آنکھوں میں اسی کی ہیں بسائیں آنکھیں

وہ حسیں ہم کو لگا پہلے سے بھی بڑھ کر، جب
ہم پہ اس شخص نے غصے سے اٹھائیں آنکھیں

ساری دنیا میں فقط آپ ہی بھائے ہیں اور
آپ کی سب سے زیادہ ہمیں بھائیں آنکھیں

اس کی آنکھوں میں ہے اس درجہ جھجھک شرم و حیا
دیکھ کر ایک نظر ہم کو جھکائیں آنکھیں

کیوں نہ حسرت سے ترا حسنِ سراپا دیکھوں
دیکھنے کے لئے رب نے ہیں بنائیں آنکھیں

ہم نے الفت کی نظر سے جسے دیکھا میثم
اس نے دشمن کی طرح ہم کو دکھائیں آنکھیں
 
آخری تدوین:
Top