برائے اصلاح :جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائی آنکھیں

تمام اساتذہ کرام سے درخواست ہے کہ ایک بار پھر نظر ثانی فرما دیں ۔شکریہ
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن

جس کے رستے میں سدا ہم نے بچھائیں آنکھیں
ہائے! اس شخص نے ہم سے نہ ملائیں آنکھیں

آتشِ ہجر نے جب میری جلائیں آنکھیں
تب تری یاد کے اشکوں سے بجھائیں آنکھیں

اس کی ہر ایک ادا ہم نے بھلا دی لیکن
اس کی بس اک نہ گئیں ہم سے بھلائیں آنکھیں

اپنے دل میں تو نہ کچھ ہم نے بسایا لیکن
اپنی آنکھوں میں اسی کی ہیں بسائیں آنکھیں

وہ حسیں ہم کو لگا پہلے سے بھی بڑھ کر، جب
ہم پہ اس شخص نے غصے سے اٹھائیں آنکھیں

ساری دنیا میں فقط آپ ہی بھائے ہیں اور
آپ کی سب سے زیادہ ہمیں بھائیں آنکھیں

اس کی آنکھوں میں ہے اس درجہ جھجھک شرم و حیا
دیکھ کر ایک نظر ہم کو جھکائیں آنکھیں

کیوں نہ حسرت سے ترا حسنِ سراپا دیکھوں
دیکھنے کے لئے رب نے ہیں بنائیں آنکھیں

ہم نے الفت کی نظر سے جسے دیکھا میثم
اس نے دشمن کی طرح ہم کو دکھائیں آنکھیں

اشعار میں فاعل کبھی جمع لیا گیا ہے اور کبھی واحد کبھی اس کا اس کی کہا گیا ہے اور کبھی تیری تیرا پوری غزل میں فاعل ایک ہی ہونا چاہئے
 
سجاد بھائی یہ اصول آپ نے کہاں سے اخذ کیا؟
راحل بھائی میری اپنی غزلیات پہ پہلے پہلے اعتراض لگتے رہے ہیں کہ ایک شعر میں اگر فاعل تم یا تمھارا استعمال ہوا ہے تو پوری غزل میں یہی ہونا چاہئے اور اگر تو اور تیرا استعمال ہوا ہے تو تمام اشعار میں یہی ہو گا آگے واللہ واعلم
 
راحل بھائی میری اپنی غزلیات پہ پہلے پہلے اعتراض لگتے رہے ہیں کہ ایک شعر میں اگر فاعل تم یا تمھارا استعمال ہوا ہے تو پوری غزل میں یہی ہونا چاہئے اور اگر تو اور تیرا استعمال ہوا ہے تو تمام اشعار میں یہی ہو گا آگے واللہ واعلم
میرے خیال سے آپ سے سمجھنے میں کچھ سہو ہوا ہے.
آپ نے جس عیب کی نشاندہی کی اسے شتر گربہ کہتے ہیں.
غزل کا ہر شعر چونکہ ایک الگ اکائی ہوتا ہے، اس لیے غزل میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ ہر شعر میں ایک ہی ضمیر لائی جائے. ایک شعر میں تم، تو دوسرے میں تو یا آپ کا صیغہ استعمال کرنا بلا کراہت جائز ہے. ہاں، ایک شعر کے دونوں مصرعوں کے لیے یہ پابندی ہے کہ ضمیر ایک ہی رکھی جائے.

واضح رہے کہ یہ صرف غزل کے متفرق اشعار کے باب میں ہے. نظم (آزاد اور پابند دونوں) میں لازمی ہے کہ اول تا آخر ایک ہی ضمیر استعمال کی جائے. اسی طرح غزل کے قطع بند اشعار میں بھی ضمیر کی پابندی لازمی ہے.
 
آخری تدوین:
میرے خیال سے آپ سے سمجھنے میں کچھ سہو ہوا ہے.
آپ نے جس عیب کی نشاندہی کی اسے شتر گربہ کہتے ہیں.
غزل کا ہر شعر چونکہ ایک الگ اکائی ہوتا ہے، اس لیے غزل میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ ہر شعر میں ایک ہی ضمیر لائی جائے. ایک شعر میں تم، تو دوسرے میں تو یا آپ کا صیغہ استعمال کرنا بلا کراہت جائز ہے. ہاں، ایک شعر کے دونوں مصرعوں کے لیے یہ پابندی ہے کہ ضمیر ایک ہی رکھی جائے.

واضح رہے کہ یہ صرف غزل کے متفرق اشعار کے باب میں ہے. نظم (آزاد اور پابند دونوں) میں لازمی ہے کہ اول تا آخر ایک ہی ضمیر استعمال کی جائے. اسی طرح غزل کے قطع بند اشعار میں بھی ضمیر کی پابندی لازمی ہے.
شکریہ راحل بھائی اس قید سے میں بھی آزاد ہو گیا
 
Top