برائے اصلاح : جنونِ عشق کو سر میں سمائے پھرتا رہتا ہوں : از: ایم اے راجا ؔ

ایم اے راجا

محفلین
کافی عرصہ پہلے یہ غزل کہی تھی جو کہ آپریشن سے ھ گئی تھی آ ج عرض ہے۔

جنونِ عشق کو سر میں سمائے پھرتا رہتا ہوں
سرِ بازار میں خود کو لٹائے پھرتا رہتا ہوں
وہ رہنے ہی نہیں دیتا بھرم الفت کا محفل میں
جسے پلکوں پہ اپنی میں بٹھائے پھرتا رہتا ہوں
بھلا دیں گے یقینن وہ مرے دردِ مشقت کو
جنھیں میں آج کاندھوں پر اٹھائے پھرتا رہتا ہوں
زمیں پر ہیں قدم میرے مگر قد تو ذرا دیکھو
فلک کو سر پہ اپنے میں سجائے پھرتا رہتا ہوں
شہیدوں کا میں وارث ہو یہ کربل میرا ورثہ ہے
میں تیرِ ہجر سینے میں چبھائے پھرتا رہتا ہوں
کوئی آتش فشاں سا دہکتا ہے میرے اندر میں
جسے صدیوں سے سینے میں دبائے پھرتا رہتا ہوں
کوئی دیوار حائل ہے ہمارے درمیاں راجا !
پسِ دیوار کربِ دل چھپائے پھرتا رہتا ہوں
 
کافی عرصہ پہلے یہ غزل کہی تھی جو کہ آپریشن سے ھ گئی تھی آ ج عرض ہے۔

کوئی آتش فشاں سا دہکتا ہے میرے اندر میں
جسے صدیوں سے سینے میں دبائے پھرتا رہتا ہوں
خوبصورت۔داد قبول فرمائیے۔
اس مصرع کو اگر یوں کردیا جائے؟
دہکتا ہے کوئی آتش فشاں سا میرے اندر بھی
 

ایم اے راجا

محفلین
خوبصورت۔داد قبول فرمائیے۔
اس مصرع کو اگر یوں کردیا جائے؟
دہکتا ہے کوئی آتش فشاں سا میرے اندر بھی
بہت شکریہ جناب۔
مگر میرا خیال ہیکہ مصرعہ بحر سے خارج ہو جائے گا، حالانکہ رواں زیادہ ہے۔
میرے خیال میں دہکنا کا وزن فا علن بنتا ہے شاید، یا پھر میرا تلفظ غلط ہے !
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ۔
اس کا مطلب میرا دہکتا کو بر وزن فاعلن باندھنا غلط تھا فعولن ہے، تو پھر آپ کا مصرعہ بہت خوب بنا، بہت شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
جنونِ عشق کو سر میں سمائے پھرتا رہتا ہوں
سرِ بازار میں خود کو لٹائے پھرتا رہتا ہوں
وہ رہنے ہی نہیں دیتا بھرم الفت کا محفل میں
جسے پلکوں پہ اپنی میں بٹھائے پھرتا رہتا ہوں
بھلا دیں گے یقینن وہ مرے دردِ مشقت کو
جنھیں میں آج کاندھوں پر اٹھائے پھرتا رہتا ہوں
زمیں پر ہیں قدم میرے مگر قد تو ذرا دیکھو
فلک کو سر پہ اپنے میں سجائے پھرتا رہتا ہوں
شہیدوں کامیں وارث ہوں یہ کربل میرا ورثہ ہے
میں تیرِ ہجر سینے میں چبھائے پھرتا رہتا ہوں
دہکتا ہے کوئی آتش فشاں سا میرے اندر بھی
جسے صدیوں سے سینے میں دبائے پھرتا رہتا ہوں
کوئی دیوار حائل ہے ہمارے درمیاں راجا !
پسِ دیوار کربِ دل چھپائے پھرتا رہتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
دہکنا بروزن فاعلن واقعی غلط تھا۔ عزیزم خلیل کی اصلاح مناسب تھی۔ کچھ اشعار سمجھ میں نہیں آئے۔ ویسے بعد میں مزید غور کرنے کی جگہ ابھی ہی کچھ اعتراضات کا ذکر تو کر ہی دیتا ہوں۔
وہ رہنے ہی نہیں دیتا بھرم الفت کا محفل میں
جسے پلکوں پہ اپنی میں بٹھائے پھرتا رہتا ہوں
عجیب شخص ہے؟ بھرم کیوں نہیں رکھتا۔ اور تم پلکوں میں بٹھائے پھرتے کیوں ہو، محفل میں ہی کیوں نہیں بیٹھے رہتے جہاں محبوب بیٹھی ہوئی ہے!!
بھلا دیں گے یقینن وہ مرے دردِ مشقت کو
جنھیں میں آج کاندھوں پر اٹھائے پھرتا رہتا ہوں
یقیناً؟؟ خیر یہ تو املا تھی۔ لیکن دردِ مشقت کیا ہے؟
زمیں پر ہیں قدم میرے مگر قد تو ذرا دیکھو
فلک کو سر پہ اپنے میں سجائے پھرتا رہتا ہوں
سر پر اٹھانا محاورہ ہے، سجانا کیوں؟
شہیدوں کامیں وارث ہوں یہ کربل میرا ورثہ ہے
میں تیرِ ہجر سینے میں چبھائے پھرتا رہتا ہوں
شہید تو اپنی موت کا سامان چھپائے نہیں پھرتے؟
کوئی دیوار حائل ہے ہمارے درمیاں راجا !
پسِ دیوار کربِ دل چھپائے پھرتا رہتا ہوں
یہ ’کربِ دل‘ کیا ہے، یہ شعر دو لخت ہے، دونوں مصرعوں کا باہمی تعلق سمجھ میں نہیں آیا۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلی قرات پر ہی کچھ مشورے تو دے دئے تھے۔ ان کا قابل تشفی کچھ تصحیح کر دو تو میں پھر سے دیکھوں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ تم سب کسی شعر کو ہی حذف کر دیتے ہو، یا ایسی تصحیح کرتے ہو کہ کچھ اور غلطی ہو جاتی ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ میری نشان دہی کے بعد پہلے اس کی تصحیح کی کوشش کیا کرو۔ اظہر نذیر کے بارے میں یہ مشاہدہ اکثر کیا گیا ہے، اسی لئے ’تم سب‘ لکھا ہے اوپر۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
دہکتا ہے کوئی آتش فشاں سا میرے اندر بھی
جسے صدیوں سے سینے میں دبائے پھرتا رہتا ہوں
کوئی دیوار حائل ہے ہمارے درمیاں راجا !
پسِ دیوار کربِ دل چھپائے پھرتا رہتا ہوں
ایم اے راجہ صاحب
بہت پیاری غزل عنایت کی ہے آپ نے
داد پیشِ خدمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
دہکنا بروزن فاعلن واقعی غلط تھا۔ عزیزم خلیل کی اصلاح مناسب تھی۔ کچھ اشعار سمجھ میں نہیں آئے۔ ویسے بعد میں مزید غور کرنے کی جگہ ابھی ہی کچھ اعتراضات کا ذکر تو کر ہی دیتا ہوں۔
وہ رہنے ہی نہیں دیتا بھرم الفت کا محفل میں
جسے پلکوں پہ اپنی میں بٹھائے پھرتا رہتا ہوں


عجیب شخص ہے؟ بھرم کیوں نہیں رکھتا۔ اور تم پلکوں میں بٹھائے پھرتے کیوں ہو، محفل میں ہی کیوں نہیں بیٹھے رہتے جہاں محبوب بیٹھی ہوئی ہے!!


بھلا دیں گے یقینن وہ مرے دردِ مشقت کو


جنھیں میں آج کاندھوں پر اٹھائے پھرتا رہتا ہوں


یقیناً؟؟ خیر یہ تو املا تھی۔ لیکن دردِ مشقت کیا ہے؟


زمیں پر ہیں قدم میرے مگر قد تو ذرا دیکھو


فلک کو سر پہ اپنے میں سجائے پھرتا رہتا ہوں


سر پر اٹھانا محاورہ ہے، سجانا کیوں؟


شہیدوں کامیں وارث ہوں یہ کربل میرا ورثہ ہے


میں تیرِ ہجر سینے میں چبھائے پھرتا رہتا ہوں


شہید تو اپنی موت کا سامان چھپائے نہیں پھرتے؟


کوئی دیوار حائل ہے ہمارے درمیاں راجا !
پسِ دیوار کربِ دل چھپائے پھرتا رہتا ہوں


یہ ’کربِ دل‘ کیا ہے، یہ شعر دو لخت ہے، دونوں مصرعوں کا باہمی تعلق سمجھ میں نہیں آیا۔
بھلا دیں گے یقینن وہ مرے دردِ مشقت کو


جنھیں میں آج کاندھوں پر اٹھائے پھرتا رہتا ہوں


یقیناً؟؟ خیر یہ تو املا تھی۔ لیکن دردِ مشقت کیا ہے؟


سر باقی اشعار کو بعد میں دیکھتا ہوں مگر اس شعر کے بارے میں عرض ہیکہ، درد مشقت ، محنت کرنے پر ہونے والی تکلیف ہے، شاید بشیر بدر (اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو) نے اپنی غزل میں اسے استعمال کیا ہے ، اسکا مصرعہ ٹھیک سے یاد نہیں مگر دوسرا مصرع یوں ہے شاید، بیٹے ماں کے ہو جاتے ہیں جب کمانے لگ جائیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
دہکتا ہے کوئی آتش فشاں سا میرے اندر بھی

جسے صدیوں سے سینے میں دبائے پھرتا رہتا ہوں

کوئی دیوار حائل ہے ہمارے درمیاں راجا !

پسِ دیوار کربِ دل چھپائے پھرتا رہتا ہوں


ایم اے راجہ صاحب

بہت پیاری غزل عنایت کی ہے آپ نے

داد پیشِ خدمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
بہت مشکور ہوں، بہت شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
سر باقی اشعار کو بعد میں دیکھتا ہوں مگر اس شعر کے بارے میں عرض ہیکہ، درد مشقت ، محنت کرنے پر ہونے والی تکلیف ہے، شاید بشیر بدر (اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو) نے اپنی غزل میں اسے استعمال کیا ہے ، اسکا مصرعہ ٹھیک سے یاد نہیں مگر دوسرا مصرع یوں ہے شاید، بیٹے ماں کے ہو جاتے ہیں جب کمانے لگ جائیں۔[/quote]
ٹھیک ہے، بات مان لی تمہاری۔
 

ایم اے راجا

محفلین
سر اب ذرا دیکھیئے گا۔


وہ رہنے ہی نہیں دیتا بھرم الفت کا محفل میں

جسے پلکوں پہ اپنی میں بٹھائے پھرتا رہتا ہوں

(سر یہاں کیا یہ مطلب واضح نہیں ہو جاتا کہ جس کو اپنی پلکوں پر بٹھا کے پھرتا ہوں وہ سب کے سامنے میرا بھرم توڑ دیتا ہے)



زمیں پر ہیں قدم میرے مگر قد تو ذرا دیکھو

فلک کو سر پہ اپنے میں سجائے پھرتا رہتا ہوں

( میرا خیال ہیکہ فلک میں چاند تارے وغیرہ بھی ہیں جنھیں سجایا جا سکتا ہے سو اس لحاظ سے عرض کیا ہے، اور فلک کو بطور تاج سجانا بھی تو ہو سکتا ہے)

یا پھر یو ں کر دوں تو​

فلک سے سر کو اپنے میں لگائے پھرتا رہتا ہوں

یا

ستارے سر پہ اپنے میں سجائے پھرتا رہتا ہوں

شہیدوں کامیں وارث ہوں یہ کربل میرا ورثہ ہے

میں تیرِ ہجر سینے میں چبھائے پھرتا رہتا ہوں

(سر یہاں یہ مراد ہیکہ میرا شہیدوں اور کربل سے رابطہ و واسطہ ہے، یہ مری وراثت ہیں اسلیئے ہجر، درد کا تیر سینے میں ہر وقت میں چبھا کر پھرتا ہوں)



کوئی دیوار حائل ہے ہمارے درمیاں راجا !

پسِ دیوار کربِ دل چھپائے پھرتا رہتا ہوں

( ایک رکاوٹ ہے ہمارے درمیان اور میں رکاوٹ کی اس جانب دل کا کرب و درد لوگوں سے چھپا کر پھرتا ہوں)
 

الف عین

لائبریرین
پہلا شعر دو لخت ہے، دونوں میں الگ الگ بات کہی گئی ہے۔ پہلی میں محفل کا ذکر ہے، اور دوسری میں اٹھائے پھرنے کا، یعنی محفل سے باہر۔
فلک والا شعر چلنے دو یوں ہی۔ ویسے فلک اور سر سے پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے، وہ وہی محاورہ آتا ہے، اٹھانے والا۔
تیسرا شعر بھی درست ہے، معذرت کہ پہلے میں نے ’چھپائے‘ پڑھا تھا بجائے ’چبھائے‘ کے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
سر میرے ذہن میں کچھ یوں آیا ہے ۔

وہ رہنے ہی نہیں دیتا بھرم میری وفائوں کا
جسے پلکوں پہ اپنی میں بٹھائے پھرتا رہتا ہوں
 
Top