برائے اصلاح: خدا کو اپنے کیے کا جواب کیا دیتا

مقبول

محفلین
محترم سر الف عین
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے

خدا کو اپنے کیے کا حساب کیا دیتا
سوال ہی نہیں سمجھا ، جواب کیا دیتا

مرے حساب میں ہی نیکیاں تھیں کم اتنی
خدا بھی ہنس دیا مجھ کو ثواب کیا دیتا

خدا نے جلد نکالا مجھے جہنم سے
وہ اک غریب کو دائم عذاب کیا دیتا

نہ جس کو بھوک نے سونے دیا سکوں سے کبھی
وہ شخص بچوں کو دیتا تو خواب کیا دیتا

جو شاہ چاہتا تھا باشعور ہو نہ عوام
وُہ ان کے ہاتھ میں کوئی کتاب کیا دیتا

سوائے سلوٹوں کے ہاتھ اور چہرے پر
کسی یتیم کو اس کا شباب کیا دیتا

وُہ آسماں سے گرا تو کھجور میں اٹکا
کسی غریب کو اور انقلاب کیا دیتا

جو حاکموں کو نہ مقبول کہتا میں قاتل
تو ایسے قاتلوں کو میں خطاب کیا دیتا
 

الف عین

لائبریرین
بس مجھے کچھ مصرعوں میں روانی کی کمی لگ رہی ہے، حروف کے اسقاط کی وجہ سے
جو شاہ چاہتا تھا باشعور ہو نہ عوام
جو حاکموں کو نہ مقبول کہتا میں قاتل
تو ایسے قاتلوں کو میں خطاب کیا دیتا
اور شعر تو یہ مکمل شعر عجیب ہے، اسقاط بھی ہے
سوائے سلوٹوں کے ہاتھ اور چہرے پر
کسی یتیم کو اس کا شباب کیا دیتا
 

مقبول

محفلین
سر الف عین
بہت شکریہ، کچھ بہتری کی کوشش کی ہے
جو شاہ چاہتا تھا باشعور ہو نہ عوام
وُہ ان کے ہاتھ میں کوئی کتاب کیا دیتا
پہلا مصرع تبدیل کیا ہے
اسے تو دینا تھا بچوں کے ہاتھ میں کشکول
وُہ ان کے ہاتھ میں کوئی کتاب کیا دیتا
اور شعر تو یہ مکمل شعر عجیب ہے، اسقاط بھی ہے
جو حاکموں کو نہ مقبول کہتا میں قاتل
تو حاکموں کو میں اپنے خطاب کیا دیتا
سوائے سلوٹوں کے ہاتھ اور چہرے پر
کسی یتیم کو اس کا شباب کیا دیتا
سوائے جھریوں بھرے ہاتھ اور چہرے کے
کسی یتیم کو اس کا شباب کیا دیتا
 

الف عین

لائبریرین
کشکول والا شعر آ بہتر ہو گیا
لیکن جو حاکموں... اور.. سوائے جھریوں...
پسند نہیں آئے
جھریاں/جھریوں میں "ر" پر تشدید ہوتی ہے، مفاعلن کے وزن پر، جھریوں والا شعر کا نکالنا ہی بہتر ہے۔ خیال بھی کچھ پسند نہیں آیا
 
Top