عاطف ملک
محفلین
غزل
خوشی کی آرزو میں زندگی بھر غم کمائے ہیں
تِرا دل جیتنے نکلے تھے خود کو ہار آئے ہیں
چرانا چاہتا تھا زندگی سے جس کی سارے غم
اسی نے زندگی بھر خون کے آنسو رلائے ہیں
اسی کا ذکر ہے پنہاں،ہر اک تحریر میں میری
ردیفیں قافیے سارے، اسی خاطر سجائے ہیں
کوئی سمجھائے بُلبُل کو, چمن سے فاصلہ رکھے
گُلُوں کے بھیس میں صَیّاد نے پھندے لگائے ہیں
اسے سب علم ہے کس کس میں تھی کتنی وفاداری
سبھی کے عہد اس نے قتل کر کے آزمائے ہیں
تمنا ہے زمانہ ٹھوکروں پر اب ہمیں رکھ لے
کہ ہم کو چوٹ کھاتا دیکھ کر وہ مسکرائے ہیں
خزاں سے کیوں ہو ناراضی، گلہ کانٹوں سے ہو کیونکر
کہ گلشن میں شمیم و گُل بھی بربادی ہی لائے ہیں
شبِ ظلمات میں ویران راہوں کے مسافر کو
جہاں تم ہم سفر تھے، راستے وہ یاد آئے ہیں
سکوتِ شب میں بھی ہے اِک عجب سی نغمگی عاطف
تِری یا دوں کے دلکش گیت خاموشی نے گائے ہیں
ایک اور شعر جس کے متعلق کچھ زیادہ ہی تحفظات ہیں:خوشی کی آرزو میں زندگی بھر غم کمائے ہیں
تِرا دل جیتنے نکلے تھے خود کو ہار آئے ہیں
چرانا چاہتا تھا زندگی سے جس کی سارے غم
اسی نے زندگی بھر خون کے آنسو رلائے ہیں
اسی کا ذکر ہے پنہاں،ہر اک تحریر میں میری
ردیفیں قافیے سارے، اسی خاطر سجائے ہیں
کوئی سمجھائے بُلبُل کو, چمن سے فاصلہ رکھے
گُلُوں کے بھیس میں صَیّاد نے پھندے لگائے ہیں
اسے سب علم ہے کس کس میں تھی کتنی وفاداری
سبھی کے عہد اس نے قتل کر کے آزمائے ہیں
تمنا ہے زمانہ ٹھوکروں پر اب ہمیں رکھ لے
کہ ہم کو چوٹ کھاتا دیکھ کر وہ مسکرائے ہیں
خزاں سے کیوں ہو ناراضی، گلہ کانٹوں سے ہو کیونکر
کہ گلشن میں شمیم و گُل بھی بربادی ہی لائے ہیں
شبِ ظلمات میں ویران راہوں کے مسافر کو
جہاں تم ہم سفر تھے، راستے وہ یاد آئے ہیں
سکوتِ شب میں بھی ہے اِک عجب سی نغمگی عاطف
تِری یا دوں کے دلکش گیت خاموشی نے گائے ہیں
(ترے ہی دعوے تھے نا ہم سے بے پایاں محبت کے؟
یا ہم نے خود سے ہی یہ سارے مفروضے بنائے ہیں)
یا ہم نے خود سے ہی یہ سارے مفروضے بنائے ہیں)
آخری تدوین: