فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے۔
وصل کی رات کے آنے پہ نکھر جاتی ہے
خود پہ بنتی ہے تو یہ سوچ کدھر جاتی ہے؟
نشہ طاقت کا اترتا نہیں جب چڑھ جائے
مے پرانی ہو بہت پھر بھی اتر جاتی ہے
زندگی موت کی سرحد پہ بکھر جاتی ہے
مشت بھر خاک مگر حد سے گزر جاتی ہے / خواہشِ نفس مگر حد سے گزر جاتی ہے
ہجر کی دھوپ میں جل کر جو کلی مرجھائےمشت بھر خاک مگر حد سے گزر جاتی ہے / خواہشِ نفس مگر حد سے گزر جاتی ہے
وصل کی رات کے آنے پہ نکھر جاتی ہے
یوں تو سب کو ہی سکھاتے ہو قناعت کرناخود پہ بنتی ہے تو یہ سوچ کدھر جاتی ہے؟
نشہ طاقت کا اترتا نہیں جب چڑھ جائے
مے پرانی ہو بہت پھر بھی اتر جاتی ہے
وہ مقام آنکھ سے دیکھا نہیں جاتا یارو!
جس جگہ اہلِ فراست کی نظر جاتی ہے
کیوں مسافر سے الجھتی ہے مخالف بن کر؟
اب جو منزل کی طرف راہگزر جاتی ہے
دل تو پہلے ہی نثار ان پہ کیا ہے ہم نے
جاں بھی دے دیں گے محبت میں اگر جاتی ہے
فلسفیؔ عشق میں ڈوبی ہوئی ہر بات ان کی
سوزِ الفت کی طرح دل میں اتر جاتی ہے
جس جگہ اہلِ فراست کی نظر جاتی ہے
کیوں مسافر سے الجھتی ہے مخالف بن کر؟
اب جو منزل کی طرف راہگزر جاتی ہے
دل تو پہلے ہی نثار ان پہ کیا ہے ہم نے
جاں بھی دے دیں گے محبت میں اگر جاتی ہے
فلسفیؔ عشق میں ڈوبی ہوئی ہر بات ان کی
سوزِ الفت کی طرح دل میں اتر جاتی ہے