نوید ناظم
محفلین
ہم جو مر کے اُس گلی تک آ گئے
یوں سمجھ لو زندگی تک آ گئے
محو ہے سورج بس اپنے آپ میں
اور اندھیرے روشنی تک آ گئے
اُس بتِ بیداد ہی کا فیض ہے
ہم خدا کی بندگی تک آ گئے
قہقہہ اک غم کا ہونا چاہیے
درد اب میری ہنسی تک آ گئے
اے خدا اُن کے ستم کی خیر ہو
کیا وہ بھی چارہ گری تک آ گئے؟
تھام لی انگلی جُنوں کی دوستو
اس لیے تو آگہی تک آ گئے
ہوں خود اپنے دل سے ناواقف ابھی
آپ یہ کس اجنبی تک آ گئے
کاش ہم بھی بچ نکلتے عشق سے
خیر اب تو بے بسی تک آ گئے
یوں سمجھ لو زندگی تک آ گئے
محو ہے سورج بس اپنے آپ میں
اور اندھیرے روشنی تک آ گئے
اُس بتِ بیداد ہی کا فیض ہے
ہم خدا کی بندگی تک آ گئے
قہقہہ اک غم کا ہونا چاہیے
درد اب میری ہنسی تک آ گئے
اے خدا اُن کے ستم کی خیر ہو
کیا وہ بھی چارہ گری تک آ گئے؟
تھام لی انگلی جُنوں کی دوستو
اس لیے تو آگہی تک آ گئے
ہوں خود اپنے دل سے ناواقف ابھی
آپ یہ کس اجنبی تک آ گئے
کاش ہم بھی بچ نکلتے عشق سے
خیر اب تو بے بسی تک آ گئے