برائے اصلاح (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

نوید ناظم

محفلین
بعد میں قیس بھی چلا آیا
دشت میں رہنے کا مزہ آیا

لوگ پھر لے کے آ گئے پتھر
ہاتھ میں جب بھی آئنہ آیا

خاک منزل پہ پھر پہنچنا تھا
جب مقابل ہی راستہ آیا

یہ تغافل ہے تو مرا دل دو
اب کے میں بھی اُسے سنا آیا

جب بھی آواز دی اداسی نے
میں نے اس کو یہی کہا' آیا

اٹھ تِری پیاس رنگ لے آئی
سامنے دیکھ مے کدہ آیا

آنکھ سے کل جو اشک ٹپکا تھا
وہ تِری یاد تھی' بہا آیا
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل بس یہ شعر
یہ تغافل ہے تو مرا دل دو
اب کے میں بھی اُسے سنا آیا
سمجھ میں نہیں آیا۔ واضح نہیں۔
 

نوید ناظم

محفلین
درست ہے غزل بس یہ شعر
یہ تغافل ہے تو مرا دل دو
اب کے میں بھی اُسے سنا آیا
سمجھ میں نہیں آیا۔ واضح نہیں۔
شکریہ سر۔۔۔ شعر کا ابلاغ نہ ہو سکا۔۔۔ یوں دیکھیے گا

عشق میں ہجر اب نہیں چلنا
اب کے میں بھی اُسے سنا آیا
 

الف عین

لائبریرین
جی سر یہی مراد ہے۔۔ " عشق میں ہجر اب قبول نہیں"۔۔۔ اب ملا واضح مصرعہ:)
اسی لیے میں بھی آسی بھائی کی طرح یہی کہتا ہوں کہ خود ہی غور کریں ایک بار۔ پہلے اپنی اصلاح خود کرنے کی کوشش کریں غزل کے ساتھ کچھ وقت گزار کر۔ اور اس کے بعد دوسروں کے مشورے کے لیے پیش کریں۔
 
Top