تمہاری ترمیم کے بعد ہی یہ غزل لے رہا ہوں
تم کو اب خدا سمجھے
تم ہمیں یہ کیا سمجھے
۔۔دوسرا درست ہو گیا ہے، لیکن پہلے مصرع میں ’اب‘ کی معنویت واضح نہیں۔
دم گھٹا تو پھر جانا
بیٹھے تھے صبا سمجھے
÷÷درست
کوئی بھی نہیں ان سا
کیوں بھی دوست' کیا سمجھے
÷÷مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔ ’بھی دوست‘ کیوں؟
ایک کام اچھا تھا
ہم کو جو بُرا سمجھے
÷÷یہ بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ کس کا اچھا کام تھا؟ اگر محبوب کا تو کم وز کم ’ا ن کا کام‘ ہونا تھا۔
ہے جفا' جفا آخر
کوئی کیوں وفا سمجھے
۔۔درست، لیکن دوسرا اگر ‘کیوں کوئی‘ ہو تو زیادہ بہتر ہو جائے۔
کیا؟ وہ زلف تھی ان کی!!
لو جی ہم گھٹا سمجھے
÷÷’لو جی‘ تمہارا ٹریڈ مارک ستائل بنتا جا رہا ہے!! ’ہم اسے گھٹا سمجھے‘ زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔
کوئی داغ تھا دل کا
تم جسے دیا سمجھے
۔۔درست، بلکہ بہت اچھا ہے، مزید بہتر شاید یوں ہو۔
داغ تھا کوئی دل کا
بہت شکریہ سر۔۔۔۔
تم کو اب خدا سمجھے
تم ہمیں یہ کیا سمجھے
مجھے تو ایسا لگا تھا کہ 'اب' کے بغیر مصرعے کی معنویت مفقود ہو جاتی' یہ تو اکثر محاراتا بولا ہی جاتا ہے سر کہ تم کو اب خدا سمجھے گا وغیرہ وغیرہ (یہ بھی ہے کہ اب بات ہمارے بس کی نہیں رہی' تم کو اب خدا سمجھے)
کوئی بھی نہیں ان سا
کیوں بھی دوست' کیا سمجھے
÷÷مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔ ’بھی دوست‘ کیوں؟
سر یہ محارا بھی اکثر بولا جاتا ہے کہ کیوں دوست کیا سمجھے' یا کیوں میاں کیا سمجھے وغیرہ' لیکن یہاں 'بھی' بھرتی کا لانا پڑا مجبوراَِ۔
ایک کام اچھا تھا
ہم کو جو بُرا سمجھے
÷÷یہ بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ کس کا اچھا کام تھا؟ اگر محبوب کا تو کم وز کم ’ا ن کا کام‘ ہونا تھا۔
سر یوں کر دیا۔۔۔
ایک کام اچھا تھا
ہم کو وہ برا سمجھے
''وہ'' سے بات نومِنیٹ ہو گئی ہے۔
ہے جفا' جفا آخر
کوئی کیوں وفا سمجھے
۔۔درست، لیکن دوسرا اگر ‘کیوں کوئی‘ ہو تو زیادہ بہتر ہو جائے۔
ٹھیک سر
کیا؟ وہ زلف تھی ان کی!!
لو جی ہم گھٹا سمجھے
÷÷’لو جی‘ تمہارا ٹریڈ مارک ستائل بنتا جا رہا ہے!! ’ہم اسے گھٹا سمجھے‘ زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔
ٹھیک سر۔۔ کیا یوں بھی ہو سکتا ہے؟
کیا؟ وہ زلف تھی ان کی!!
اوہ ہو' ہم گھٹا سمجھے
داغ تھا کوئی دل کا
بہترین سر!