برائے اصلاح (فعلن فعولن فعلن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
ہاں تجھ سے مل کر ایسا ہوا ہے
دل اور بھی اب تنہا ہوا ہے

پہنچی خبر میرے مرنے کی جب
سن کر کہا' یہ اچھا ہوا ہے

مانوس ہوں ویرانی سے اِس کی
یہ دشت میرا دیکھا ہوا ہے

اب کیوں چھڑاتے ہو مجھ سے دامن
سب ٹھیک ہی تھا اب کیا ہوا ہے

پھر کیا اگر وہ میرا نہیں تھا
تم ہی کہو وہ کس کا ہوا ہے

بس اب نہیں جانا اُس گلی میں
میں نے یہ پکا سوچا ہوا ہے

جس تخت پر تم یوں مر رہے ہو
وہ تو ہمارا چھوڑا ہوا ہے

یہ دل حقیقت میں ہے اُسی کا
سینے میں ویسے رکھا ہوا ہے

تم اور بھڑکا دو آ کے اُس کو
وہ مجھ پہ پہلے برسا ہوا ہے

دیکھو نوید اُس کی بزم میں پھر
کونے سے لگ کر بیٹھا ہوا ہے
 

الف عین

لائبریرین
غزل ویسے تو درست ہے۔ لیکن اس قسم کی بحروں میں میں وہی بات دہراؤں گا۔ یہ بحر بھی لو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اور ہر ٹکڑے میں لفظ کو ٹوٹنا نہیں طاہئے۔ اس سے روانی بے طرح متاثر ہوتی ہے۔ اگر مکمل فقرہ نہ ٹوٹے تو اور بھی بہتر ہے۔ اب ان کو خود ہی کوشش کر کے سدھارو تو دیکھا جائے۔
 

نوید ناظم

محفلین
غزل ویسے تو درست ہے۔ لیکن اس قسم کی بحروں میں میں وہی بات دہراؤں گا۔ یہ بحر بھی لو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اور ہر ٹکڑے میں لفظ کو ٹوٹنا نہیں طاہئے۔ اس سے روانی بے طرح متاثر ہوتی ہے۔ اگر مکمل فقرہ نہ ٹوٹے تو اور بھی بہتر ہے۔ اب ان کو خود ہی کوشش کر کے سدھارو تو دیکھا جائے۔
سر' جن اشعار میں الفاظ ٹوٹ رہے تھے انھیں درست کرنے کی کوشش کی ہے' آپ دیکھیے گا۔۔۔

پہنچی خبر جب مرنے کی میرے
سن کر کہا یہ اچھا ہوا ہے

ویرانی سے ہوں مانوس اس کی
یہ دشت میرا دیکھا ہوا ہے

اُس کی گلی میں جانا نہیں اب
میں نے یہ پکا سوچا ہوا ہے
 
Top