برائے اصلاح ....مجھے تو وقت نے تھمنے کا حوصلہ نہ دیا

نور وجدان

لائبریرین
پتا نہیں کیسی ہے یہ ۔۔۔

مجھے تو وقت نے تھمنے کا حوصلہ نہ دیا
مرا نصیب تھا ایسا، دیا دیا، نہ دیا

میں نے تو چاہا ہوا بن کر اور اڑوں میں بھی
مگر کیا ہوا آندھی نے فاصلہ نہ دیا

ارسطوؤں نے کہا شہر کے ،کہ انہوں نے
پنپنے کو ہی افلاطون حوصلہ نہ دیا

اگر یہ لوگ جو الزام بھی تراشیں تو کیا
کیا دیا، جو یہ مریم سا سلسلہ نہ دیا

میں نے تو رقص کیا تھا فقط جو بسمل کا
دِوانی لوگو نے سمجھا اور آسرا نہ دیا
 
آخری تدوین:

منیر

محفلین
واہ بہت خوب ۔۔۔اچھی کاوش ہے
اصلاح اور تنقید تو استاتذہ کریں گے ، ہم تو تعریف ہی کر سکتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ خیالات تو اچھے ہیں، بس بحر و اوزان میں۔ دو مختلف بحرویں استعمال کی گئی ہیں۔
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
اور
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
’کیا‘ کا تلفظ بھی غلط باندھا گیا ہے۔ عزیزی@ شوکت پرویز نے کہیں سمجھایا تھا نا کہ بمعنی فعل ماضی، فعو کے وزن پر اور استفہامیہ فع کے وزن پر ہوتا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ماشاء اللہ خیالات تو اچھے ہیں، بس بحر و اوزان میں۔ دو مختلف بحرویں استعمال کی گئی ہیں۔
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
اور
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
’کیا‘ کا تلفظ بھی غلط باندھا گیا ہے۔ عزیزی@ شوکت پرویز نے کہیں سمجھایا تھا نا کہ بمعنی فعل ماضی، فعو کے وزن پر اور استفہامیہ فع کے وزن پر ہوتا ہے۔
پہلے تو میں آپ کو بتاؤں میں آج خوش ہوں کہ آپ کو اچھا لگا۔۔آپ اوکے '' یا ''اچھا'' کم کہتے ۔۔باعثِ فخر ہے میرے لئے تعریف اور آپ کی اصلاح بھی آگے لے جارہی ۔۔ اور محترم محمد یعقوب آسی کی بدولت جن کی کل بات پڑھی کہ جو دل میں اس کے لے پر لکھوں ۔۔میں نے ایسا کیا÷÷÷

میں نے ''کیا'' کا وزن بدلا ہے ۔۔ دیکھیں اور بتائیں میرے عقل میں بات آئی ہو یہ ۔۔ اور مجھے بحر کو پتا نہیں چل رہا کیونکہ اک ہی بحر میں ڈالی ۔۔مفاعلن۔ فعلاتن۔مفاعلن فِعْلن یا فَعِلن کے اگر غلط ہے تو مہربانی وہ مصرعہ یا شعر کی نشاندہی کر دیں ۔۔تقطیع کا لنک :http://www.aruuz.com/Taqti/Output/169764




مجھے تو وقت نے تھمنے کا حوصلہ نہ دیا
مرا نصیب تھا ایسا، دیا دیا، نہ دیا


اُڑان بھرنے کو تھی میں۔ چلی ہوا ایسی
کہ جس کی چال نے اُڑنے کا راستہ نہ دیا


ارسطوؤں نے کہا ہے، بھلا ہوا کیا ہے
پنپنے کو جو افلاطوں کا حوصلہ نہ دیا

اگر ہیں لوگ سو الزام جو تراشے تو
دیا ہی کیا، وہ جو مریم سا سلسلہ نہ دیا

میں نے تو رقص کیا تھا فقط جو بسمل کا
دِوانی لوگو نے سمجھا، تو آسرا نہ دیا

خیال اُس کا مرے دل سے نوچ دے کوئی
کہ جس نے نورؔ محبت کا بھی صلہ نہ دیا

ایک اور شعر بڑھا لیا میں نے ۔۔۔تعریف کی وجہ سے۔۔:) :) :)
 
آخری تدوین:
یہاں دو باتیں خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہیں۔

پہلی بات
سید ذیشان اصغر نے جتنی محنت سے یہ عروض والی سائٹ تیار کی ہے، میں ذاتی طور پر اس کا گواہ بھی ہوں اور تھوڑا تھوڑا شامل بھی رہا ہوں۔ جناب مزمل شیخ بسمل کا حصہ میری نسبت کہیں زیادہ ہے، اور مَین مشین ڈائیلاگ کا کام تو سارے کا سارا سید ذیشان اصغر کا ہے۔ بہ این ہمہ ’’مشینی دماغ‘‘ جہاں بھی پہنچ جائے، ’’انسانی دماغ‘‘ بہر طور اَولیٰ ہے۔

دوسری بات
شعر کو لازم ہے کہ وہ کلامِ منظوم ہو (یعنی اوزان کے تقاضے پورے کرے) تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر کلامِ منظوم شعر کے درجے کو بھی پا لے گا۔ شعر کے اور بھی لوازمات اور تقاضے ہیں۔
 
اب ذرا شعر بہ شعر بات ہو جائے۔ اس کے بعد جناب اعجاز عبید صاحب کو زحمت دیجئے گا۔
بحر پر مختصر سی بات کئے لیتے ہیں۔ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن (فِعلن)، بالکل صحیح! میں نے اپنی سہولت کے لئے اسی کو یوں لکھا ہے:
فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن (اس میں آخری فاعلتن کی جگہ مفعولن بلا اکراہ جائز ہے)۔ بات ایک ہی ہے۔

مجھے تو وقت نے تھمنے کا حوصلہ نہ دیا
مرا نصیب تھا ایسا، دیا دیا، نہ دیا
بحر میں تو آ گیا۔ وقت کی خاصیت ہے ’’نہ تھمنا‘‘۔ دوسرا مصرعہ اگرچہ چست نہیں تاہم گزارہ ہو جاتا ہے۔
 
اُڑان بھرنے کو تھی میں۔ چلی ہوا ایسی
کہ جس کی چال نے اُڑنے کا راستہ نہ دیا
بھرنے : قاعدے کے مطابق یہاں ’’ے‘‘ کا گرانا قابلِ گرفت نہیں، تاہم مصرعے کی ملائمت جاتی رہی۔ دوسرے میں ’’چلی ہوا ایسی‘‘ کے بعد ’’کہ جس کی چال نے‘‘ الفاظ کا بے جا اسراف ہے۔ ان کی جگہ اپنے مضمون کو مضبوط کرنے والے کچھ الفاظ لائے جاتے تو بہت عمدہ شعر نکلتا۔
 
ارسطوؤں نے کہا ہے، بھلا ہوا کیا ہے
پنپنے کو جو افلاطون حوصلہ نہ دیا
دوسرا مصرع واضح نہیں ہے۔ اور اس میں وزن کا بھی مسئلہ ہے۔ کچھ ٹائپ ہونے میں رہ گیا ہو تو مجھے نہیں معلوم۔ ’”افلاطون‘‘ میں حروف ناطقہ کی بچت یوں کی جا سکتی تھی: ’’فلاطوں‘‘ ۔ یہاں واو بہت اہم ہے، اس کو گرانے سے بندہ خود افلاطنی ہو جاتا ہے۔
 
اگر ہیں لوگ سو الزام جو تراشے تو
دیا ہی کیا، وہ جو مریم سا سلسلہ نہ دیا
تلمیح غالباََ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کی طرف ہے، مگر مضمون بیان نہیں ہو پایا۔ ’’دیا ہی کیا‘‘ یہ شکایت کس سے ہے؟ سیاق و سباق کچھ بتانے سے قاصر ہے، قاری جیسے چاہے سوچ لے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ کیا کہ رنج دئے بےمثال تُو نے مگر
اُنہیں سہار سکوں ویسا حوصلہ نہ دیا
یہ چلے گا۔۔۔ ا''فلاطوں کا'' لکھا ہوا ہے اوپر
 
میں نے تو رقص کیا تھا فقط جو بسمل کا
دِوانی لوگو نے سمجھا، تو آسرا نہ دیا
اول: میں کی ’’ے‘‘ گرنے سے ’’منے ت‘‘ کی صوتیت بچی، بات وہی ہے، اوزان پورے ہو گئے مگر شعر کا حسن جاتا رہا۔
مزید: رقصِ بسمل کو ’’فقط‘‘ کہنا زیادتی ہے۔ دوسرا مصرع بہت فاصلے پر جا پڑا۔
 
خیال اُس کا مرے دل سے نوچ دے کوئی
کہ جس نے نورؔ محبت کا بھی صلہ نہ دیا
قابلِ قبول کہہ لیجئے، اس کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت ہی اعلیٰ ہے ۔۔ میں کوشش کرتی ہوں آپ کی دہ ہوئی ج باتیں ان سے د دوبارہ جوڑ توڑ کر وں ۔۔ جب تک وہ آتے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر ہیں لوگ سو الزام جو تراشے تو
دیا ہی کیا، وہ جو مریم سا سلسلہ نہ دیا

اسکی جگی ہ ملاحظہ کریں
بھلائی کرتی رہی میں صلہ مگر کیا تھا
بُرا دیا ہے سبھی نے کبھی بھلا نہ دیا
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ کیا کہ رنج دئے بےمثال تُو نے مگر
اُنہیں سہار سکوں ویسا حوصلہ نہ دیا
یہ چلے گا۔۔۔ ا''فلاطوں کا'' لکھا ہوا ہے اوپر


ارسطوؤں نے کہا ہے، بھلا ہوا کیا ہے
پنپنے کو جو افلاطوں کا حوصلہ نہ دیا


اور اسکی جگہ:
میں نے تو رقص کیا تھا فقط جو بسمل کا
دِوانی لوگو نے سمجھا، تو آسرا نہ دیا



ِدوانی جان کے کھاتے رہے ترس لیکن
کسی نے تھام مرے ہاتھ آسرا نہ دیا
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
یہ کیا کہ رنج دئے بےمثال تُو نے مگر
اُنہیں سہار سکوں ویسا حوصلہ نہ دیا
یہ چلے گا۔۔۔ ا''فلاطوں کا'' لکھا ہوا ہے اوپر


ارسطوؤں نے کہا ہے، بھلا ہوا کیا ہے
پنپنے کو جو افلاطوں کا حوصلہ نہ دیا
ایک بات کا یہاں خصوصی طور پر تذکرہ از حد لازم ہے کہ اُساتذہ کرام کی نکتہ آفرینی کے بعد چٹ پٹ اور فوری تراکیب و جوڑ توڑ سے اجتناب کیا کریں۔

ایک ایک بات کو غور سے پڑھیں۔ ۔۔ سمجھیں۔۔۔۔
تھوڑا وقت لگائیں۔۔۔ پھر غور کریں پھر غور کریں

اور تمام پہلوؤں کا بطریق احسن جائزہ لے کر پھر اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔ اور تنقید و اصلاح کو ملحوظ رکھ کر دوبارہ زیادہ بہتر انداز میں حاضر ہوں ۔
 
Top