نوید ناظم
محفلین
ترے آنے سے ایسا کیوں نہ ہوتا
دلِ بیمار اچھا کیوں نہ ہوتا
مجھے ہونا ہی تھا اس کا کسی دن
تجھے کیا اس سے' جا جا کیوں نہ ہوتا
ترے کندھوں پہ جو سر رکھ کے روتے
تو دل کا بوجھ ہلکا کیوں نہ ہوتا
دھکیلا ہے مجھے اُس نے یہاں تک
بھلا در' درد کا وا کیوں نہ ہوتا
ارے ہم سے نہ ہوتی بے وفائی
یہ فن بھی گرچہ سیکھا کیوں نہ ہوتا
دلِ کم بخت وہ صحرا ہے یارو
کہ پی جاتا یہ' دریا کیوں نہ ہوتا
دلِ بیمار اچھا کیوں نہ ہوتا
مجھے ہونا ہی تھا اس کا کسی دن
تجھے کیا اس سے' جا جا کیوں نہ ہوتا
ترے کندھوں پہ جو سر رکھ کے روتے
تو دل کا بوجھ ہلکا کیوں نہ ہوتا
دھکیلا ہے مجھے اُس نے یہاں تک
بھلا در' درد کا وا کیوں نہ ہوتا
ارے ہم سے نہ ہوتی بے وفائی
یہ فن بھی گرچہ سیکھا کیوں نہ ہوتا
دلِ کم بخت وہ صحرا ہے یارو
کہ پی جاتا یہ' دریا کیوں نہ ہوتا