نوید ناظم
محفلین
خوشی کم تھی' ملا ہے غم زیادہ
تبھی تو آنکھ بھی ہے نم زیادہ
ہمیں جب دیکھتے ہیں بزم میں وہ
تو ہونے لگتے ہیں برہم زیادہ
یہ لے میرے بھی حصے کی خوشی رکھ
کہ دکھ اچھا نہیں ہمدم زیادہ
کیا جو پیار تو کرتے گئے ہم
پھر اِس میں دیکھتے کیا کم زیادہ
مرے اللہ دریا چڑھ گیا پھر
نہ روتے کاش شب کو ہم زیادہ
پھر اس میں ہم الجھ جاتے ہیں دیکھو
نہ ڈالو زلف میں یہ خم زیادہ
تِری ہر اک غزل ہے یوں تو اچھی
نوید اِس میں مگر ہے دم زیادہ
تبھی تو آنکھ بھی ہے نم زیادہ
ہمیں جب دیکھتے ہیں بزم میں وہ
تو ہونے لگتے ہیں برہم زیادہ
یہ لے میرے بھی حصے کی خوشی رکھ
کہ دکھ اچھا نہیں ہمدم زیادہ
کیا جو پیار تو کرتے گئے ہم
پھر اِس میں دیکھتے کیا کم زیادہ
مرے اللہ دریا چڑھ گیا پھر
نہ روتے کاش شب کو ہم زیادہ
پھر اس میں ہم الجھ جاتے ہیں دیکھو
نہ ڈالو زلف میں یہ خم زیادہ
تِری ہر اک غزل ہے یوں تو اچھی
نوید اِس میں مگر ہے دم زیادہ
مدیر کی آخری تدوین: