نوید ناظم
محفلین
کسی نے اس سے یہ پوچھا کہاں ہے!
مِرے پہلو میں جو دل تھا کہاں ہے؟
جو میری دھوپ پر کل ہنس رہی تھی
اب اُس دیوار کا سایہ کہاں ہے
فقط ملتا ہے وہ اپنی غرض سے
مِرے دل سے کوئی رشتہ کہاں ہے
مریضِ عشق کا چارہ عبث ہے
اب اِس نے ہجر میں بچنا کہاں ہے
لو پیاسا مر رہا ہے تشنگی سے
کوئی پوچھے کہ اب دریا کہاں ہے
کئی نغمے مِرے دل میں چھپے ہیں
ابھی یہ تار بھی چھیڑا کہاں ہے
مجھے اندر سے کھائے جا رہا تھا
بھلا ہر زخم اب رِستا کہاں ہے
مِرے پہلو میں جو دل تھا کہاں ہے؟
جو میری دھوپ پر کل ہنس رہی تھی
اب اُس دیوار کا سایہ کہاں ہے
فقط ملتا ہے وہ اپنی غرض سے
مِرے دل سے کوئی رشتہ کہاں ہے
مریضِ عشق کا چارہ عبث ہے
اب اِس نے ہجر میں بچنا کہاں ہے
لو پیاسا مر رہا ہے تشنگی سے
کوئی پوچھے کہ اب دریا کہاں ہے
کئی نغمے مِرے دل میں چھپے ہیں
ابھی یہ تار بھی چھیڑا کہاں ہے
مجھے اندر سے کھائے جا رہا تھا
بھلا ہر زخم اب رِستا کہاں ہے