برائے اصلاح (مفاعیلن مفاعیلن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
کسی نے اس سے یہ پوچھا کہاں ہے!
مِرے پہلو میں جو دل تھا کہاں ہے؟

جو میری دھوپ پر کل ہنس رہی تھی
اب اُس دیوار کا سایہ کہاں ہے

فقط ملتا ہے وہ اپنی غرض سے
مِرے دل سے کوئی رشتہ کہاں ہے

مریضِ عشق کا چارہ عبث ہے
اب اِس نے ہجر میں بچنا کہاں ہے

لو پیاسا مر رہا ہے تشنگی سے
کوئی پوچھے کہ اب دریا کہاں ہے

کئی نغمے مِرے دل میں چھپے ہیں
ابھی یہ تار بھی چھیڑا کہاں ہے

مجھے اندر سے کھائے جا رہا تھا
بھلا ہر زخم اب رِستا کہاں ہے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔
مطلع میرے حساب سے تو درست ہے کہ میں ہندی یا دیو ناگری کے حساب سے چھ اور تھ کو الگ حرف مانتا ہوں۔ لیکن کلاسیکی اردو عروضیوں کے حساب سے اس میں ایطا کا سقم آ گیا ہے۔ ’ھا ہے‘ ردیف ہو جاتی ہے مطلع میں۔
اس کے علاوہ

مریضِ عشق کا چارہ عبث ہے
اب اِس نے ہجر میں بچنا کہاں ہے
دونوں مصرعوں میں ’ہے‘ آخر میں اچھا نہیں لگتا، اور ’اس نے کرنا ہے‘ پنجابی اردو ہے، فصیح اردو میں ’اس کو کرنا ہے‘ ہوتا ہے
 

نوید ناظم

محفلین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔
مطلع میرے حساب سے تو درست ہے کہ میں ہندی یا دیو ناگری کے حساب سے چھ اور تھ کو الگ حرف مانتا ہوں۔ لیکن کلاسیکی اردو عروضیوں کے حساب سے اس میں ایطا کا سقم آ گیا ہے۔ ’ھا ہے‘ ردیف ہو جاتی ہے مطلع میں۔
اس کے علاوہ

مریضِ عشق کا چارہ عبث ہے
اب اِس نے ہجر میں بچنا کہاں ہے
دونوں مصرعوں میں ’ہے‘ آخر میں اچھا نہیں لگتا، اور ’اس نے کرنا ہے‘ پنجابی اردو ہے، فصیح اردو میں ’اس کو کرنا ہے‘ ہوتا ہے
سر بہت شکریہ۔۔۔۔
مطلع کے پہلے مصرعے میں پوچھ ہے اور قائم مقام روی 'ا' اور دوسرے مصرع میں 'تھا' ہے جس کا الف اصلی ہے۔۔۔ سر کیا اس صورت میں بھی 'ہا' ردیف کا حصہ قرار پائے گا میرا تو یہ اندازہ تھا کہ اس صورت میں الف حرفِ روی اور ' کہاں ہے' ردیف ہو گی۔۔۔۔ آپ کی رائے پھر درکار ہے اس پر۔۔۔
سر اسی ضمن میں یہ سوال بھی ہے کہ دو چشمی ھ تو عروض میں شمار نہیں ہوتی تو اس صورت میں کیا یہ 'چا' اور 'تا' نہیں ہو گا؟

سر آپ کی رہنمائی کا ثمر ہے کہ مجھے یہ اندازہ تھا کہ ' ہے ' کی تکرار قبول نہ ہو گی' پتہ نہیں کیسے بے دھیان رہا اس سے۔ شعر بدل دیا' اب آپ دیکھیے گا۔۔۔
مریضِ عشق کا چارہ نہ کیجے
اب اس کو ہجر میں بچنا کہاں ہے
 
آخری تدوین:
سر بہت شکریہ۔۔۔۔
مطلع کے پہلے مصرعے میں پوچھ ہے اور قائم مقام روی 'ا' اور دوسرے مصرع میں 'تھا' ہے جس کا الف اصلی ہے۔۔۔ سر کیا اس صورت میں بھی 'ہا' ردیف کا حصہ قرار پائے گا میرا تو یہ اندازہ تھا کہ اس صورت میں الف حرفِ روی اور ' کہاں ہے' ردیف ہو گی۔۔۔۔ آپ کی رائے پھر درکار ہے اس پر۔۔۔
سر اسی ضمن میں یہ سوال بھی ہے کہ دو چشمی ھ تو عروض میں شمار نہیں ہوتی تو اس صورت میں کیا یہ 'چا' اور 'تا' نہیں ہو گا؟

سر آپ کی رہنمائی کا ثمر ہے کہ مجھے یہ اندازہ تھا کہ ' ہے ' کی تکرار قبول نہ ہو گی' پتہ نہیں کیسے بے دھیان رہا اس سے۔ شعر بدل دیا' اب آپ دیکھیے گا۔۔۔
مریضِ عشق کا چارہ نہ کیجے
اب اس کو ہجر میں بچنا کہاں ہے
اگر چھ اور تھ کو علیحدہ حروف تصور کیا جائے تو عیب باقی نہیں رہتا۔ تقطیع میں ھ کا شمار نہ ہونے کا قافیے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ علمِ قافیہ کی بنیاد آواز پر قائم ہے اور تا اور تھا کی آواز ایک سی نہیں۔
 
آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
اگر چھ اور تھ کو علیحدہ حروف تصور کیا جائے تو عیب باقی نہیں رہتا۔ تقطیع میں ھ کا شمار نہ ہونے کا قافیے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ علمِ قافیہ کی بنیاد آواز پر قائم ہے اور تا اور تھا کی آواز ایک سی نہیں۔
جی ٹھیک۔ رہنمائی کے لیے شکریہ:)
 
قوافی درست ہیں۔
تھا اور پوچھا کا مجموعی روی الف قرار پاتا ہے جو کہ آخری حرف ہے قافیے میں۔
اور اس کے مقابلے پر سایہ وغیرہ عام مستعمل ہے۔ بلکہ حسرت موہانی کے نزدیک ایسی صورت میں سایہ کی بجائے سایا لکھنا چاہیے۔

مجھے اندر سے کھائے جا رہا تھا​
بھلا ہر زخم اب رِستا کہاں ہے
۔۔بہت عمدہ!!​
 
بہت عمدہ جناب۔
جو میری دھوپ پر کل ہنس رہی تھی
اب اُس دیوار کا سایہ کہاں ہے

کئی نغمے مِرے دل میں چھپے ہیں
ابھی یہ تار بھی چھیڑا کہاں ہے

مجھے اندر سے کھائے جا رہا تھا
بھلا ہر زخم اب رِستا کہاں ہے
ڈھیروں داد۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
 

نوید ناظم

محفلین
قوافی درست ہیں۔
تھا اور پوچھا کا مجموعی روی الف قرار پاتا ہے جو کہ آخری حرف ہے قافیے میں۔
اور اس کے مقابلے پر سایہ وغیرہ عام مستعمل ہے۔ بلکہ حسرت موہانی کے نزدیک ایسی صورت میں سایہ کی بجائے سایا لکھنا چاہیے۔

مجھے اندر سے کھائے جا رہا تھا
بھلا ہر زخم اب رِستا کہاں ہے
۔۔بہت عمدہ!!​
بے حد شکریہ، اللہ پاک آپ کے علم میں مزید برکتیں عطا فرمائے-
 
Top