عاطف ملک
محفلین
استادِ محترم جناب الف عین ،دیگر اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں چند اشعار اصلاح کی نیت سے پیش کر رہا ہوں۔
نظم
نگاہوں میں مری کیسا یہ لرزہ خیز منظر ہے
سکوں عنقا ہوا ہے اور حالت دل کی ابتر ہے
شکستہ سی گلی ہے، گھر بھی کچھ مسمار دیکھے ہیں
کہ جیسے عہدِ رفتہ کے کوئی آثار دیکھے ہیں
کھڑا ہوں میں یہاں تنہا، فقط اک عالمِ ہُو ہے
خدا جانے کہاں سے آ رہی جلنے کی بدبُو ہے؟
میں اس بُو کے تعاقب میں کسی بستی میں جا پہنچا
نظر کے سامنے اب کے کوئی ویران گلشن تھا
تعفن اس قدر ہے، سانس لینا بھی ہوا دو بھر
گزرتی ہر گھڑی کے ساتھ حالت ہو رہی ابتر
ہوا معلوم اب! کہتے ہیں کس کو محشرِ دوراں
مری آنکھوں کے آگے جل رہی ہیں ادھ کھِلی کلیاں
یہ "بچے" چیختے ہیں، روتے ہیں، فریاد کرتے ہیں
"خدایا! کیا زمیں کو اس طرح آباد کرتے ہیں؟"
نگاہوں میں مری کیسا یہ لرزہ خیز منظر ہے
سکوں عنقا ہوا ہے اور حالت دل کی ابتر ہے
شکستہ سی گلی ہے، گھر بھی کچھ مسمار دیکھے ہیں
کہ جیسے عہدِ رفتہ کے کوئی آثار دیکھے ہیں
کھڑا ہوں میں یہاں تنہا، فقط اک عالمِ ہُو ہے
خدا جانے کہاں سے آ رہی جلنے کی بدبُو ہے؟
میں اس بُو کے تعاقب میں کسی بستی میں جا پہنچا
نظر کے سامنے اب کے کوئی ویران گلشن تھا
تعفن اس قدر ہے، سانس لینا بھی ہوا دو بھر
گزرتی ہر گھڑی کے ساتھ حالت ہو رہی ابتر
ہوا معلوم اب! کہتے ہیں کس کو محشرِ دوراں
مری آنکھوں کے آگے جل رہی ہیں ادھ کھِلی کلیاں
یہ "بچے" چیختے ہیں، روتے ہیں، فریاد کرتے ہیں
"خدایا! کیا زمیں کو اس طرح آباد کرتے ہیں؟"
آخری تدوین: