برائے اصلاح ( مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن)

نوید ناظم

محفلین
مجھ کو زمیں بھلی ہے تو آسماں کو رکھ لے
یہ خاک مجھ کو اچھی تو کہکشاں کو رکھ لے

اللہ کس لیے مجھ کو برق کہہ رہی ہے
چل میری جان اب تو بھی آشیاں کو رکھ لے

الفاظ کی سخاوت سے بھوک کیوں مٹے گی
بہتر یہی دہن میں اپنی زباں کو رکھ لے

تیرے یقین سے بھاری جو نہ ہو تو کہنا
پلڑے میں اک طرف تو میرے گماں کو رکھ لے

اتنی سی بات پر تو 'بھائی' نہ چھین میرا
چل تو مرے بھی حصے کے اس مکاں کو رکھ لے

وہ کب نوید سنتے ہیں بات تیرے دل کی
سینے میں ہی چھپا کر آہ و فغاں کو رکھ لے
 

الف عین

لائبریرین
میںہھر اس بات کو دوہرانا چاہوں گا کہ جس زمین میں بحر دو حصوں میں منقسم ہو، وہاں ہر حصے میں لفظ ہی نہیں، بات یا فقرہ بھی مکمل ہونا چاہئے۔ایک دو جگہ تو لفظ ہ ٹوٹ گیا ہے اس غزل میں۔ اس کی بحر تم نے درست ہی لکھی ہے، مفعول فاعلاتن دو بار، اور ایک بار کے بعد کچھ وقفہ ہو تو بہتر ہے۔
جیسے
تیرے یقین سے بھا ۔۔۔ ۔ری جو نہ ہو تو کہنا
 

نوید ناظم

محفلین
میںہھر اس بات کو دوہرانا چاہوں گا کہ جس زمین میں بحر دو حصوں میں منقسم ہو، وہاں ہر حصے میں لفظ ہی نہیں، بات یا فقرہ بھی مکمل ہونا چاہئے۔ایک دو جگہ تو لفظ ہ ٹوٹ گیا ہے اس غزل میں۔ اس کی بحر تم نے درست ہی لکھی ہے، مفعول فاعلاتن دو بار، اور ایک بار کے بعد کچھ وقفہ ہو تو بہتر ہے۔
جیسے
تیرے یقین سے بھا ۔۔۔ ۔ری جو نہ ہو تو کہنا
جی سر ٹھیک ' میں اب اس بارے محتاط رہوں گا۔
 
Top