نوید ناظم
محفلین
یہ بات اور ہے کہ کسی سے کہا نہیں
ہے کون سا وہ عقدہ جو ہم پر کھلا نہیں
کب' کون اس کے دل سے اتر جائے کیا پتہ
"بیگانگی سے اس کی کوئی آشنا نہیں"
اللہ لوگ مجھ پہ اٹھاتے ہیں سنگ کیوں
مدت ہوئی کہ ہاتھ میں اب آئینہ نہیں
وہ کیوں بھلا کہے گا میں خط اور مت لکھوں
اس نامہ بر نے ٹھیک سے شاید سنا نہیں
آتے ہی بزم میں' مجھے کہتے ہیں چل نکل
اب تک ہے کیوں یہاں پہ' تُو اب تک گیا نہیں
جلتا رہے چراغ ہواوں کے درمیاں
آگے جو ہو تو ہو' ابھی تک تو ہُوا نہیں
اُس کو بلا کے گھر میں نکل جائے دشت کو
آخر نوید ہے بھئی ' اِس کا پتہ نہیں
ہے کون سا وہ عقدہ جو ہم پر کھلا نہیں
کب' کون اس کے دل سے اتر جائے کیا پتہ
"بیگانگی سے اس کی کوئی آشنا نہیں"
اللہ لوگ مجھ پہ اٹھاتے ہیں سنگ کیوں
مدت ہوئی کہ ہاتھ میں اب آئینہ نہیں
وہ کیوں بھلا کہے گا میں خط اور مت لکھوں
اس نامہ بر نے ٹھیک سے شاید سنا نہیں
آتے ہی بزم میں' مجھے کہتے ہیں چل نکل
اب تک ہے کیوں یہاں پہ' تُو اب تک گیا نہیں
جلتا رہے چراغ ہواوں کے درمیاں
آگے جو ہو تو ہو' ابھی تک تو ہُوا نہیں
اُس کو بلا کے گھر میں نکل جائے دشت کو
آخر نوید ہے بھئی ' اِس کا پتہ نہیں